مود ی کے ’’زعفرانی‘‘ دعوؤں کی قلعی کھل گئی

عبدالقیوم فہمید  اتوار 28 ستمبر 2014
ہندو حکومت نے کارکردگی دکھانے کے بجائے محض بلند بانگ باتوں پر زور دیا۔ فوٹو: فائل

ہندو حکومت نے کارکردگی دکھانے کے بجائے محض بلند بانگ باتوں پر زور دیا۔ فوٹو: فائل

بھارت میں گزشتہ ہفتے لوک سبھا (پارلیمنٹ) کی تین اور ریاستی اسمبلیوں کی 33 خالی نشستوں پر ہونے والی پولنگ کے نتائج کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ نتائج قطعی طور پرحیران کن نہیں بلکہ توقع کے عین مطابق ہیں۔

دس ریاستوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) پوری زورآزمائی کے باوجود صرف 12سیٹیں حاصل کرسکی اور 18 نشستیں دوسری پارٹیاں جیت گئیں۔ چار ماہ قبل ہونے والے عام انتخابات میں اس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس اور اس کی اتحادی سماج وادی پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ضمنی انتخابات میں ان دونوں جماعتوں کی خاص تیاری نہ ہونے کے باوجود ان کی پوزیشن کافی حد تک بہتر ہوئی ہے۔

بی جے پی کو سب سے زیادہ موثر دھچکا جماعت کا گڑھ سمجھی جانے والی ریاست گجرات میں لگا ہے جہاں مودی کی جماعت نو میں سے صرف چھ سیٹیں حاصل کرسکی اور تین نشستیں کانگریس کو ملیں جبکہ پہلے یہ تین سیٹیں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس تھیں۔ اسی طرح ریاست راجستھان میں اسمبلی کی چار میں سے تین پرکانگریس کامیاب ہوئی اور بی جے پی کو ایک پراکتفا کرنا پڑا، البتہ مغربی بنگا ل سے بی جے پی نے ایک سیٹ حاصل کرلی ہے۔ پچھلے انتخابات میں وہاں سے جنتا پارٹی ہارگئی تھی۔ ضمنی انتخابات میں ریاستی اسمبلیوں کی مجموعی طورپر33 خالی نشستوں پر پولنگ کرائی گئی۔ ان میں اترپردیش کی گیارہ، گجرات کی نو،شمال مشرقی ریاستوں کی 5، راجستھان کی 4، چھتیس گڑھ میں ایک اور مغربی بنگال میں 2 نشستیں تھیں۔ ان میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو12، سماج وادی پارٹی کو 8 اور کانگریس کو 7 سیٹیں ملیں، باقی نشستیں دوسری پارٹیوں نے جیت لیں۔

لوک سبھا کی جن تین خالی سیٹوں پر پولنگ ہوئی ان میں بڑودا کی نشست پر بی جے پی کو کامیابی ملی ہے اور یہ سیٹ وزیراعظم نریندر مودی نے خالی کی تھی۔تاہم اس بار جیت کا فرق کافی کم ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ کی ایک سیٹ سماج وادی پارٹی اور ایک تلنگانہ کی راشٹریہ سمیتی کے حصے میں آئی۔

جہاں تک بھارت میں ہوئے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج اور ان کے اسباب ومحرکات کا سوال ہے تو یہ کوئی غیرمتوقع نتیجہ نہیں تھا۔ عام انتخابات سے قبل نریندری مودی صاحب اور ان کے ’’نورتنوں‘‘ کی جانب سے جس سطح کے بلندبانگ دعوے اور وعدے کیے گئے تھے حکومت بننے کے بعد ان کا عشر عشیر بھی عمل میں نہیں لایا جاسکا ہے۔گوکہ کسی بھی حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا معیار معلوم کرنے کے لیے اس کی 100دن کی کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے تاہم کسی بھی حکومت کے پہلے سو دن یہ پیشن گوئی ضرور کردیتے ہیں کہ آنے والے ایام کیسے ہوں گے اور حکومت مزید کیا تیر مارسکتی ہے۔

نریندر موودی کی حکومت کے پہلے سو دنوں کی کارکردگی رپورٹس بھی مختلف اداروں کی جانب سے تیار کی گئیں اور ان میں حکومت کی ناکامیوں اور کامیابیوں کے تذکرے کھلے ڈلے انداز میں کیے گئے ہیں۔ ان میں ایک بات مشترک ہے ، وہ یہ کہ مودی حکومت اپنے دعووں اور وعدوں کے برعکس ترقی معکوس کی طرف بڑھ رہی ہے۔

غربت کی سطح کم کرنا،کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا، بے گھر لوگوں کو رہائش کی فراہمی میں مدد کرنا، روزگا ر کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنا، معیشت کو پٹری پرلانا،انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک سونامی اٹھا دینا، ملک کو ایمپوٹر سے ایکسپورٹر کی طرف لے کر جانا، بلٹ ٹرین چلانا وغیرہ وغیرہ ۔ ہر چند کہ ان کے دعووں کی ایک طویل فہرست ہے جسے احاطہ تحریر میں لانے کے لیے کئی صفحات چاہئیں، لیکن حکومت کے وہ تمام دعوے اور وعدے کم ازکم اب تک نقش برآب ثابت ہوئے ہیں، جن کا عملًا کوئی وجود تک نہیں ہے۔

انتخابی نتائج کو چونکہ نریندر موودی اوران کی جماعت کی بدترین شکست سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف چارماہ قبل بڑے طمطراق کے ساتھ ریاستی اور قومی اسمبلی میں بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے والی جماعت اتنی تیزی سے زوال کا شکار کیوں ہوئی ہے۔ بھارت کے ایک کثیرالاشاعت اردو اخبار’’انقلاب‘‘ کو ’’مودی کے زعفرانی غرور کا سرنیچا‘‘ کے الفاظ سے سرخی کیوں جمانا پڑی۔ اس کی بنیادی وجہ حکمران جماعت کا ٹریک ریکارڈ کہ اس کے نزدیک کوئی قابل عزت ہے تو وہ صر ف ہندو ہیں اور مسلمان تمام دہشت گرد ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی کا ماضی مذہبی منافرت پھیلانے کے الزامات سے داغدار رہا ہے۔ حکومت بننے کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مودی صاحب گجرات کے واقعات کی اپنے دامن پرلگی سیاہی دھونے کی مقدور بھر کوشش کریں گے لیکن ان کی پوری ٹیم نے ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے کے مزید ایسے ایسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف بیدای نہیں بلکہ ’’بیزاری‘‘ کی لہر پیدا ہوئی ہے۔ مثال کے طور پرجنتا پارٹی کے’’لو جہاد‘‘ ہی کے نعرے کو لیجیے۔

یہ نعرہ دراصل بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندؤں کے ووٹ متحد کرنے کی ایک سیاسی کوشش سہی مگر اس کے منفی اثرات تادیر باقی رہیں گے۔ بی جے پی نے اس نعرے سے بھی سبق نہیں سیکھا حالانکہ ’’لوجہاد‘‘ نامی منافرت پرمبنی مہم کا مقصد ضمنی انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ہندوؤں کی وفاداریاں حاصل کرنا تھا، لیکن نتائج اس کے برعکس رہے ہیں۔ گویا نریندر مودی اور ان کے نورتن اب بھی بھارت میں ہندو مسلم فسادا ت کو ہوا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

بھارتی میڈیا نے بھی حکومت کے اس منافقانہ طرز عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں نریندرمودی اور ان کی جماعت کے عمائدین کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سیاست کی آڑمیں ملک کے سیکولر ڈھانچے کوختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔’’لوجہاد‘‘ نامی مہم کے باوجود بھارتی عوام نے ضمنی انتخابات میں شعور اور آگہی کا مظاہرہ کیا ہے اور انہوں نے فرقہ واریت کی حمایت کے بجائے بھارت کے سیکولر نظام کی حمایت کی ہے۔

مبصرین جہاں نریندر مودی کی معدودے چند کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں، جس میں خاص طورپر ان کی چین اور جاپان جیسے ممالک کے ساتھ قربت بھی شامل ہے، وہیں ان کی اب تک کی ناکامیوں کی ایک تفصیل بھی بیان کرتے ہیں۔ مودی کے پہلے ایک سو دنوں کے دوران ملک میں مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا، غربت کا گراف اونچا ہوگیا اور حد یہ ہے کہ نئی دہلی اور دیگر مرکزی شہروں میں گھر بار سے محروم افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک موقر بھارتی روزنامہ کی رپورٹ کے مطابق نریندر مودی کی حکومت سے قبل نئی دہلی کے فٹ پاتھوں پر اگر دس افراد رات کھلے آسمان تلے بسرکرتے تھے تواب یہ تعداد چالیس سے پچاس تک جا پہنچی ہے۔ ہوسکتا ہے اس دعوے میں مبالغہ ہو مگر کیا یہ مودی حکومت کی بدترین ناکامی کا نقطہ آغاز نہیں ہے؟

یہ درست ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کسی حد تک اپنی زبان کو بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور ان کے اہم ساتھی بھی خاموش ہیں، مگر کیا ان کی پارٹی کی دوسری اور تیسری درجے کی قیادت اور کارکن بھی اعتدال پسندانہ پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ مودی جی کی جماعت کو اسی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا ہے کہ ان کی صف اول کی قیادت خاموش اور دوسری اور تیسری صف کے لوگ نفرت پھیلانے میں مسلسل سرگرم عمل ہیں۔

عراق اور شام پر امریکا کی نئی یلغار کی تیاری

شام اور عراق کے کم و بیش 90 ہزار مربع کلو میٹر رقبے پردولت اسلامی ’’داعش‘‘ نامی ایک انتہا پسند گروپ کے قبضے اور ایک خود ساختہ اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دنیائے عرب بالخصوص شورش کاشکار دونوں پڑوسی ملک(عراق اور شام) امریکا اور اس کے عالمی اتحادیوں کی قیادت میں ایک نئی جنگ کا سامنا کرنے جا رہے ہیں۔

خلیجی ممالک، یورپ اور امریکا نے’’داعش‘‘ کو عالمی سلامتی کے لیے اسی طرح خطرہ قراردیا ہے جس طرح سنہ 2001ء میں امریکا میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد اسامہ بن لادن کی قائم کردہ القاعدہ کو اور سنہ 2003ء میں عراق کے صدرصدام حسین اور اس کے مبینہ اسلحہ کے ذخائر کو دنیا کے لیے نہایت مہلک قرار دے کر ان کے خلاف افغانستان اورعراق میں جنگ مسلط کی گئی تھی۔

جہاں تک داعش کی شدت پسندانہ سرگرمیوں اور اپنے نظریاتی مخالفین کے بہیمانہ انداز میں قتل عام کا تعلق ہے تو اسے کوئی بھی باشعور مسلمان قبول نہیں کر سکتا۔ داعش نے اپنی فتوحات میں تیزی کے ساتھ ڈرامائی انداز میں اضافہ کیا ہے تو یہ شائد اس تنظیم کی شدت پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ داعش کا ٹڈی دل لشکر جس علاقے میں گھستا ہے وہاں کے باشندے حتیٰ کہ پیشہ ور فوج کے بھی ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔ اس کی مثالیں عراق، شام اور لبنان کے سرحدی علاقوں میں ہونے والی لڑائیوں میں بہ کثرت ملتی ہیں۔ داعش کا یہ طریقہ واردات نہ صرف قابل مذمت بلکہ اسلامی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس تنظیم سے وابستہ مبلغ دین حنیف میں کھلے عام تحریف کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ من گھڑت احادیث کے ذریعے اپنی ناجائز کارروائیوں کو بھی عین اسلامی تعلیمات کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ داعش جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی پہلے تو مسلمان ممالک کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے مسلمان ممالک محض اپنے علاقائی مفادات کی خاطر اس قماش کے بدمعاش گروپوں کی نشوو نما میں حصہ بقدر جثہ تعاون فراہم کرتے ہیں۔ یہ مسلم دنیا کی ناکامی ہے کہ وہ اپنے مسائل کے خود حل کے بجائے امریکا اور مغرب کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت ہی نہیں بلکہ گاہے بگاہے جنگ کی بھی دعو ت دیتے ہیں۔

عراق کے سابق وزیراعظم نوری المالکی نے پچھلے سات سال تک عراق میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائے رکھی۔ داعش جیسے عناصر اسی فرقہ واریت کی جنگ کا نتیجہ ہے۔ مسلم دنیا شیعہ اور سنی کے بلاکوں میں منقسم رہی اور کسی نے تباہی کے دھانے پر کھڑے عراق کو بچانے کی کوشش نہ کی۔ اس سے بھی بدتر صورت حال سنہ2011ء میں شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد شروع ہوئی۔ شام کی خانہ جنگی نے بڑے مسلمان ممالک کو مختلف بلاکوں میں واضح طورپر تقسیم کردیا۔ ایران نے شامی بغاوت کی کھل کرمخالفت اور سعودی عرب اور دیگرخلیجی ملکوں نے بغاوت کو انقلاب قراردیا۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان پائے جانے والے تضادات نے شام کا مسئلہ توحل نہ ہونے دیا البتہ اس کے نتیجے میں شام میں داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے گروپوں کو جنم دیا۔ اب یہ گروپ عراق اور شام کے بعد دوسرے عرب ممالک حتیٰ کہ یورپ اور امریکا تک کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ یہ خطرہ کس حد تک حقیقی ہے اس پرالگ سے تفصیل سے بات ہونی چاہیے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس گروپ میں غیر مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان حتیٰ کہ نو مسلم بھی شامل ہو رہے ہیں۔ یور پ اور امریکا کی یہی سب سے بڑی پریشانی ہے۔

اسی پریشانی کی آڑمیں امریکا نے اپنے اتحادیوں سے مل کر داعش کو انجام سے دوچار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔آج سے تیرہ سال پیشتر امریکا اور اس کے حامیوں نے اس سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ القاعدہ کو ٹھکانے لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ کئی سال گزرجانے کے باوجود القاعدہ کا بھوت ابھی تک اپنی جگہ نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ اپنے رنگ و روپ بدل بدل کرسامنے آ رہا ہے۔

دولت اسلامی اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ القاعدہ کو ٹھکانے لگانے کی آڑ میں عراق افغانستان، پاکستان اور دوسرے ملکوں میں پچھلے تیرہ سال میں سات لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں۔ شام اور عراق میں داعش کا تعاقب کرنے کے بہانے نہ معلوم مزید کتنے معصوم انسان اپنی جانوں سے گزریں گے۔ امریکا کے پاس جنگ کے ہزار جواز موجود ہیں لیکن مسلمانوں کے پاس اس جنگ کو روکنے اور اپنی شکست تسلیم کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک امریکا شام اور عراق میں باضابطہ اور منظم حملہ شروع کردے اور مغربی دنیا کی قیامت خیز جنگی بلائیں معصوم مسلمانوں کا خون چوسنا شروع کردیں۔ معصوم اس لیے کہ گوریلا گروپوں کے خلاف فضائی حملے چاہے جس نوعیت کے بھی ہوں وہ بہرحال نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتے اور ان حملوں کا بے گناہ لوگ نشانہ بنتے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے خلیجی ملکوں نے داعش کے خلاف امریکی جنگ میں معاونت کا اعلان کیا ہے کاش یہ ممالک ایسے گروپوں کی روک تھام کے لیے امریکی سہارے کے بغیر کوئی قدم اٹھا سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔