نہیں! ریفرنڈم میں اسکاٹش عوام نے برطانیہ سے علیحدگی رد کردی

عارف عزیز  اتوار 28 ستمبر 2014
اسکاٹ لینڈ میں 20 لاکھ ایک ہزار 926  ووٹرز نے اس سوال پر ’نہیں‘ جب کہ 16 لاکھ 17 ہزار 989 نے ’ہاں‘ کی۔ فوٹو: فائل

اسکاٹ لینڈ میں 20 لاکھ ایک ہزار 926 ووٹرز نے اس سوال پر ’نہیں‘ جب کہ 16 لاکھ 17 ہزار 989 نے ’ہاں‘ کی۔ فوٹو: فائل

بے یقینی کی کیفیت، اضطراب، ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ کی کشمکش نے چند گھنٹوں بعد ہی دم توڑ دیا، لیکن اس دوران تین صدی پرانا تعلق شدید کرب سے گزرا ہو گا۔ عوامی ریفرنڈم کے وہ چند گھنٹے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کا اتحاد ختم کرسکتے تھے، لیکن ایسا ’نہیں‘ ہوا۔

برطانیہ سے اسکاٹ لینڈ کی علیحدگی کا سوال لیے 18 ستمبر کا ریفرنڈم نتیجے کے اعتبار سے اسکاٹش نیشنل پارٹی کی امنگوں کے خلاف رہا۔ اسکاٹ لینڈ کی 32 کونسلز میں ہونے والے اس ریفرنڈم میں اتحاد کے حق میں 55 فی صد ووٹ پڑے، جب کہ 45 فی صد نے علیحدگی کی خواہش ظاہر کی۔ تمام کونسلوں کے نتائج کے مطابق20 لاکھ ایک ہزار 926  ووٹرز نے اس سوال پر ’نہیں‘ جب کہ 16 لاکھ 17 ہزار 989 نے ’ہاں‘ کی۔

مکمل خودمختاری کی مہم کے سربراہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے ایلیکس سلمنڈ تھے، جب کہ اتحاد کی حمایت میں برطانوی وزیرِاعظم اور برٹش لیبر پارٹی کے ایلسٹر ڈارلنگ سرگرم رہے۔ ایلیکس سلمنڈ کی جماعت اسکاٹ لینڈ کی حکم راں بھی ہے، اور وہ ملک کے وزیرِاعلیٰ تھے، لیکن ریفرنڈم کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

ریفرنڈم کے نتائج کے بعد انہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے برطانیہ سے اپنے ملک کو وعدوں کے مطابق مزید اختیارات دینے کا مطالبہ کیا، جب کہ برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون نے عوام کو اختیارات کی منتقلی کا یقین دلایا۔ وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کی ہدایت پر ٹیکس، اخراجات اور حکومت کی جانب سے غرباء کی مالی امداد کے مختلف شعبوں میں اسکاٹ لینڈ کو اختیارات کی منتقلی کا آغاز کیا جارہا ہے، جب کہ 25 جنوری 2015 تک ’اسکاٹ لینڈ ایکٹ‘ کے نام سے مجوزہ قوانین کا ایک مسودہ برطانیہ کے دارالعلوم میں بحث اور منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔

اس ریفرنڈم میں اسکاٹ لینڈ میں مقیم 16سال اور زاید عمر کے شہریوں کو براہ راست فیصلہ دینے کا حق دیا گیا تھا۔ ووٹرز کے لیے ضروری تھا کہ وہ برطانوی یا یورپی یونین کے ممبر، یا دولتِ مشترکہ کے شہری ہوں اور انہیں برطانیہ میں داخلے اور رہائش کی اجازت حاصل ہو۔ اس کے علاوہ بیرونِ ملک مقیم رجسٹرڈ ووٹر بھی اس ریفرنڈم کا حصّہ بن سکتے تھے۔ ریفرنڈم میں 42 لاکھ  85 ہزار 323 ووٹرز نے حصّہ لیا اور 2608 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ ڈالے گئے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی آبادی 52 لاکھ سے زیادہ ہے۔

ریفرنڈم سے قبل متحدہ برطانیہ کے حق میں عوام کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون اور برطانیہ کی اہم سیاسی جماعتوں کا عہدنامہ بھی سامنے آیا تھا۔ تین سیاسی جماعتوں، کنزرویٹیو، لیبر اور لبرل ڈیموکریٹس کے سربراہان نے علیحدہ نہ ہونے کا فیصلہ دینے پر اسکاٹ لینڈ کو مزید اختیارات دینے کا وعدہ کرتے ہوئے دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ اس عہد نامے میں اسکاٹ لینڈ کی پارلیمان کو ’وسیع اختیارات‘ طے شدہ وقت پر دینے کا وعدہ سرِفہرست تھا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اس کا فیصلہ تینوں سیاسی جماعتوں کے سربراہان کریں گے۔ دوسرے حصّے میں کہا گیا کہ تینوں سربراہان نے اتفاق کیا ہے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ہی برطانیہ سب کے لیے مواقع اور سیکیوریٹی فراہم کرنے کو یقینی بناسکتا ہے۔ تیسرے حصے میں کہا گیا کہ ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی فنڈنگ کے بارے میں اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کا کُلی اختیار حاصل ہوگا اور وہ فنڈز اکٹھے کرنے میں آزاد ہوگی۔

اسکاٹ لینڈ ایک نیم خودمختار علاقہ ہے، جس کی پارلیمنٹ کے اختیارات محدود ہیں۔ خود مختاری کے حامی اور اسکاٹش نیشنل پارٹی، برطانیہ سے علیحدگی کو اسکاٹ لینڈ کی ترقی اور خوش حالی کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی نے 2011 کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی اور ریفرنڈم کا انعقاد ممکن بنایا۔ اس سے قبل 2007 کے الیکشن میں یہ جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرسکی تھی۔ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کا الحاق 1707 میں ہوا تھا، جس کے تین سو برس بعد اختیارات کی تقسیم کا مطالبہ سامنے آیا۔

یہ 11 ستمبر 1997 کی بات ہے، جب عوام نے اختیارات کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا اور اسکاٹش پارلیمنٹ قائم ہوئی۔ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کی حکومتوں کے مابین مختلف امور پر اختلافات ہیں۔ ان میں قدرتی وسائل اور کرنسی کا معاملہ کچھ عرصے سے سرِفہرست ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے شمالی سمندر میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کو علیحدگی کی خواہش کی بڑی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ شمالی بحیرہ کے مشرقی ساحل کو تیل کی ترسیل کا مرکز مانا جاتا ہے اور نوّے فی صد ذخائر اسی جگہ ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں یہ اسکاٹ لینڈ کی ملکیت ہوتا۔ اسکاٹش وزیراعلیٰ ایلیکس سلمنڈ تیل کی دولت کو ترقی کا ضامن بتاکر علیحدگی کے لیے عوام کو قائل کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زرِ مبادلہ کے سالانہ ایک ارب پاؤنڈ کی بچت کرنے سے ایک نسل کے بعد یہی ذخیرہ 30 ارب پاؤنڈ کا ہوجائے گا۔ اسکاٹ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس علاقے میں 24 ارب بیرل تیل موجود ہے، جب کہ برطانوی حکومت 15 ارب کے لگ بھگ کہتی ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ شمالی سمندر کے ذخائر برطانیہ کی ترقی کا ذریعہ رہے ہیں، لیکن اب یہاں سے تیل اور گیس کا حصول نہایت مشکل ہو گیا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ اس صنعت کا انتظام متحدہ برطانیہ سنبھالے رہے۔ اسکاٹش حکومت غذائی اجناس اور مشروبات، قدرتی توانائی، آبی وسائل اور برآمدات کی سالانہ آمدنی میں زیادہ حصّہ چاہتی ہے۔

اسکاٹش پارلیمنٹ اور اس کے اختیارات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ پارلیمنٹ ’تفویض شدہ امور‘ سے متعلق قوانین وضع کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ان میں زراعت، دیوانی اور فوج داری امور، انصاف، نظامِ تعلیم، صحت اور ماحول، آبادکاری، مقامی حکومت، کھیل اور فنون کے علاوہ ذرایع نقل و حمل شامل ہیں۔ دوسری طرف اسکاٹ لینڈ کے بعض امور، جن کے اثرات برطانیہ یا عالمی سطح پر مرتب ہو سکتے ہیں، کا اختیار برطانوی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ ان میں امورِخارجہ، دفاع، امیگریشن اور سماجی تحفظ کے قوانین شامل ہیں۔

اسکاٹش پارلیمنٹ 129 منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے۔ یہ پارلیمنٹ اسکاٹ لینڈ سے متعلق مختلف نوعیت کے مقامی امور پر کسی قانون کی منظوری دے سکتی ہے اور آمدنی ٹیکس کی بنیادی شرح میں مخصوص اضافہ یا تخفیف کرسکتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ ایکٹ 2012، اسکاٹش پارلیمنٹ کو ٹیکس کے نفاذ کا اضافی اختیار دیتا ہے، لیکن اس کا اطلاق 2016 سے پہلے نہیں ہوسکتا۔

اسکاٹش حکومت، اسکاٹش پارلیمنٹ سے مختلف ایک تنظیم ہے اور اس کی حیثیت اور فرائض الگ الگ ہیں۔ پارلیمنٹ تفویض شدہ امور پر قانون ساز مجلس ہے اور حکومت کے کام کی چھان بین اور نگرانی کرتی ہے جب کہ حکومت تفویض شدہ امور پر پالیسی وضع کرنے اور اس کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔

اس اتحاد کے حق میں عوام کا فیصلہ آنے کے بعد جہاں برطانیہ میں جشن منایا گیا، وہیں موجودہ حکومت اپنے وعدوں پر عمل درآمد کرنے کی تیاریاں اور اسکاٹ لینڈ کی حکومت کے مطالبات پر بھی غور کررہی ہے۔ اس کا مقصد متحدہ بادشاہت کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔

یورپ اور دنیا کے مختلف خطوں میں علیحدگی پسند تحریکیں

یورپ کے مختلف ممالک میں علیحدگی کی تحریکیں جاری ہیں۔ ان خطوں کے باسی اختیارات کے ذریعے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے اور ترقی و خوش حالی کا سفر طے کرنے کے خواہش مند ہیں۔ بیلجیئم، اسپین، جنوبی جرمنی، قبرص، چیک ری پبلک، فن لینڈ، پولینڈ، پرتگال اور سویڈن کے لیے اس ضمن میں مشکلات سر اٹھارہی ہیں۔ یہاں ہم دنیا کے اُن چند علاقوں کا ذکر کررہے ہیں، جو مرکزی حکومت سے آزادی اور خود مختاری چاہتے ہیں۔

٭ کیٹالونیا

کیٹالونیا اسپین کے زیرانتظام 17خود مختار آبادیوں میں سے ایک ہے۔ کیٹالونیا چار صوبوں بارسلونا، گرونا، للیڈا اور ٹیراگونا پر مشتمل ہے۔ اس کا دارالحکومت بارسلونا یورپ کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ 32114 مربع کلومیٹر پر محیط کیٹالونیا اسپین کے زیرانتظام سب سے تیزی سے کرتا ہوا خودمختار علاقہ ہے۔ 1975 سے 1982 کے دوران، جب کہ اسپین بادشاہت سے جمہوری طرزحکومت اختیار کررہا تھا، کیٹالونیا نے خودمختاری حاصل کی ترقی کی منازل طے کیں۔ کیٹالونیا کا نیم آزاد علاقہ اسپین کے تسلط سے نکل کر ریاست کے طور پر دنیا سے جڑنا چاہتا ہے اور وہاں کی حکومت نومبر میں اس سلسلے میں ریفرنڈم کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گذشتہ تین برسوں سے کیٹالونیا میں شہریوں کے اسپین سے آزادی کے مطالبے میں شدت آئی ہے۔

٭ کیوبک

1995 میں کیوبک میں کینیڈا سے علیحدگی کے لیے پندرہ برسوں کے دوران دوسری بار ریفرنڈم ہوا ۔ اس سے قبل 1980 میں منعقدہ ریفرنڈم کے دوران شہریوں کی اکثریت نے علیحدگی کو مسترد کردیا تھا۔ تاہم دوسرے ریفرنڈم میں علیحدگی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔ 2006 میں کینیڈا کی پارلیمان نے کیوبک کے شہریوں کو ’متحدہ کینیڈا کے اندر ایک قوم‘ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔

٭ فلینڈرز

بیلجیئم میں آزادی کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں۔ جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے بیلجیئم کو تین علاقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور ہر علاقہ اپنی منفرد شناخت رکھتا ہے۔ ’’فلیمش ریجن‘‘ میں رہنے والی کمیونٹی ’’ فلینڈرز‘‘ کہلاتی ہے جس کی زبان فرانسیسی ہے۔ ملکی آبادی میں ان کا تناسب 59 فی صد ہے۔ دوسرا بڑا علاقہ ویلون آبادی کا ہے جس کی مادری زبان ڈچ ہے۔ آبادی میں ان کا تناسب 41 فی صد ہے۔ ان کے علاوہ بہت کم تعداد میں جرمن بولنے والے بھی ہیں۔ اس طرح یہ ملک لسانی بنیادوں پر تین حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ شمالی حصہ ویلون جب کہ جنوبی حصہ فلینڈرز پر مشتمل ہے، اور ان کے درمیان جرمن بولنے والے رہتے ہیں۔

٭ موراویا

یہ چیک ری پبلک کا نیم خودمختار علاقہ ہے۔ موراویا کے عوام کی جانب سے مرکزی حکومت پر آزادی کے لیے دباؤ ہے۔ یہاں آزادی کے لیے سیاسی جدوجہد جاری ہے اور اس علاقے کے عوام خود کو لسانی، ثقافتی اعتبار سے ایک قوم مانتے ہیں اور مرکزی حکومت سے مکمل اختیارات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

٭ کورسیکا

یہ ایک جزیرہ ہے، جہاں بسنے والے فرانس سے خودمختاری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ 1769 سے اس جزیرے پر فرانس کی حکومت ہے۔ یورپ کے دیگر علاقوں کی طرح مکمل آزادی کی جدوجہد کرنے کے بجائے 2003 میں اس جزیرے کے لیے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا گیا، جسے مرکزی حکومت نے مسترد کردیا تھا۔

٭ سنکیانگ

چین کو خطے میں تبت کے علاوہ ہانگ کانگ میں بھی علیحدگی پسندوں کا سامنا ہے۔ یہ بیجنگ کا تسلط پسند نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ بھی چین میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں، جن میں صوبہ سنکیانگ میں چلنے والی تحریک سب سے اہم ہے۔ یہاں ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت ہے، جو آزادی کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ چینی فورسز، علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی بھی کرتی رہی ہیں۔

٭  کردستان:

کرد عوام برسوں سے آزاد وطن کے لیے بے تاب ہیں، اور اب جب کہ داعش کے خلاف ایک عالمی اتحاد بننے جارہا ہے تو ان کے پاس شمالی عراق میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ کرد آبادی صدام حسین کے دورحکومت میں مشکلات کا شکار رہی۔ علاوہ ازیں شام، ترکی اور ایران میں بھی مصائب ان کا پیچھا کرتے رہے۔ کردوں کی اکثریت اپنا الگ وطن چاہتی ہے، جہاں وہ مکمل مذہبی، ثقافتی آزادی کے ساتھ ترقی کا سفر طے کرسکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔