پیار نہیں ہے سُر سے جس کو؟

رئیس فاطمہ  اتوار 28 ستمبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

گزشتہ اتوار کا کالم جو فیروزہ بیگم اور گلوکار بشیر احمد کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔ قارئین نے نہ صرف پسند فرمایا بلکہ ایک گلہ بھی کیا کہ رونا لیلیٰ، شہناز بیگم اور فردوسی بیگم کے ذکر کو تشنہ کیوں چھوڑ دیا گیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ کالم صرف دو بنگلہ دیشی گلوکاروں کے لیے اس لیے مخصوص تھا کہ دونوں کا انتقال اسی سال ہوا ہے۔ اتنا تو ان دونوں کا حق بنتا تھا کہ انھیں یاد کر لیا جائے۔

مجھے خوشی ہوئی یہ جان کر کہ اس کالم کے ذریعے بہت سے لوگوں نے اپنے ماضی کو شیئر کیا۔ ایک کرم فرما خود گھر آ کر فیروزہ بیگم کی غزلوں کی سی ڈی دے گئے۔ وہ بھی ان باذوق لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے صرف گراموفون اور ریکارڈ پلیئر ہی پہ گیت نہیں سنے بلکہ وہ گیت بھی ان کے حافظے میں محفوظ ہیں جن کے آخر میں گلوکار یا گلوکارہ اپنا اپنا نام بھی بتاتے تھے۔ کملا جھریا، جوتھیکا رائے، کالو قوال اور دیگر کا ذکر انھوں نے کر کے میری معلومات میں اضافہ بھی کیا۔ ایکسپریس کے قارئین ان کے نام سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے کالموں میں اپنی پسندیدہ کتابوں کا ذکر کرتے ہیں۔

موسیقی کو ہمیشہ روح کی غذا کہا گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ آئی تھی کہ دودھ دوہتے وقت جب گائے کو موسیقی سنائی گئی تو اس نے زیادہ دودھ دیا۔ اور اب حال ہی میں ایک اور انکشاف ہوا ہے کہ جن کھیتوں میں بیج ڈالنے کے بعد پانی دینے کے دوران اور ان کی دیکھ بھال کے وقت جن کھیتوں میں موسیقی بجائی گئی ان کی بڑھوتری زیادہ ہوئی تو ثابت ہوا کہ موسیقی انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پودوں پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے فصلوں کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

چین کے ایک گاؤں جس کا نام لیانگ شینگ ہے وہاں کے کسانوں اور زرعی معلومات رکھنے والے اداروں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جن کھیتوں کو موسیقی نہیں سنوائی گئی ان کی فصلوں کی بڑھوتری کم رہی اور دور کیوں جایے محفل سماع میں کسی شعر یا مصرعے پہ حال آنا عام سی بات ہے۔ صوفیائے کرام کے مزارات پہ محفل سماع میں بھی دیکھا گیا ہے کہ بے شمار سامعین میں سے کوئی ایک وجد میں آ جاتا ہے۔

کیا آپ اس حقیقت سے اتفاق نہیں کریں گے کہ 70ء کی دہائی تک جب ہم ایک تھے اور ہمارا ایک بازو خود ہمارے طالع آزما سیاست دانوں اور جرنیلوں نے نفرت اور تعصب سے کاٹ کر نہیں پھینکا تھا۔ اس وقت تک یہ سرزمین وحشت، نفرت اور بربریت سے کوسوں دور تھی۔ ایک روشن خیال سوسائٹی تھی جس میں فنون لطیفہ کی ہر شاخ کا اپنا آشیانہ تھا بالخصوص موسیقی کا شعبہ بہت جاندار تھا۔ ایک طرف روشن آرا بیگم، اقبال بانو، استاد امانت علی، فتح علی اور مہدی حسن نغمہ سرا تھے تو ان کے ساتھ ساتھ فیروزہ بیگم، فردوسی بیگم، شہناز بیگم، بشیر احمد، احمد رشدی، گلشن آرا سید، رونا لیلیٰ اور مہناز بیگم اپنی اپنی آوازوں کا جادو جگا رہی تھیں۔

شہناز بیگم تو زیادہ تر کراچی ہی میں ہوتی تھیں۔ ریڈیو اسٹیشن پہ انھیں بہت دفعہ ہارمونیم کے ساتھ غزل سرا دیکھا۔ مہدی حسن کی گائیکی کی وہ بہت دلدادہ تھیں۔ ایسی سریلی آواز، ایسا لگتا تھا جیسے جھرنا بہہ رہا ہو۔ یوں تو شہناز نے بہت سے گیت اور نغمے گائے لیکن ذاتی طور پر ان کی گائی ہوئی ایک غزل مجھے بہت پسند ہے:

کہاں ہو تم چلے آؤ‘ محبت کا تقاضا ہے
غم دنیا سے گھبرا کر تمہیں دل نے پکارا ہے

مجھے نہیں معلوم اس جادو بھری آواز کو میں کیا نام دوں۔ لیکن کچھ ایسا اثر شہناز کی آواز میں ضرور ہے جو سیدھی جا کر جذبات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ شہناز بیگم اب بنگلہ دیشی فنکارہ کے طور پر جانی جاتی ہیں۔ اور شادی کے بعد شہناز رحمت اللہ کہلاتی ہیں۔ شہناز بیگم کے گائے ہوئے بیشتر نغمے لعل محمد اقبال اور سہیل رعنا کی موسیقی میں ترتیب دیے گئے۔ اسد محمد خان کا گیت:

موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے گھر تو آخر اپنا ہے

بھی مقبولیت کے لحاظ سے بہت آگے ہے۔ آج وہ صرف بنگلہ گیت گاتی ہیں۔ لیکن ان کی شہرت کا باعث اردو گیت اور غزلیں ہی ہیں۔

فردوسی بیگم بنگالی فوک گیتوں کی مقبول آواز تھی اور ہے۔ خاص کر ’’بھویا‘‘ کی لمبی اور اونچی تانیں فردوسی کی پہچان بنیں۔ فردوسی بیگم کا پورا گھرانہ انتہائی پڑھا لکھا اور موسیقی کا دلدادہ ہے۔ سابق چیف جسٹس مصطفیٰ کمال (بنگلہ دیش) فردوسی کے بڑے بھائی ہیں۔

دوسرے بھائی مصطفیٰ زماں عباسی کے علاوہ ان کی تین بھتیجیاں سمیرا عباسی، شرمینا عباسی اور ناہید کمال بھی موسیقی کے شعبے سے منسلک ہیں۔ فردوسی بیگم نے ریاض الرحمٰن صنعتکار سے شادی کی اور فردوسی رحمن کہلانے لگیں۔ 73 سالہ فردوسی رحمن دو بیٹوں روبائیت رحمٰن اور روزین رحمٰن کی ماں ہیں۔ یوں تو انھوں نے بنگلہ دیش کے علاوہ اردو میں بہت سے گیت اور غزلیں گائیں لیکن نواب سراج الدولہ نامی فلم میں گایا ہوا ان کا یہ گیت شاید ہی کبھی کوئی بھلا پائے۔ جن لوگوں نے وہ فلم دیکھی ہے انھیں یاد ہو گا کہ فلم دیکھنے والے بیشتر لوگوں کی آنکھیں نم تھیں۔ یہ گیت آج بھی سنیے تو تاثر وہی ہے جو پہلے تھا۔

ہے یہ عالم تجھے بھلانے میں
اشک آتے ہیں مسکرانے میں

نہایت اعلیٰ درجے کی کلاسیک فلم اور فردوسی کی لاجواب آواز۔ جب بھی سنیے اس کے سحر میں ڈوب جائیے۔

رونا لیلیٰ کے کیریئر کی شروعات بھی اردو گیتوں سے ہوئی۔ رونا لیلیٰ اور دینا لیلیٰ دونوں بہنوں کو پی ٹی وی نے متعارف کروایا۔ بالخصوص کراچی اسٹیشن کے ایک معروف پروڈیوسر نے جنھیں میں نے اکثر کراچی ٹیلی ویژن اسٹیشن پر بارہا دیکھا۔ دینا لیلیٰ سے سندھ کے ایک ممتاز سیاستدان نے شادی کر لی تھی پھر انھوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا اور خود زندگی ہار گئیں۔ لیکن رونا لیلیٰ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کامیاب رہیں ۔ بے شمار اردو فلموں میں ناقابل فراموش کلاسیکل رنگ میں گیت گائے۔ رونا لیلیٰ کی آواز میں جو کھنک تھی وہ انھیں دوسری گلوکاراؤں سے ممتاز کرتی تھی۔

پاکستانی فلم ’’امراؤ جان ادا‘‘ میں جو گیت انھوں نے گائے ہیں وہ انھیں ایک بڑی گائیکہ ثابت کرتے ہیں۔ ’’امراؤ جان ادا‘‘ کا کوئی کورس ہو، ڈوئیٹ ہو یا اکیلے گایا گیا گیت ہر ایک میں ان کی آواز کی کھرج، گلے کی مرکیاں ہر ایک لاجواب۔ رونا نے احمد رشدی کے ساتھ بھی کئی گانے گائے ہیں۔ رونا لیلیٰ نے انڈین فلم انڈسٹری کے لیے بھی گیت گائے۔ لیکن وہاں وہ لتا منگیشکر کی اجارہ داری کی وجہ سے جگہ نہ بنا پائیں۔ اگر رونا کو وہاں مواقعے ملتے تو یقینا وہ بہت بڑا مقام حاصل کرتیں۔ کیونکہ رونا لیلیٰ نے کلاسیکل موسیقی کی باقاعدہ تربیت لی تھی۔ لتا بہت بڑی گلوکارہ ہیں۔ ان کی آواز کے سحر سے بھلا کون واقف نہ ہو گا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ لتا کی اجارہ داری نے کئی گلوکاراؤں کے راستے میں روڑے اٹکائے۔

رونا لیلیٰ سے پہلے یہی سلوک وہ سمن کلیان پور، سدھا ملہوترہ اور ہیم لتا جیسی پیدائشی گلوکاراؤں کے ساتھ روا رکھ چکی تھیں۔ ان کی ناراضگی کوئی میوزک ڈائریکٹر یا فلم پروڈیوسر مول نہیں لے سکتا تھا۔ حد تو یہ کہ انھوں نے اپنی سگی بہن آشا بھونسلے کو بھی نہیں بخشا۔ لتا کسی ایسی گلوکارہ کو سامنے نہیں آنے دیتی تھیں جنھیں وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتی تھیں۔ جس طرح پاکستانی فلمی دنیا میں کوئی گانے والی میڈم نورجہاں کے قدم چھوئے بغیر اور ان کی آشیرواد لیے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی تھی، وہی حال وہاں لتا کا تھا۔ لیکن ایک موسیقار ایسا بھی تھا جس نے اپنی فلموں میں کبھی لتا سے کوئی گیت نہیں گوایا۔ یہ تھے اپنی طرح کے واحد میوزک ڈائریکٹر اوپی نیر۔ جنھوں نے ہمیشہ آشا بھونسلے کو موقع دیا۔

استاد امانت علی خاں کے ایک گیت کے بول ہیں:
’’پیار نہیں ہے سر سے جس کو۔ وہ مورکھ انسان نہیں‘‘

اور یہی حقیقت بھی ہے کہ موسیقی کے دلدادہ کبھی تشدد پسند نہیں ہوتے۔ تھوڑا سا حافظے پہ زور دیجیے تو بہت کچھ یاد آ جائے گا کہ ضیا الحق کی حکومت سے پہلے معاشرے میں اتنا تشدد، نفرت اور تعصب نہیں تھا۔ فنون لطیفہ کی تمام شاخیں پھل پھول رہی تھیں۔ آج ہر طرف ہتھیاروں کی گھن گرج ہے۔ سُر تال، لے موسیقی سب دم توڑ چکے ہیں۔ صرف نفرتوں کے ہارمونیم بج رہے ہیں۔ ذاتی مفاد کے طبلے کی تھاپ پہ ’’بی بی جمہوریت‘‘ ناچ رہی ہے اور بس۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔