جاگیردارانہ نظام اور مزارعے

نسیم انجم  اتوار 28 ستمبر 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

وہ عمر کے اعتبار سے بمشکل بیس پچیس سال سے زیادہ نہ تھی اس کی گود میں ایک ننھا سا بچہ بھی دبا ہوا تھا اور سیدھے شانے پر چمڑے کا وزنی بیگ لٹک رہا تھا وہ بس اسٹاپ پر اس طرح کھڑی تھی جیسے بس کا انتظار کر رہی ہو، لیکن جوں ہی سگنل کی سرخ بتیاں روشن ہوئیں وہ گاڑیوں کی طرف لپکی نہ معلوم وہ کیا کہتی اور پھر اپنے سوال کا جواب نہ پاکر آگے بڑھ جاتی جس وقت وہ میرے قریب آئی ہری بتی جلنے ہی والی تھی پھر بھی اس نے اپنا سوال میری جانب اچھال ہی دیا، میں نے کہا تم ماشا اللہ صحت مند ہو، نوجوان ہو، کسی بھی جگہ محنت مزدوری کر سکتی ہو، بھیک مانگنے سے تو بہتر ہے۔

اس معصوم بچے کو بھی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں لیے پھر رہی ہو۔ اپنے آپ پر نہیں تو اپنے بچے پر ہی رحم کھاؤ، اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے بولی پردیسی ہوں آپ کو پتہ ہے پنجاب میں سیلاب آیا ہوا ہے بس اس میں ہی گھر بار، برتن، بستر، مرغیاں اور بکری بہہ گئے، میاں میرا زمیندار کی نجی جیل میں بند ہے، میرے ’’کیوں‘‘ کہنے سے پہلے ہی اس نے جواب دیا، وہ جی ہم اس کا قرضہ جو نہ اتار سکے تھے۔ زمیندار اپنے مزارعوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔

میں ابھی اس شش و پنج میں مبتلا تھی کہ اسے کچھ دوں یا نہ دوں؟ کہ یہاں تو ایسی بے شمار بھیک مانگنے والی عورتیں چوراہوں پر نظر آتی ہیں، ان سب کے ہاتھوں میں ایک نوزائیدہ بچہ ہوتا ہے، نہ جانے یہ ایک ہی بچہ ہوتا ہے جو کرائے پر چلایا جاتا ہے چونکہ ہر بھکارن کے ہاں بیک وقت بچوں کی پیدائش کیسے ممکن ہے؟ نہ جانے ابھی میں کیا کیا سوچتی کہ سگنل بھی کھل گیا اور ہم اپنے مقررہ شاپنگ سینٹر میں بھی پہنچ گئے، اپنی مطلوبہ چیزیں خریدیں باہر نکلے دیکھا تو وہی عورت بہت تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی ہماری سمت آ رہی تھی، وہ جی وہاں کھڑے ہونے کا وقت ختم ہوگیا تھا، میں اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہ رہی تھی کہ اس کی بات سن کر میرے قدم خود بخود رک گئے۔

کیا مطلب وقت ختم ہو گیا؟ مجھے ایک فقیرنی نے بتایا کہ تو یہاں سے بھاگ جا، کہیں اور جا کر بھیک مانگ، یہ جگہ ہماری ہے، ٹھیکے پر لی ہے، صبح سے دوپہر کو ہم لوگ مانگتے ہیں اور دوپہر سے رات تک ’’خسرے‘‘ اس چوراہے پر دوڑتے پھرتے ہیں، اس نے جی یہ بھی بتایا کہ ان سب کو پولیس والوں کو بھتہ دینا پڑتا ہے۔

میرا تو جی پہلا اتفاق  ہے کل رات کو ہی آئی ہوں، کوئی سہارا نہیں تھا، کہاں جاتی، کرائے کے پیسے ادھار لے کر آ گئی ہوں، بھیک مانگ کر اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گی۔ اور بچے بھی ہیں؟ اس نے میرے سوال کے جواب میں بتایا کہ دو بچے اور ہیں جنھیں ایک پھل والے کے پاس بٹھا کر آئی ہوں۔

گھروں میں کام کرنا چاہو تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔ یہ جملہ ادا کرتے ہوئے اسے میں نے تھوڑی سی رقم دی، پیسے لیتے ہوئے اس کی آنکھوں سے اشک بہہ نکلے۔ کام مجھے مل گیا ہے لیکن تنخواہ تو مہینہ پورا ہونے پر ملے گی۔ بچے کے لیے دودھ، دوا کا بھی تو انتظام کرنا ہے نا، رات کو کھانا سیلانی کے دسترخوان پر کھا لیا تھا، انھوں نے میری داستان سن کر نوکری دلانے کا بھی وعدہ کر لیا ہے۔ صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک کی ڈیوٹی ہے۔

کہاں کام ملا ہے؟ ایدھی سینٹر میں مُردوں کو نہلانے کا، مجھے نہلانا تو نہیں آتا ہے، پر وہ سکھا دیں گے، باجی! پہلے مجھے مُردوں سے بہت ڈر لگتا تھا، لیکن اب نہیں لگتا ہے، اس لیے کہ میں نے بہت مردے دیکھے، زمیندار کے آدمی چھوٹی سی غلطی پر گولی مار دیتے ہیں، بغیر نہلائے، دھلائے زمین میں دبا دیتے ہیں اگر کوئی گھر والا اپنے مردے کو سفارش اور منت سماجت کر کے لے بھی لے، تو پھر خود ہی نہلاتے دھلاتے ہیں اور چادر میں لپیٹ کر دفن کر دیتے ہیں، ہمارے پاس کفن دفن کے پیسے نہیں ہوتے۔ کام کرنے والے لوگ بے حد غریب ہوتے ہیں پر ہوتے عزت دار ہیں، میرا پہلا موقعہ ہے۔

ایک بار پھر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس بار میں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ اپنے اشک پونچھتے ہوئے اسے اپنے گھر کا پتہ سمجھایا، فون نمبر دیا۔ اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کرنے کے گر سمجھائے، اس نے ہولے سے کہا میں کام پر جانے لگوں، ٹھکانہ مل جائے، تب پہلی تنخواہ ملنے کے بعد آپ کے پاس آؤں گی، آپ دعا کریں میرے پاس اتنے پیسے جمع ہو جائیں کہ میں اپنے میاں کو چوہدری جی کی جیل سے چھڑوا لوں۔ میں قرآن پڑھی ہوئی ہوں، ایدھی سینٹر میں رہنے والے بچوں کو پڑھایا بھی کروں گی اس کے پیسے مجھے علیحدہ ملیں گے، میں نے تجوید اور مخارج سے پڑھا ہوا ہے کلام پاک۔ اللہ تمہاری مراد بر لائے، میں تم سے سینٹر میں ملنے آؤں گی۔ جی باجی! ضرور۔ میرا نام بتول ہے، یہ رہا میرا شناختی کارڈ۔ میرا تو خیال ہے کہ تم اس کے ساتھ ہی چلی جاؤ، خوب نبھے گی جب دو دیوانے ملیں گے۔

میں آواز سن کر چونکی، یہ میرے میاں تھے جو بہت دیر سے ملاقات کے ختم کرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ اوہ!

میں پلٹی میں نے گھبراتے ہوئے کہا کہ بے چاری دکھوں کی ماری ہے، ہم سب کو غلط سمجھتے ہیں، سب غلط نہیں ہوتے ہیں۔ یہ وڈیرے، جاگیردار اپنے ملازمین پر بہت ظلم کرتے ہیں، پچھلے دنوں کی ہی تو بات ہے جب ایک ظالم ترین شخص نے ایک معصوم بچے کی چھوٹی سی غلطی پر اس کے دونوں ہاتھ مشین میں دے دیے تھے۔ بے چارہ غریب بچہ ہمیشہ کے لیے معذور ہو گیا اور یہ بھی پنجاب کا ہی واقعہ ہے۔ چند روز قبل جب ایک بچے پر معمولی سی بات پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اس کی ایک آنکھ ضایع ہو گئی۔

اب دیکھیں ناں پنجاب میں سیلاب آیا ہوا ہے سیکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے، گھر بار برباد ہو گئے، بھوکے، پیاسے معصوم بچے اور ان کے گھر والے کھلے آسمان تلے پڑے ہیں یا سیلاب میں لاشوں کی شکل میں بہہ گئے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ سب غریب کسان اور مزارعے ہیں، زمیندار تو اپنی حویلیوں میں بیٹھے ہیں انھیں تو سیلاب نے نقصان نہیں پہنچایا۔ معلوم ہے مجھے، میں بھی اخبار پڑھتا اور ٹی وی دیکھتا ہوں۔ انھوں نے سنجیدگی سے کہا اور مجھے سوچوں نے اپنے حصار میں لے لیا کہ واقعی بات درست ہے، صاحب اقتدار صرف اور صرف اپنی کرسی کی پرواہ کرتے ہیں، عوام کی نہیں۔ عوام ہر سال آسمانی و زمینی آفات میں مبتلا ہوتی ہے، اپنی جانیں گنواتی ہے، حکومت ہمیشہ ہی امداد کا وعدہ کرتی ہے لیکن افسوس وعدہ وفا نہیں ہوتا ہے۔

وہی پنجاب جس کی تعمیر و ترقی کے بڑے چرچے ہوا کرتے تھے پلوں کی تعمیر ہوئی تھی آج وہی پل اور عمارات پانی کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور ڈھے گئے۔ زلزلہ آئے یا طوفان، کسی بھی صوبے میں مصیبت نازل ہو ہماری فوج ہمہ وقت مدد کے لیے تیار رہتی ہے اور اکثر اوقات اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر کے شہادت کے مرتبے پر فائز ہو جاتی ہے پاکستان کے دشمن تاک میں رہتے ہیں جب بھی موقع ہاتھ لگتا ہے نشانے پر تیر مارتے ہیں پنجاب میں آیا ہوا سیلاب بھی بھارت کی محبتوں کا مرہون منت ہے، یہ بھی بڑی عجیب اور دکھ کی بات ہے ایک ملک کے وزیر اعظم تحائف بھیج رہے ہیں، آموں کی سوغات بھیجی جا رہی ہے اور وہ بدلے میں معصوم شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں کبھی بارڈر پر فائر کر کے تو کبھی پانی کا رخ موڑ کر سیلاب کا نذرانہ پیش کرکے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر رہے ہیں۔

جب کہ ہمارے وزیر اعظم نواز شریف ان کے ساتھ بے حد محبت کا برتاؤ کرتے ہیں اور اپنی عوام کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، وہ کبھی بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران ان مسائل پر گفتگو نہیں کرتے، انھوں نے کبھی پاکستان اور کشمیر کی محرومیوں، پکڑ دھکڑ اور شہادتوں پر آواز نہیں اٹھائی، بارڈر پر شہید ہونے والی افواج کے بارے میں باز پرس نہیں کی۔ آخر ایسا کیوں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔