فرق صاف ظاہر ہے

مقتدا منصور  پير 29 ستمبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بدھ کی صبح اطلاع ملی کہ بھارت کا خلائی جہاز منگل یان مریخ کے مدار میں داخل ہو گیا۔ یوں بھارت وہ پہلا ایشیائی ملک بن گیا، جو اپنے سائنسدانوں کی محنت کے نتیجے میں خلائی ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک کی صفت میں کھڑا ہو گیا۔ چند دہائی قبل سابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے پیش گوئی کی تھی کہ بھارت اکیسویں صدی میں علاقائی سپر پاور بن سکتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت نے آزادی سے پہلے جو اہداف طے کیے تھے، ان کے حصول میں کامیابیاں حاصل کر رہا ہے۔

رشک اور صحتمند تقابل تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے عملیت کو فروغ دیتا ہے۔ جب کبھی بھارت کی کامیابیوں کا تذکرہ ہوتا ہے، تو اس کا مقصد اپنے لوگوں کو مختلف میدانوں میں متحرک (motivate) کرنا ہوتا ہے۔ ہم نے 8 صدیاں ایک ساتھ گزاری ہیںاور تقریباً ایک جیسا طرز زندگی رکھتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے مقابلے میں ہندوستان میں مسائل کئی گنا زیادہ ہیں۔ اس کی آبادی ہم سے پانچ گنا ہے، لیکن لسانی اور مذہبی اکائیوں کی تعداد درجنوں سے بھی زیادہ ہے۔ مگر وہاں جمہوریت کے تسلسل اور قیادت کے سیاسی عزم و بصیرت نے اس پیچیدہ معاشرے کو 68 برسوں کے دوران ایک مضبوط لڑی میں پرو دیا۔

کلکتہ میں منعقد ہونے والے انڈین نیشنل کانگریس کے سیشن کے آخری روز یعنی یکم جنوری 1929 کو پنڈت موتی لعل نہرو نے اپنا صدارتی خطبہ دیا۔ اس خطبے میں انھوں نے پالیسی اعلان کیا کہ آزادی کے بعد ہندوستان سے ریاستیں، رجواڑے اور جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام نافذ کیا جائے گا۔ جب کہ مضبوط مرکزی (وحدانی) ریاستی ڈھانچہ تشکیل دینے کا عندیہ دیا تھا۔ حالانکہ آزادی کا دور دور امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔

یاد رہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے مضبوط مرکز کے تصور سے اختلاف کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کیا تھا۔ آزادی کا یقین ہونے پر 1946 میں معروف ماہر آئین و قانون ڈاکٹر امبیدکر کی سربراہی میں ایک 200 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے تین برس کی محنت شاقہ کے بعد آئین کا مسودہ بھارتی پارلیمان میں پیش کیا، جس نے 26 جنوری 1950 کو منظور کر کے نافذ کر دیا گیا۔ یوں بھارت ایک سیکولر جمہوریہ بن گیا۔

دوسرا اقدام یہ کیا گیا کہ 1929 کے پالیسی اعلان کو عملی شکل دینے کے لیے زرعی اصلاحات کا آغاز کیا گیا، جو 10 برس میں تکمیل پذیر ہوا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں ہندوستان میں ریاستوں، رجواڑوں اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہو گیا۔ جس نے جمہوری عمل کے استحکام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اسی طرح جب پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے، تو دنیا دو قطبی نظام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ بھارتی قیادت نے اس قطبی نظام سے خود کو دور رکھنے کا فیصلہ کیا۔

بعد میں بھارت کے پنڈت جواہر لعل نہرو، انڈونیشیا کے احمد سوئیکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر اور یوگوسلاویہ کے مارشل ٹیٹو کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں 1961 میں غیر وابستہ تحریک وجود میں آئی، جس نے عالمی سطح پر دو قطبیت کے اثرات کی شدت کو کم کرنے کے علاوہ بھارت کو عالمی سیاست میں اپنے مقاصد حاصل کرنے میں خاصی مدد دی۔ اس پالیسی کی وجہ سے بھارت اپنی معاشی ترقی کے لیے امریکا اور سوویت یونین دونوں سے خاطر خواہ امداد حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔

صنعتی ترقی کے ذریعے ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے پنڈت جواہر لعل نہرو نے بیرونی مصنوعات اور سرمایہ کاری پر پابندی عائد کر دی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں 1950 سے 1980 کے عشروں کے دوران بھارت نے اپنی صنعتوں اور مقامی معیشت کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز رکھی۔ لیکن 1990کے عشرے میں جب دنیا میں معاشی اہداف تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے تھے، نرسمہا راؤ کی کانگریسی حکومت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر من موہن سنگھ نے نہرو ڈاکٹرائن کو ختم کر کے بھارتی منڈی کو عالمی مصنوعات اور سرمایہ کاری کے لیے کھول دیا۔

یہ ایک بروقت اور بڑا فیصلہ تھا، جس نے بھارتی معیشت کو بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ عالمی صنعتکاروں کو بھارت کی شکل میں ایک بہت بڑی منڈی ملی، جب کہ سرمایہ کاروں کو بہت بڑی تعداد میں ہنرمند افرادی قوت اور ملک کے طول و عرض میں پھیلا صنعتی انفرا اسٹرکچر مل گیا۔ یوں بھارت نے معاشی نمو کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا شروع کی۔

عالمی معیشت دانوں کے خیال میں کسی ملک کی معیشت کے مستحکم ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہاں مڈل کلاس کی جسامت 45 سے 60 فیصد کے درمیان ہونا چاہیے۔ ہم بھارت میں خطِ افلاس سے نیچے بسنے والی آبادی کے اعداد و شمار تو پیش کرتے ہیں، لیکن قوت خرید رکھنے والی مڈل کلاس کی جسامت کی بات نہیں کرتے، جو عالمی سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کے لیے کشش کا باعث ہے۔ معاشی پالیسیوں میں تبدیلی کے باعث بھارت میں دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس  وجود میں آئی، جس کی جسامت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دوسری طرف جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی بھارت میں آمد نے اس کی صنعتی ترقی کو نئی جہت عطا کی۔ مثال کے طور پر عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 1990 میں بھارت کی کمپیوٹر کی برآمد صفر تھی۔ لیکن محض دس برس بعد 2000 میں بھارت کمپیوٹر سافٹ وئیر کی برآمد میں دوسرے نمبر پر آ گیا۔ 1990 کی دہائی میں امریکا کی جنرل موٹر کمپنی نے اپنے 26 کارخانے دنیا کے جن ممالک میں منتقل کیے، ان میں چین اور جرمنی کے علاوہ بھارت شامل تھا۔ یوں بھارت تیزی کے ساتھ بھاری صنعتوں کے میدان میں بھی آگے بڑھنے لگا۔

اس تناظر میں اب ذرا اپنی بات بھی کر لی جائے۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد پاکستان ان گنت سیاسی و معاشی مسائل کا شکار تھا۔ اس وقت کی بھارتی حکومت ہمارے حصے کے اثاثے دینے میں تاخیری حربے استعمال کر رہی تھی، جس کے لیے گاندھی جی کو ورت رکھنا پڑا۔ مہاجرین کی آمد اور ان کی آبادی کا دبائو بھی ملکی بقا کے لیے چیلنج بنا ہوا تھا، لیکن ملک کا پہلا بجٹ جو مارچ 1949 میں منظور ہوا، جس میں سماجی سیکٹر کے لیے کوئی بیرونی امداد نہیں لی گئی تھی اور یہ Surplus تھا۔

پھر 1950 کے عشرے میں کولمبو پلان کے تحت صنعتکاری میں عالمی تعاون ملا جب کہ مہاراشٹر اور گجرات سے آنے والے صنعتکاروں نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی تو ملک کے دارالحکومت کراچی کے ساتھ حیدرآباد کا جڑواں شہر کوٹری بھی صنعتی مرکز میں تبدیل ہو گیا۔ 1960 کے عشرے میں پاکستان کی معاشی نمو کی شرح بھارت سے زیادہ تھی اور پاکستانی روپے کی قدر بھی بھارتی روپے کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ اسی دوران وسطی پنجاب میں جی ٹی روڈ کے اطراف میں بھی صنعتکاری کا عمل شروع ہو گیا۔ لیکن 1965 کی جنگ، سقوط ڈھاکا اور پھر صنعتوں کے قومیائے جانے کے عمل نے پاکستان میں معاشی ترقی کے اہداف کو بہت نقصان پہنچایا۔

مگر سیاسی افراتفری، بھارت سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کے کچھ حقیقی اور کچھ فرضی تصورات نے دفاعی اخراجات کو ترقیاتی اخراجات پر فوقیت دینا شروع کر دی۔ ساتھ ہی افغان قضیہ میں بلاجواز الجھنے کی پالیسی نے پاکستان کے معاشی نمو کو بری طرح متاثر کیا۔ پھر جنرل ضیا کے دور میں پنج سالہ منصوبہ سازی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ صنعتی انفرااسٹرکچر کی بہتری پر عدم توجہی اور توانائی کے نئے ذرایع دریافت کرنے اور موجودہ ذخائر کو مناسب طور پر استعمال کرنے میں مختلف حکومتوں کی  ناکامی نے صرف صنعتی ترقی ہی کو متاثر نہیں کیا بلکہ زرعی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ یہی سبب ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد پاکستان کے ہر شعبے میں معاشی نمو کی شرح نیچے کی طرف جانے لگی۔ جس کے نتیجے میں پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی معکوس کی طرف گامزن ہو گیا۔

اس صورتحال کے باعث 1970 کے عشرے کے آنے تک پاکستان میں معاشی حالات اس مقام تک جا پہنچے، جہاں روزگار کے ذرایع میں پھیلائو کے بجائے سکڑائو آنے لگا۔ نتیجتاً تعلیم یافتہ اور ہنرمند افرادی قوت ملک سے باہر جانے لگی۔ ریاستی منصوبہ سازوں نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ملک میں روزگار کے نئے ذرایع پیدا کرنے کے بجائے اپنی توجہ اس زرمبادلہ پر مرکوز کر دی جو بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی بھیج رہے تھے۔ یوں پاکستان ایک پیداواری معاشرے سے صارف معاشرے میں تبدیل ہونے لگا۔

آج ہم ایک جوہری طاقت ضرور ہیں، لیکن توانائی کے بحران نے معاشی نمو کی صورتحال کو مزید ابتری کا شکار کر دیا ہے۔ جس انداز میں بھارت آگے بڑھ رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ ہنری کسنجر کی پیش گوئی کے مطابق بھارت جلد ہی عالمی قوت بن جائے گا۔ جب کہ ہم طرز حکمرانی اور ریاست کے منطقی جواز کی لایعنی بحث میں الجھے ہونے کی وجہ سے اپنے اصل اہداف کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران سائنسدانوں کو اس میدان میں کب اتارتے ہیں اور کب اقبال ؔ کی خواہش کی تکمیل میں ستاروں پر کمند ڈالتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔