جنگ منظم کاروبار ہے

یہ موصوف بھی BAE سسٹم نامی کمپنی کے بورڈ کے رکن ہیں جو دنیا ....


کامران جیلانی September 30, 2014

غیر جانبدار عالمی ذرایع ابلاغ یہ ثابت کرچکے ہیں کہ جنگ ایک منظم اور منافع بخش کاروبار ہے اس لیے اقتصادی بدحالی سے گزرنے کے باوجود امریکا اور اس کے حلیف مغربی ممالک کا جنگی جنون کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ صدر بارک اوباما ایک بار پھر عراق اور شام میں نئی جنگ کی تیاری کررہے ہیں۔ وہ قرار دے چکے ہیں کہ امریکا داعش کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے غیر ملکی حلیفوں پر مشتمل وسیع تر اتحاد کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

امریکی ذرایع ابلاغ اور تھنک ٹینک کے باشعور صحافی دانشور اور تجزیہ نگار عراق میں ISIS کے خلاف جنگی کارروائیوں کے بجائے مسئلہ کے حل کے لیے سفارت کاری پر زور دے رہے ہیں لیکن جنگ چونکہ ایک منظم کاروبار ہے اس لیے امریکی حکومت مقننہ، انتظامیہ، امریکی فوج کے کنٹریکٹر کے بااثر امریکی میڈیا ہاؤسز جنگ کے لیے راہ عامہ ہموار کرنے میں ملوث ہیں۔ معروف صحافی لی فیننگ نے اس حوالے سے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں اور دنیا بھر میں جنگوں پر ملکوں کو آزمانے اور رائے عامہ ہموار کرنے میں ملوث عالمی کاروباری مافیا کے چہرے سے نقاب ہٹایا ہے۔

لی فینگ نے انکشاف کیا ہے کہ ذرایع ابلاغ میں جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والے یعنی چند مبصرین کے پینٹاگان کے کنٹریکٹرز سے گہرے روابط ہیں جن میں سرفہرست ریٹائرڈ امریکی جنرلز جیک کیان اور انتھونی زینی سمیت ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کی افسر فرانسس ٹاؤن پنڈ ہیں ۔ ان با اثر مبصرین کے فوجی کنٹریکٹرز کے ساتھ تعلق کو کبھی امریکی ٹی وی چینلز پر طشت ازبام نہیں کیا گیا ۔ لی فینگ کے مطابق بیشتر مبصرین جنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں اور وہ دنیا کے بڑے ملٹری کنٹریکٹرز کے ساتھ بطور مشیران اور ڈائریکٹرز کام کر رہے ہیں۔

یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ جنرل جیک کیان اکیڈمی نامی کنٹریکٹرز کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے اور اکیڈمی اس کمپنی کا نیا نام ہے جس نے دنیا بھر میں اپنی بدنام زمانہ سرگرمیوں کے آشکار ہونے کے بعد بلیک واٹر سے نام تبدیل کرلیا تھا۔ یہ جنرل نہ صرف ملٹری مینوفیکچرر جنرل ڈائنمکس کے ممبر بورڈ کے طور پر کام کررہا ہے بلکہ ڈیفنس کنٹریکٹرز کے ساتھ کام کرنے والے سرمایہ کاری فرم SCP پارٹنرز سے بھی منسلک ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکا کی عراق میں موجودگی اور شام میں جنگ کے اندر ملوث ہونے کا تعلق بھی وسیع فوجی اخراجات سے ہے لیکن اس سے صرف مذکورہ مافیا کو ہی فائدہ ہوگا جو درپردہ امریکی دفاعی صنعت سے منسلک ہے ۔

لی فینگ کے مطابق جنگ کے شعلوں کو پھیلانے میں ملوث ملزمان میں سے ایک مبینہ ملزم جنرل جیک کیان ہے جو معروف امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز پر گزشتہ دو ماہ میں 9 بار بطور مبصر نمودار ہوا اور اس نے عراق میں داعش کے خلاف فوجی کارروائی کی وکالت کی ۔ جنرل جیک کیان نے گزشتہ دنوں چینل پر کہا تھا کہ اسے یقین ہے کہ عراق میں ہونے والی فضائی کارروائی میں توسیع ہوگی ۔ لیکن ضروری ہے کہ اس کارروائی کو شام تک پھیلایا جائے جس کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری ضروری نہیں تاہم حقیقت یہ ہی ہے کہ عسکری نقطہ نظر سے ہمیں عراق اور شام پر ایک ساتھ بمباری کرنی چاہیے ۔ یہاں حیرت ناک امر یہ ہے کہ مذکورہ جنرل کو چینل پر تھنک ٹینک میئر اور سابق امریکی فوجی افسر کے طور پر متعارف کرایا گیا اور اس کی پنٹاگان کے کنٹریکٹرز کے ساتھ وابستگی کو راز میں رکھا گیا۔

یہاں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ جنرل جیک کیان کا تھنک ٹینک داعش کے بارے میں معلومات کی فراہمی میں بھی ملوث ہے جو نیویارک ٹائمز اور بی بی سی چینل سمیت دیگر امریکی میڈیا ہاؤسز استعمال کررہے ہیں۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ کے تحقیقاتی چینلز اور معروف صحافی لی فینگ نے گزشتہ روز ایک معروف امریکی ریڈیو پر دیے گئے انٹرویو میں واضح کیا کہ مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات میں تبصرے اور تجزیے پیش کرنے والے ممتاز پنڈتوں کی شناخت ان کے سابقہ عہدوں اور کرداروں سے کرائی جاتی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا موجودہ کردار دفاعی کنٹریکٹرز کے اراکین بورڈ یا مشیران کا ہے۔

واضح رہے کہ جنرل جیک کیان فاکس نیوز پر عسکری مبصر ہیں اور وہ ہر اتوار کو باقاعدگی سے پروگرام میں شرکت کرتے ہیں ۔ فاکس نیوز امریکا کا سب سے بڑا کیبل نیٹ ورک ہے اور اس کی پرائم ٹائم نیوز سیکشن کو ساڑھے 4 ملین ناظرین دیکھتے ہیں۔ اس طرح دوسری شخصیت سابق صدر جارج بش کی انتظامیہ میں خدمات انجام دینے والی خاتون افسر فرانسس ٹاؤن سینڈ کی ہے جس نے داعش(آئی ایس آئی ایس) کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اسٹرٹیجک پلان پر زور دیا ہے یہ خاتون بھی بطور مبصر سی این این پر ہر دوسرے دن نمودار ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں یہ بھی متعدد دفاعی کنسلٹنگ فرمز کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں ۔

یہ خاتون ایک اور دوسری مولٹرنگ کمپنی میک اینڈ ریوز اینڈ فوربز کے لیے بھی کام کرتی ہیں جو کئی دفاعی کنٹریکٹرز کی مالک ہیں ۔ جس میں سب سے بڑی کنٹریکٹر فرم اے ایم جنرل ہے جو فوج کے لیے ہمویز اور آرمڈ گاڑیاں تیار کرتی ہے۔ یہ وہ ہی کمپنی ہے جس نے عراق جنگ سے غیر معمولی فائدہ اٹھایا اور امریکی حکومت کو لاتعداد گاڑیاں فروخت کیں۔ اس طرح معروف کمپنی CENTCOM کے سابق سربراہ چار ستاروں والے ریٹائرڈ جنرل انتھونی زینی نے بھی خطے میں بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر زور دیا۔

یہ موصوف بھی BAE سسٹم نامی کمپنی کے بورڈ کے رکن ہیں جو دنیا میں ایک بڑی ڈیفنس کنٹریکٹر فرم ہے لیکن اس کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکا کے ایک بڑے مالیاتی ادارے بینک آف امریکا نے حال ہی میں ایک تحقیق جاری کی جس کے مطابق BAE سسٹم کا گراف پورے سال گرا رہا ہے لیکن توقع ہے کہ وہ خطے میں عراق اور شام کے تنازعے کی وجہ سے اوپر آئے گا۔ اس صورتحال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح جنگ کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف مافیا کے ارکان بڑے ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنی رائے سے رائے عامہ کو جنگ کے لیے ہموار کر رہے ہیں۔

اس لیے شاید امریکی عوام کی اکثریت عراق میں داعش تنظیم کے خلاف فضائی حملوں کے حق میں ہے کیونکہ وہ صرف ان چینلز پر مخصوص دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے سنتے ہیں جو جنگ کی حمایت کرتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ فرانس میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کے لیے عالمی کانفرنس منعقد ہوچکی ہے جس میں 30 امریکی حلیف بشمول مسلمان ممالک بھی شامل ہیں جب کہ اوباما انتظامیہ پہلے ہی عراق اور شام میں فضائی حملوں کا فیصلہ کرچکی ہے اور صدر اوباما پہلے ہی قرار دے چکے ہیں کہ انھیں ان حملوں کے لیے کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ صدر اوباما امریکا میں امیگریشن اصلاحات کے بل کے لیے اپوزیشن کانگریس کا تعاون حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن اوباما انتظامیہ عراق کے خلاف جنگ کے لیے ووٹ کے ذریعے ملنے والے 2012 ء اختیار اور 2001 ء میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی منظور شدہ قرار داد کو ہی داعش کے خلاف کارروائی کے لیے قانونی اختیار کے تسلسل کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پوری دنیا میں جنگ صرف مسلمانوں کے خلاف کیوں ہے۔ امریکی نے کبھی وینزویلا پر حملہ کیوں نہیں کیا۔

امریکا نے کبھی کیوبا پر حملہ کیوں نہیں کیا۔ امریکا نے صرف اسلامی ممالک کو ہی کیوں نشانہ بنایا۔ یہ وہ سوالات ہیں جس کے جوابات موجود ہیں لیکن جب امریکا کو اسلامی ممالک کے حملے کا جواز بھی مل رہا ہے اور وسائل بھی مل رہے ہیں تو وہ کیوں کسی دوسرے غیر اسلامی ملک پر حملہ کرے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں