بلیک ہولز کا کوئی وجود نہیں!

ندیم سبحان  منگل 30 ستمبر 2014
نئی تحقیق نے دنیائے طبیعیات میں ہلچل مچادی۔ فوٹو: فائل

نئی تحقیق نے دنیائے طبیعیات میں ہلچل مچادی۔ فوٹو: فائل

بلیک ہولز عشروں سے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز چلے آرہے ہیں۔ ماہرین طبیعیات انھیں کائنات کے کثیف ترین اجسام تصور کرتے ہیں جن کی تجاذبی کشش روشنی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔

روشنی منعکس نہ کرنے کی وجہ سے یہ تاریک نظر آتے ہیں، اسی لیے انھیں ’ بلیک ہول ‘ کہا جاتا ہے۔ ’’ بلیک ہول ‘‘ کے نظریے کی بنیاد پر ماہرین طبیعیات متعدد دیگر نظریات بھی پیش کرچکے ہیں۔ بلیک ہولز ہمیشہ سے سائنس دانوں کے لیے پُراسرار رہے ہیں اور بدستور ایک معمّا ہیں۔ سائنس داں ہنوز ان پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم یونی ورسٹی آف نارتھ کیرولینا میں طبیعیات کی پروفیسر نے ریاضیاتی طور پر یہ ثابت کرکے دھماکا کردیا ہے کہ بلیک ہولز وجود ہی نہیں رکھتے۔

اس سے قبل رواں برس کے آغاز پر عالمی شہرت یافتہ طبیعیات داں اسٹیفن ہاکنگ کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع ہوئی تھیں کہ بلیک ہولز وجود نہیں رکھتے۔ درحقیقت ہاکنگ نے بلیک ہولز کے وجود سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ بلیک ہولز کی صورت     اور ان کا طرز عمل وہ نہیں ہے جو اب تک سمجھا جاتا رہا ہے۔ تاہم حالیہ تحقیق وہ پہلی تحقیق ہے جو بلیک ہولز کے وجود سے صریح انکار کرتی ہے۔

پروفیسر لارا مرسینی ہیوٹن نے دو متنازع نظریات کو یکجا کرکے حسابی طور پر ثابت کیا ہے کہ بلیک ہولز تخلیق پا ہی نہیں سکتے تھے۔ یہ تحقیق سائنس دانوں کو زمان ومکاں تواصل ( space-time continuum) کے ساتھ ساتھ آغاز کائنات کو بھی ازسرنو زیرغور لانے پر مجبور کرتی ہے۔

عشروں سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ بلیک ہولز اس وقت وجود میں آتے ہیں جب ایک بہت جسیم ستارہ اپنی بڑھتی ہوئی کثافت کے زیراثر خود میں سمٹ جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے زمین سمٹ کر ایک گیند جتنی جسامت اختیار کرلے۔ طبیعیات کی اصطلاح میں یہ کیفیت ’ انفرادیت ‘ یا ’ سنگولیریٹی ‘ کہلاتی ہے۔ ایک غیرمرئی جھلّی یا چادر جو افق وقیع ( event horizon ) کہلاتی ہے، سنگولیریٹی کے گرد پھیل جاتی ہے۔ اس افق کو پار کرنے کا مطلب ہے آپ واپس نہیں آسکتے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں ایک بلیک ہول کی تجاذبی قوت اتنی طاقت ور ہوتی ہے کہ کوئی بھی شے اس کی گرفت سے بچ کر نہیں نکل سکتی۔

بلیک ہولز کے اس قدر عجیب طرزعمل کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ طبیعیات کے دو بنیادی مگر بالعکس نظریات کو یکجا کرتے ہیں۔ آئن اسٹائن کا نظریۂ اضافت بلیک ہولز کی تشکیل کی پیش گوئی کرتا ہے لیکن کوانٹم نظریے کا بنیادی قانون کہتا ہے کہ کائنات سے کوئی بھی معلومات غائب نہیں ہوسکتی۔ ان دونوں بنیادی نظریات کو یکجا کرنے کا نتیجہ mathematical nonsense کی صورت میں برآمد ہوا جسے information loss paradox بھی کہا جاتا ہے۔

1974ء میں مشہور طبیعیات داں اسٹیفن ہاکنگ نے کوانٹم میکانیات کی مدد سے ظاہر کیا کہ بلیک ہولز تاب کاری خارج کرتے ہیں۔ اس کے بعد سے سائنس دانوں کو کائنات میں ایسے شواہد یا نشانات ملتے رہے جو اس تاب کاری سے مطابقت رکھتے ہیں، نتیجتاً مزید بلیک ہولز ’ دریافت ‘ ہوتے چلے گئے۔

مگر اب مرسینی ہیوٹن بالکل نیا منظرنامہ پیش کررہی ہیں۔ مرسینی تسلیم کرتی ہیں کہ جب کوئی ستارہ بڑھتی ہوئی کثافت کے زیراثر انحطاط پذیر ہوتا ہے تو یہ تاب کاری خارج کرتا ہے جو اسٹیفن ہاکنگ کی نسبت سے Hawking radiation کہلاتی ہے۔ تاہم ان کی تازہ تحقیق کہتی ہے کہ تاب کاری کے ساتھ ساتھ ستارہ کمیت بھی خارج کرتا ہے۔ عام الفاظ میں وہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ کمیت نہ ہونے کی وجہ سے کثافت بھی باقی نہیں رہتی، نتیجتاً وہ بلیک ہول میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔ اس سے پہلے کہ یہ ’مرتا‘ ہوا ستارہ بلیک ہول بنے، یہ آخری بار پھیلتا ہے اور پھر دھماکے سے پھٹ جاتا ہے اور اس کی کمیت یا اجزائے ترکیبی ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔ اس طرح نہ تو ’سنگولیریٹی‘ جنم لیتی ہے اور نہ ہی افق وقیع وجود میں آتا ہے۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ بلیک ہول جیسی کوئی شے تشکیل نہیں پاتی۔

اگر ہیوٹن کی تحقیق درست قرار پاتی ہے تو پھر طبیعیات کے میدان میں انقلاب برپا ہوجائے گا اور ’ بگ بینگ ‘ سمیت بہت سے نظریات غلط ثابت ہوجائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔