بلاول بھٹو کے لیے مشورہ

نصرت جاوید  بدھ 1 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بلاول بھٹو زرداری سے میں کبھی نہیں ملا۔ سوشل میڈیا پر البتہ وہ بہت متحرک ہیں اس لیے ان کی سوچ سے تھوڑی بہت آشنائی ہوتی رہتی ہے۔ اتوار کے رات جب ہمارے ملک کے تمام نیٹ ورکس عمران خان کے لاہور والے جلسے پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے ان کی معافی ’’بریکنگ نیوز‘‘ کی صورت ہمارے سامنے آئی۔ بعدازاں اسی حوالے سے ان کے مفصل تحریری بیان کو میں نے بہت غور سے پڑھا۔ ان کا یہ بیان کم از کم مجھے واضح طور پر یہ پیغام دیتا محسوس ہوا کہ ان کی جماعت کے کئی دیرینہ جیالے تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے پر تول رہے ہیں۔

ان سے معافی تلافی کی درخواست کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری مجھے اس شمولیت کو روکنے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔ ہو سکتا ہے میرا خیال درست نہ ہو لیکن میری سوچ اگر درست ہے تو ساتھ ہی دل میں یہ خواہش بھی پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ اپنے قدیمی جیالوں کو معافیاں مانگ کر روکنے کی کوششیں نہ کرتے۔ اس خواہش کا اظہار میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس رویے کو یاد کرتے ہوئے لکھنے پر مجبور ہوا جس کے ذریعے انھوں نے اپنے والد سے ورثے میں ملے ہوئے ’’انکلز‘‘ سے جان چھڑائی تھی۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ محترمہ کو اپنے بیٹے کے مقابلے میں کہیں زیادہ دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کی سیاست جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے شروع ہوئی۔ والد ان کے قتل کے مقدمے میں ملوث قرار دے کر جیل میں ڈال دیے گئے۔ کسی فوجی عدالت کے بجائے انھیں عام عدالتوں کے ذریعے پھانسی کی سزا دلوائی گئی۔ ان دنوں کی پیپلز پارٹی کا کوئی سرکردہ رہنما مصیبتوں کی اس گھڑی میں محترمہ کی کوئی مدد نہ کر پایا۔ صرف کارکن ان کا ساتھ دیتے رہے۔

جنرل ضیاء نے انھیں سرسری سماعتوں کے ذریعے لمبی اور سخت سزائیں دلوائیں۔ کئی ایک کو برسرِ عام کوڑے بھی مارے گئے۔ بے تحاشہ کارکن اپنی جان بچاتے اس ملک سے فرار ہو گئے۔ مکمل بے کسی کے ان حالات میں بھی پیپلز پارٹی کے صف اوّل کے اکثر رہنما مختلف حیلوں بہانوں سے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ کو “Mature” سیاست کے مشورے دیتے رہے۔ محمود ہارون کے ذریعے جنرل ضیاء نے غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو عبوری وزیر اعظم بنانے کے جھانسے دیے۔ ممتاز بھٹو اور عبدالحفیظ پیرزادہ نے لندن بیٹھ کر پاکستان کو فیڈریشن کے بجائے کنفیڈریشن میں تبدیل کرنے کی تمنا کا اظہار شروع کر دیا۔

ان کی اس تمنا نے اپنے تئیں ’’شیرِپنجاب‘‘ بنے غلام مصطفیٰ کھر کو ’’1973 کا آئین بچانے‘‘ کا عہد دہرانے پر مجبور کر دیا اور محترمہ تنِ تنہا بڑے صبر کے ساتھ اپنی جماعت کو زندہ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف رہیں۔ سیاست کی انتہائی ذہین طالب علم ہوتے ہوئے ا نہوں نے جبلی طور پر دریافت کر لیا تھا کہ ’’افغان جہاد‘‘ کی موجودگی میں جنرل ضیاء سے نجات ممکن نہیں۔ وہ اس آمر کے دیے نظام کے اندر رہتے ہوئے بھی اپنے لیے راستے بنانا چاہتی تھیں۔ اسی لیے ان کی بڑی خواہش تھی کہ 1985 کے ’’غیر جماعتی انتخابات‘‘ میں ہر صورت حصہ لیا جائے۔

ایم آر ڈی میں شامل اصغر خان جیسے ’’کٹر جمہوریت پسندوں‘‘ نے ان کی اس خواہش کو مگر ویٹو کر دیا۔ پیپلز پارٹی جیسی جماعتوں کی جانب سے ان انتخابات کے بائیکاٹ نے ہمیں ذات، برادری اور دھڑے بندی کی بنیاد پر بنے ایک ایسے سیاسی نظام سے متعارف کروا دیا جہاں انتخابی امیدواروں کو ’’اپنا حلقہ‘‘ جیتنے کے لیے بھی بہت پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ 2014تک پہنچ کر بھی ہم اس نظام سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ عمران خان نے ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے سے ان دنوں ہمارے شہری متوسط طبقات کے دل بہت گرما رکھے ہیں لیکن ان کے اِرد گرد جمع لوگوں پر ایک سرسری نگاہ آپ کو نام نہاد Electables کی قوت اور جکڑ سے پوری طرح آشکار کر دیتی ہے۔

پیپلز پارٹی میں ایسے Electables کا ہجوم تحریک انصاف سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لیکن یہ Electables  خود کو نواز شریف کے Electables کے آگے 1980 کی دہائی سے مسلسل زچ ہوتے محسوس کر رہے ہیں۔ عمران خان کی صورت میں انھیں ’’مزا تو اب آئے گا‘‘ والی Sadistic لذت محسوس ہو رہی ہے۔ وہ ’’جیہڑا جِتے اودھے نال‘‘ والی جلدی میں ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی داد فریاد انھیں روک نہ پائے گی۔ بہتر یہی ہوتا کہ بلاول انھیں جہاں رہیں خوش رہیں والے رویے کے ساتھ نظر انداز کر دیتے۔

اپنی فرصت کے ان اوقات میں ان جیسے پڑھے لکھے نوجوان کو اصل توجہ 1967 کے بعد پیپلز پارٹی کی اٹھان کی بنیادی وجوہات کو پوری طرح سمجھنے پر مرکوز رکھنا چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور کے شہری متوسط طبقے کی خواہشات کو بھرپور انداز میں سمجھ کر اپنا جلو دکھایا تھا۔ آج کے ایسے طبقات کے لیے پیپلز پارٹی کے نام نہاد Electables کے پاس کوئی پیغام ہی نہیں ہے۔ عمران خان اور ان کے Electables میرٹ-میرٹ کا ورد کرتے اور کرپشن کے خلاف دہائی دیتے درحقیقت اس سرمایہ دارانہ نظام کی مکمل بالادستی چاہتے ہیں جہاں مارکیٹ اکانومی کی باریکیاں سمجھنے والے ذہین و فطین افراد ریاستی مداخلت اور سرپرستی کے بغیر تیزی سے Upward Mobility کے سفر پر رواں ہو سکیں۔

ایسے لوگوں میں جذبوں کی شدت تو بہت توانا نظر آتی ہے مگر ہمارے ہاں کے ریاستی نظام کی مبادیات کو بدلنا تو دور کی بات ہے انھیں پوری طرح جان کر ان کے بارے میں سوالات اٹھانے کی جرأت ہرگز نہیں۔ ہمارے نام نہاد Electables خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اس حقیقت کا سامنا کرنے سے ہمیشہ کتراتے ہیں کہ افغان جہاد کے بعد سے ہمارے معاشرے میں خوفناک تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک جہادی بیانیہ ہے جو ’’شرعی نظام کی بالادستی‘‘ کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے۔ اس بیانیے نے شرعی نظام تو ہمیں ابھی تک فراہم نہیں کیا مگر بہت سارے ایسے سوالات لوگوں کے دلوں میں بٹھا دیے ہیں جن کی وجہ سے فرقہ وارانہ تقسیم خوفناک حد تک گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہماری ریاست امریکا، افغانستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کا منطقی انداز میں از سر نو جائزہ لیے بغیر ایسے حالات پیدا کر ہی نہیں سکتی جہاں لوگوں کی اکثریت اپنی ذہنی توانائیوں کو پاکستان میں معاشی خوشحالی اور استحکام حاصل کرنے کی جانب پوری طرح مبذول کر سکے۔

ماؤزے تنگ کے بنائے عوامی جمہوریہ چین کو 1979 سے ڈینگ سیاؤ پنگ نے ان اہداف کی طرف بڑی جرأت اور ثابت قدمی کے ساتھ موڑا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری اس طرح کا ماحول پاکستان کے لیے بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے انھیں ہمارے نوجوانوں کو سمجھانا یہ ہو گا کہ ’’تبدیلی‘‘ کا مقصد صرف امیروں کو ریاستی مداخلت کے بغیر مختلف اشیائے صرف کے اجارہ داروں میں تبدیل کرنا اور ملٹی نیشنلز کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہی نہیں۔ حقیقی تبدیلی کے لیے بے زمین کسانوں اور سرکاری اسکولوں میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر رٹا لگاکر فروعی سی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکریوں کے لیے بدحال نوجوانوں کے لیے بھی کچھ سوچنا ہو گا۔ پاکستانی ریاست میں اب یہ سکت ہی باقی نہیں رہی کہ وہ ایسے نوجوانوں کو Electables کی سفارشوں کے ذریعے چھوٹی موٹی نوکریوں میں کھپا سکے۔

Youth Bulge کو تخریبی لاوے میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے ہمیں جدید سیاسی پیغامات کی ضرورت ہے۔ ہمارے Electables خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو ایسے پیغامات سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ بلاول بھٹو زرداری اگر ایسے پیغامات دے نہیں سکتے تو کم از کم اپنے Electables کے ترلے کرنا چھوڑ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔