ہمسائے کی چند اچھی باتیں بھی

تنویر قیصر شاہد  بدھ 1 اکتوبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

میرے خوانندگانِ کرام بخوبی جانتے ہیں کہ مَیں بھارت کا ناقد ہوں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دل میں جو کرودھ اور بُغض پایا جاتا ہے اور گزشتہ 67برسوں سے بھارت نے پاکستان کو ہر محاذ پر جو نقصانات پہنچائے ہیں، ان کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اور لکھاری بھارت پر کڑی نظر رکھے۔ بھارت سے مگر ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں۔ وہ دنیا کی ایک بڑی جمہوری مملکت ہے۔ اسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ایک غریب و محنت کش اور چائے فروش کا بیٹا محض اپنی ذاتی محنت کے بَل پر آج وہاں کا وزیرِاعظم ہے۔

وطنِ عزیز میں مگر ہمیں ابھی یہ منظر دیکھنا اور انتظار کھینچنا ہے کہ یہاں کے رسہ گیروں، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری کی موجودگی میں کب اور کیسے کوئی غریب زادہ ملک کا چیف ایگزیکٹو بنتا ہے۔ کجری وال کا وزیراعلیٰ بننا بھی بھارت کی ایک اور درخشندہ مثال ہے کہ ایک زیریں متوسط طبقے کا ایک نوجوان دہلی کی سب سے بڑی سیاسی کرسی پر برا جمان ہوگیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسے اپنی غلط حکمت کاریوں کے سبب جلد ہی اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہونا پڑا۔ جو بات قابلِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے، میرٹ پر اس کی تحسین کی جانی چاہیے، خواہ وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو۔ کیا پاکستان میں ہم یہ خواب اور عملی مظہر دیکھ سکتے ہیں، خصوصاً سیکولر بھٹو کے بنائے گئے 73ء کے آئین کے بعد، کہ کوئی غیر مسلم ہماری سپریم کورٹ کا سربراہ بن سکے؟ کوئی غیر مسلم ہماری افواج کی قیادت سنبھال سکے؟ یہ بھی بھارت کا مسلمان (اعظم جی) ہے جسے بھارت کے دوسرے سب سے بڑے دولتمند شخص ہونے کا شرف حاصل ہے۔

اگر وطنِ عزیز میں کوئی غیر مسلم شخص سب سے بڑا دولتمند ہوتا تو کوئی اسے کب کا اغوا کرکے بھاری تاوان وصول کر چکا ہوتا۔ بھارت میں تو کئی مسلمان صدور بھی نامزد کیے گئے۔ مثلاً: ذاکر حسین صاحب، محمد ہدایت اللہ صاحب، فخرالدین علی احمد صاحب اور جناب عبدالکلام!! کئی مسلمان بھارتی نائب صدر بھی بنے۔ مثال کے طور پر محمد حامد انصاری صاحب جواب بھی اپنے منصب پر کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں آج تک کسی غیر مسلم کو صدارت کا عہدہ نہیں دیا گیا۔ آجکل تو بھارتی انٹیلی جنس کا سربراہ بھی ایک مسلمان ہے اور بھارتی حکومت کا مرکزی ترجمان بھی مسلمان۔ بھارتی مسلمان بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے باعزت ترین عہدے پر بھی متمکن ہوئے۔ مثلاً: جسٹس محمد ہدایت اللہ، جسٹس مرزا حمید اللہ بیگ اور جسٹس عزیز مشبر۔ ان کریڈنشلز کی موجودگی میں بھارت اقوامِ عالم میں بجا طور پر فخر کرسکتا ہے، اگرچہ بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کی پامالیوں کا ذکر بھی ساتھ ساتھ ملتا ہے۔

نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھارت میں چند ایک ایسی شاندار مثالیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے۔ مثلاً بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ ریاست اُتر پردیش میں ہندی کے ساتھ ساتھ اردو بھی ریاستی زبان ہوگی۔ بعض ہندو تنظیمیں اردو، جسے مسلمانوں کی تہذیبی زبان خیال کیا جاتا ہے، کی سخت مخالف تھیں اور اس کے خلاف مقدمہ عدالتِ عظمیٰ کے روبرو لے گئیں۔ فیصلہ مگر اردو اور مسلمانوں کے حق میں آیا ہے۔ نریندر مودی ایسے متعصب ہندو وزیراعظم کی موجودگی میں بھارتی سپریم کورٹ کے اس شاندار فیصلے نے سب کو حیران کردیا ہے۔ کاش، پاکستان میں بھی کوئی بڑی عدالت ہماری بے چاری قومی زبان، اردو، کے حق میں اسی طرح ببانگِ دہل فیصلہ سناتی۔

بھارتی وزیرِ صحت ڈاکٹر ہرش وردھان، جنھیں وزارت صحت کا قلمدان سنبھالے ابھی صرف تین ماہ ہوئے ہیں، نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہر اس دوائی کا خود معائنہ کریں گے جو ملک بھر کے سرکاری اسپتالوں کو فراہم کی جارہی ہیں۔ یہ کڑا فیصلہ ان شکایات کے پیش نظر کیا گیا ہے کہ بھارت میں، پاکستان کی مانند، سرکاری اسپتالوں میں جعلی ادویات فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ انھوں نے گزشتہ تین ماہ کے دوران بھارت میں 26 ایسی فیکٹریوں پر چھاپے مارے ہیں جہاں جعلی دوائیں بنائی جارہی تھیں اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری تھا۔ ان فیکٹری مالکان کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے اور ان کے فارماسیوٹیکل کارخانے بھی سربمہر کردیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ہرش وردھان نے بھارت کے اُن بڑے بڑے ڈاکٹروں کی گردن پر بھی ہاتھ ڈالا ہے جو دواساز کارخانوں کے مالکان سے بھاری رشوتیں لے کر اور اپنی فیملیوں کے ساتھ ہر سال یورپی سیاحتی دوروں پر جانے کے عوض جعلی دوائیاں سرکاری اسپتالوں کے لیے منظور کرتے تھے۔

نریندر مودی کی اجازت سے ڈاکٹر ہرش وردھان صاحب نے بھارت کے تمام سرکاری اسپتالوں اور ڈاکٹروں کا گزشتہ پندرہ برس کا آڈٹ کرنے کا آغاز بھی کردیا ہے۔ بھارتی وزیرِ صحت کے ان اقدامات کی بدولت بھارت بھر کے سرکاری اسپتالوں، ڈاکٹروں اور دواساز فیکٹریوں میں ایک طوفان کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ ایسے اقدام اُسی وزیراعظم کی کابینہ کا کوئی وزیر کرسکتا ہے جس نے اپنے ذاتی کارخانے لگانے ہیں نہ اپنی کسی اولاد کے لیے اندرونِ ملک و بیرونِ ملک جائیدادیں بنانی اور بینک بیلنس میں اضافہ کرنا ہے۔ کاش، وطنِ عزیز میں بھی کوئی وزیراعظم یا کوئی وزیراعلیٰ اپنے کسی وزیرِ صحت کو یہ حکم دے سکے کہ وہ سرکاری اسپتالوں اور سرکاری ڈاکٹروں کی کرپشن بند کرنے کے لیے ڈاکٹر ہرش وردھان کی طرح قدم اٹھا سکے۔

یہاں تو حکمرانوں کے ساتھ ایسے لوگ بھی چپکے ہوئے ہیں جو مبینہ طور پر ماضی میں جعلی دوائیوں کے کاروبار میں ملوث رہے اور جن کا نام ایفی ڈرین کے ہوشربا اسکینڈل میں بھی لیا جارہا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے تمام سرکاری اسپتالوں کو سیاہ جونکوں سے بچانا ہے تو ہمارے وزیراعظم کو، جو بھارت سے گہرا اُنس رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں، کسی ڈاکٹر ہرش وردھان کو تلاش کرنا ہوگا، بصورتِ دیگر جعلی دوائیوں اور اکثر سرکاری ڈاکٹروں کی بد سلوکیوں سے ہمارے ملک کے غریب اور بے وسیلہ لوگ پہلے بھی بے موت مرتے رہے ہیں، اب بھی مرتے رہیں گے۔

ہم کتنے تہی دست ہوگئے ہیں کہ پاکستان کی بہتری کے لیے ہمیں کوئی مثال بھی بھارت سے لینا پڑ رہی ہے۔ بھارت نے ایک عدالت کے توسط سے اپنی دہشت زدہ ریاست، چھتیس گڑھ، میں قیامِ امن کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست کے معروف باغی عناصر اور دہشت گردوں کی جملہ جائیدادیں بحقِ سرکار ضبط کرلی جائیں گی۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ریاست مذکور کے ماؤ نواز باغیوں اور دہشت گردوں نے 2013 میں 32 بے گناہ افراد کو قتل کردیا تھا۔

پاکستان کو بھی بھارت کے اس فیصلے کی تقلید کرنی چاہیے۔ فاٹا اور بلوچستان کے وہ باغی اور دہشت گرد گروہ جنہوں نے گزشتہ برسوں میں پاکستان کے ساٹھ ہزار سے زائد بے گناہ افراد کو قتل کر ڈالا، اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم جناب محمد نواز شریف بھارت کی دیکھا دیکھی ان معروف دہشت گردوں کی تمام جائیدادیں بحق سرکار ضبط کرلیں۔ امیرِ جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق بیس اکتوبر کو بلوچستان کے معاملات کے بارے میں ایک کانفرنس کا انعقاد کرنے والے ہیں۔ کاش، وہ اس کانفرنس میں ایسی کوئی تجویز سامنے لاسکیں۔ ہمارے وزیراعظم کو نریندر مودی کی مانند جرأت دکھانی چاہیے۔ اگر ملک بھر میں امن کی بہاروں کو رواج دینا اور یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے تو ہمارے حکمرانوں کو چارونا چار ایسے جبری فیصلے کرنا ہی ہوں گے۔ میاں صاحب بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں تو انھیں نریندر مودی کے تتبع میں جرأت مندانہ فیصلے بھی کرنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔