جمہوریت کی نیلم پری ؟

رئیس فاطمہ  جمعرات 2 اکتوبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

کس قدر خوش قسمت قوم ہیں ہم؟ کہ گیس نہیں، بجلی نہیں، پٹرول نہیں، لیکن جمہوریت ہے۔ واہ کیا کہنے ہیں۔ سچ کہا تھا ایک شہزادی نے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ کھانے کو روٹی نہیں، مگر بندوق کی گولی تو ہے۔ تن ڈھانپنے کو کپڑا نہیں تو کون سی قیامت آگئی؟ کفن تو ہے؟ مرنے والے کی روح کو تسکین اور طمانیت تو ملے گی یہ سوچ کر کہ زندگی میں نہ سہی۔ لیکن موت کی دیوی کی مہربانی سے نیا سفید براق لٹھے کا کفن تو نصیب ہوا۔

یہ بھی تو جمہوریت کا اصل چہرہ ہے۔ زندگی فٹ پاتھوں پہ گزر گئی۔ عمر بھر شریف انسان کلرکی کرتا رہا۔ ایک ایک پائی جوڑتا رہا کہ اپنا ذاتی گھر ہو۔ لیکن جمہوریت چونکہ بہترین انتقام ہے۔ اس لیے گھر تو نہ ملا۔ البتہ قبر مل گئی۔ آیندہ بھی گولی، کفن اور قبر ملتی رہے گی۔

جب تمام لوگ اکٹھے ہوکر اپنے اپنے ذاتی فائدوں کے لیے رات کی تاریکی کو دن کہنے لگیں ۔ کانٹوں کو پھول بناکر پیش کرنے لگیں۔ تو یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ بقول حسرت موہانی:

خرد کا نام جنوں پڑ گیا‘ جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

یعنی گدھے کو گھوڑا، بیل کو خچر اور لوہے کو سونا قرار دینے کا حق ان ضمیر فروشوں کو ہے جن کے آباؤ اجداد انگریزوں کے کتے نہلاتے تھے۔ کرسمس پر ڈالیاں لے کر انگریز حاکموں کے قدموں میں بیٹھتے تھے۔ آزادی کے متوالوں کو مجرم قرار دلواتے تھے اور اس مخبری کے عوض جاگیریں اور خطابات پاتے تھے۔ یہ خان بہادر اور سر (Sir) کا خطاب پانے والے کون تھے؟ آج ان کی اولاد کہاں ہیں اور کیا کر رہی ہیں؟ پہلے یہ انگریزوں کے تنخواہ دار اور وفادار تھے۔

تقسیم ہندوستان کے بعد یہی طالع آزما اور بے ضمیر پاکستان آگئے کہ بھارت میں جاگیرداری نظام ختم کردیا گیا تھا اور اس ملک میں جاگیرداری کی سرمایہ کاری کی جا رہی تھی۔عام لوگ جاگیردار بننے کی کوشش میں مصروف تھے۔ یہاں ایک اور صنعت بھی فروغ پا رہی تھی۔ وہ تھی غیر سول بیوروکریسی کی اپنی اپنی ذاتی نرسریاں۔ محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کی وفات کے بعد یہ نرسریاں کھیت کھلیان میں تبدیل ہوگئیں۔ مولوی، جرنیل اور سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ سے جو سوسائٹی وجود میں لائی گئی۔ وہ وہی غلام ابن غلام ابن غلام والے شجرہ نسب کے والی وارث تھے۔ ایک گندی پلاننگ اورانتہائی مکروہ سازش کے تحت پہلے ملک کو دولخت کیا گیا۔

پھر ہاتھ لہرا لہرا کر، چیخ چیخ کر ان پڑھ، جاہل، بے کس، مجبور، بھوکے ننگے لوگوں کو ’’جمہوریت‘‘ کا حسین چہرہ دکھایا گیا۔ اور ان سے کہا گیا کہ وہ صرف ہاں میں ہاں ملائیں۔ ایک اشارے پہ ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا دیں کہ بہت جلد ’’خانم جمہوریت‘‘ ان کی قسمت بدلنے آرہی ہے۔ اور پھر ایک اور گھناؤنی سازش۔ قوم جو 1947 سے پہلے تھی اور جس کے اتحاد نے پاکستان بنایا تھا اسے غائب کردیا گیا۔ جرنیلوں نے الگ الگ پودے لگائے سیاست دانوں، مولویوں اور کاروباری حلقوں نے اپنی اپنی مرضی سے انھیں پروان چڑھایا، پانی دیا۔ اب یہ پنیریاں چوہدری ، بٹ، آرائیں، سومرو، جاٹ، ابڑو، جاکھرانی، مگسی، ٹوانے، خان، روہیلے، ترکھان، اور نہ جانے کن کن ذاتوں اور برادریوں میں بٹ چکی ہیں اور اب یہی جمہوریت ہے کہ جو اپنی ذات برادری اور خاندان کے لیے فائدہ مند ہو وہی کرو۔ علامہ اقبال آج اگر زندہ ہوتے تو اپنے بہت سے دوسرے اشعار کی طرح اس شعر کو بھی حقیقت کا روپ دھارتے دیکھ کر صدمے سے باہر نہ نکل پاتے۔

جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں‘ تولا نہیں کرتے

اسی خیال کو انھوں نے اپنے ایک فارسی شعر میں بھی بیان کیا ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اگر دو سو گدھوں کو بھی ایک جگہ جمع کرلیا جائے تو فکر انسانی پیدا نہیں ہوسکتی۔ ایسی صورت حال میں جب سچ بولنا، سچ لکھنا اور سچائی کو سامنے لانا جرم سمجھا جائے اور کوئی ایک دیوانہ حق گوئی کا علم لے کر اٹھے تو مکروہ چہرے خوف سے پیلے پڑ جاتے ہیں۔ اکثریت کے خلاف بولنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ چوروں اور لٹیروں کو سرعام للکارنا بھی کسی عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ یہ ہمت یہ نصیب خدا کسی کسی کو ہی عطا کرتا ہے۔ سسٹم کے خلاف بات کرنے کا حوصلہ ہر ایک میں نہیں ہوتا ۔

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

سقراط اور گوتم بدھ بھی انھی لوگوں میں شامل تھے جو غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ عمران خان بھی اب اسی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ انھوں نے سول سوسائٹی کے لوگوں اور نوجوانوں میں یہ شعور ضرور بیدارکردیا ہے کہ وی آئی پی کلچرکو ختم کرنے کے لیے ہم سب کو آگے آنا ہوگا۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں بھاگتے۔

جس جمہوریت کا اتنا رونا رویا جا رہا ہے۔ وہ آخر ہے کیا؟ یا اس ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا نام جمہوریت ہے جس میں ’’باریاں‘‘ لینے کے معاملات طے ہوئے تھے۔ یا اس بے ہودہ ڈیل کا نام جمہوریت ہے جس میں سے ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ نامی غلاظت کا جنم ہوا تھا۔ زرداری کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پانچ سال پورے کیے۔ ان پانچ سالوں میں یہ ملک دیوالیہ ہوگیا۔ لوگوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔

کئی کئی ماہ کی پنشن کے لیے لوگ دھکے کھا رہے ہیں اور یہ  اپنی بقا کے لیے اور ایک دوسرے کے کھاتے کھلنے کے ڈر سے تیتر اور ہرن بھون کر کھا رہے ہیں اور اپنے تجربے سے  بتا رہے ہیں کہ ہر آدمی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس قیمت کا پتا لگانا آپ کا کام ہے کہ کون شوگر ملوں کے تحفوں سے خوش ہوسکتا ہے؟ کون مدت ملازمت میں توسیع کا خواہش مند ہے؟ کس کو قیمتی زمین اور بینکوں کے قرضے (ناقابل واپسی) دے کر رام کیا جاسکتا ہے اور کون قیمتی گاڑیوں، ڈالروں اور زمینوں کے عوض چپ سادھ سکتا ہے اور استعفیٰ مانگنے والوں کو جمہوریت دشمن قرار دے سکتا ہے؟

علامہ اقبال تمام شعرا میں سب سے پہلے پی ایچ ڈی شاعر تھے۔ جرمنی گئے، لندن گئے اور وہاں مغرب کی پارلیمانی جمہوریت کو قریب سے دیکھا اور سمجھا کہ جمہوریت دراصل اعلیٰ تعلیم یافتہ مہذب یورپی اقوام کا طرز حکومت ہے۔ جہاں ایک وزیر اعظم عام لوگوں کی طرح بسوں اور ٹرین میں سفر کرتا ہے۔ اس کے بچے عام بچوں کے ساتھ عام اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

پاکستان جیسے بدنصیب ملک میں آیندہ پانچ سو سال تک بھی جمہوریت نہیں آسکتی۔ کیونکہ ظالم حکمران قوم کو جاہل رکھنے میں اپنا فائدہ دیکھتے ہیں تاکہ ان سے من پسند نشان پر معاوضے کے بدلے انگوٹھا لگوایا جاسکے۔ دراصل  جمہوریت کا رونا اور ’’بلے کو جانے نہ دینا۔ یہ دودھ پی جاتا ہے‘‘ کی گردان اس لیے کی جاتی ہے اور جی بھر کے جھوٹ اس لیے بولتے ہیں کہ فوج کو ملکی مسائل سے دور رکھا جاسکے۔  یہ وطن جو اب وینٹی لیٹر پہ ہے کیا اسے نئی زندگی ملے گی یا اس کا مصنوعی تنفس ہی اس کی بقیہ زندگی کے دن طے کرے گا؟

بہرحال اتنا تو ہوا کہ سول سوسائٹی کے باشعور لوگوں نے عمران خان کی بدولت اپنی طاقت اور آواز کو پہچانا۔ عمران اگر نواز حکومت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں بھی ہوتے (سعودی عرب اور امریکا کی آشیرواد کی بدولت) تو بھی یہی احسان کیا کم ہے کہ لوگوں کو بولنا آگیا ہے؟ ایک دن وہ بھی آئے گا جب عوام استحصالی قوتوں کے خلاف یکجا ہوکر VIP کلچر کا خاتمہ کردیں گے۔ بند سڑکوں کو کھول دیں گے۔ تب ایک نئی صبح طلوع ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔