معذور ایتھلیٹس کے لئے نئی اور جدید مصنوعی ٹانگیں امید کی کرن

ویب ڈیسک  جمعرات 2 اکتوبر 2014
جنوبی افریقا کے اہتھلیٹ پسٹوریس نے بھی انہی ٹانگوں کی بدولت کھیل کے میدان میں نام کمایا، فوٹو:فائل

جنوبی افریقا کے اہتھلیٹ پسٹوریس نے بھی انہی ٹانگوں کی بدولت کھیل کے میدان میں نام کمایا، فوٹو:فائل

نیو یارک: جدید ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی نے جسم کے لئے بنائے گئے مصنوعی اعضا کوحقیقی اعضا جیسا بنا دیا ہے اوراس نے معذور افراد کے لئے  اچھی زندگی گزانے کی امیدیں تو روشن کرہی دی تھیں تاہم نئی مصنوعی ٹانگوں نے معذور ایتھلیٹس کے دوڑنے کی صلاحیتوں کو بھی دوبارہ سے زندہ کردیا ہے۔

ایتھلیٹ لوئس 16 سال کی عمر میں ایک حادثے کے نیتجے میں اپنی ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے تھے اس کے بعد ان کو لگائی جانے والی مصنوعی ٹانگ اتنی وزنی اور سخت تھی کہ انہیں حرکت کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، کئی سال وہ اس تکلیف میں مبتلا رہے  اور بالآخر ان کی اس مشکل کا حل انہیں جدید ٹیکنالوجی سے مل گیا، ’’اوٹوبوک ایس 380 ‘‘ وہ پہلی مصنوعی ٹانگ تھی جو خصوصی طور پر ایتھلیٹس کے لیے بنائی گئی اورجب یہ ٹانگ  لوئس کو لگائی گئی جیسے ان کی  ٹانگوں میں تو  بجلی بھر گئی ہواوراسی  ٹانگ کی بدولت انہوں اسپین کے شہر میڈرڈ میں پیرا اولمپک میں دوڑ کے مقابلے میں سونے کا تمغہ جیتا جب کہ آسکر پسٹوریس نے بھی انہی ٹانگوں کی بدولت کھیل کی دنیا میں نام کمایا۔

مصنوعی ٹانگیں بنانے والی کمپنی کےسربراہ  کا کہنا تھا کہ 2016 کے پیرااولپمک کے لیے وہ انتہائی جدید اور نئی خوبیوں والی ٹانگ’’جینیم ایکس 3 ‘‘ متعارف کرا رہے ہیں جس میں مائیکرو پروسیسر لگا ہوگا جو کھلاڑی کو جاگنگ، جمپس اورسیڑھیوں پر چڑھنے کےدوران اپنی ٹانگ کو ری ایڈجسٹ کرنے میں مدد دے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔