نواز شریف اور بھٹو… ایک پرانی بات

نصرت جاوید  جمعـء 3 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

یہ بات میں نے بہت ہی معتبر شخص سے سنی تھی مگر رپورٹر ہونے کی وجہ سے کسی ایک شخص کی بیان کردہ کہانی کو خبر کی صورت لکھ نہیں سکتا تھا۔ ویسے بھی یہ کہانی میں نے 1986ء میں سنی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اس وقت دُنیا میں موجود ہی نہ تھے۔ محمد خان جونیجو مرحوم وزیراعظم تھے مگر ریاستی طاقت کے اصل مالک و مختار جنرل ضیاء الحق ہوا کرتے تھے۔ ان حالات کے تناظر میں جو واقعہ میں نے سنا اس کی بس ’’تاریخی‘‘ اہمیت تھی اور ایسے واقعات کو مرتب کرنے کے بعد کوئی ٹھوس نتائج نکالنے کے لیے کتابیں لکھنا ہوتی ہیں اور ربّ کریم نے مجھے اس صلاحیت سے محروم ہی رکھا ہے۔

بہرحال ایک شخص کی سنائی داستان کو میں نے مختلف اوقات میں چند ایسے افراد کے سامنے دہرایا جو اس ہنگامی اجلاس میں شریک تھے جو 9 اپریل 1977ء کو قومی اتحاد کی تحریک کے دوران مسلم مسجد لاہور کے باہر پولیس فائرنگ سے چند افراد کی ہلاکت کے بعد بھٹو نے بلایا تھا۔سب نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔ یاد رہے کہ حالات بگڑنے کے بعد اپریل 1977ء میں ہی لاہور کو فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ بھی ہوا تھا۔ اس کے تین بریگیڈئر نے لیکن عوامی احتجاج کی مزاحمت نہ کرنے کے عزم کے اظہار کے ساتھ استعفے دے دیے۔ پرویز مشرف کے ایک مربی اور سرپرست بریگیڈئر نیاز احمد بھی استعفیٰ دینے والے افسران میں شامل تھے۔

سیاسی حرکیات کے ایک ذہین طالب علم ہوتے ہوئے بھٹو صاحب نے ان استعفوں سے انتہائی درست نتائج اخذ کیے۔ انھیں سمجھ آ گئی کہ حالات واقعی سول انتظامیہ کے قابو سے باہر ہو گئے تو ریاست کا منظم اور طاقت ورترین ادارہ ان کی حکومت بچانے کے لیے آمادہ نہیں ہو گا۔ قریبی ساتھیوں اور وزراء کے سامنے اس ہنگامی اجلاس میں انھوں نے واضح الفاظ میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں فی الفور استعفیٰ دے کر نئے انتخابات کے انعقاد کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کی دعوت دے دینا چاہیے۔ اپنی اس خواہش کے اظہار کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کو کھلے ذہن کے ساتھ اپنی اپنی رائے پیش کرنے کی دعوت دی۔ حامد رضا گیلانی نے تڑپ کر پہلے بولنے کا فیصلہ کیا۔ میرے راوی دعویٰ کرتے ہیں کہ حامد سائیں نے اس اجلاس میں اپنی زندگی کی خوب صورت ترین گفتگو کی۔

ان کے طولانی دلائل کا مرکزی نقطہ مگر یہ تھا کہ بھٹو صاحب وہ ’’دیدہ ور‘‘ ہوا کرتے ہیں جس کا خلقِ خدا کو ہزاروں سالوں سے انتظار ہوتا ہے۔ انھیں پی این اے کے احتجاج سے گھبرا کر استعفیٰ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بھٹو صاحب کو اپنے روبرو طولانی تقاریر پسند نہیں تھی۔ وہ ہمیشہ Come to the Point والی جلدی میں ہوا کرتے تھے۔ حامد سائیں مگر ان کے 1960ء کی دہائی سے جگری یار ہوا کرتے تھے۔ انھیں کافی دیر برداشت کرنے کے بعد البتہ بھٹو صاحب اُکتا کر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ :”Hamid Stop This F….. Multani with me”۔حامد سائیں احتراماََ خاموش ہو گئے لیکن حکومت میں ٹکے رہنے کی حمایت میں انھوں نے جو دلائل دیے وہ کورس کی صورت اس اجلاس میں شریک تمام لوگوں نے دہرا دیے۔

بھٹو صاحب یہ کورس سننے کے بعد ’’ڈٹ‘‘ گئے اور چند ہی ہفتوں بعد 5 جولائی 1977ء ہو گیا۔بھٹو صاحب کا اپریل 1977ء والا قصہ تو میں نے اور لوگوں سے سنا ہے۔ مگر 1996ء کے جولائی یا اگست میں مجھے چند صحافی دوستوں سمیت نواز شریف صاحب نے مری بلایا۔ لنچ سے پہلے اور بعد لمبی گفتگوہوئی۔ میاں صاحب جو ان دنوں حزبِ اختلاف کے رہنما تھے اپنی عادت کے عین مطابق بجائے ہمیں کچھ بتانے کے ہمارے دل کی باتیں نکالنے میں مصروف رہے۔ میں کسی سیاست دان سے ’’آف دی ریکارڈ‘‘ ملاقات کا موقعہ حاصل کر پاؤں تو اپنے گرانقدر خیالات کے اظہار کے بجائے ان کے منہ سے ’’سیاسی گیم‘‘ کے بارے میں سننا چاہتا ہوں۔ لہذا میں زیادہ تر خاموش رہا۔ مگر میرے چہرے پر ’’کام کی کوئی بات‘‘ حاصل نہ کر سکنے والی اُکتاہٹ کافی نمایاں رہی۔ نواز شریف صاحب فوراََ میرے دل کی کیفیت جان گئے۔

اسی لیے جب ان سے گلے مل کر رخصت کا وقت آیا تو بڑی معصومیت سے پوچھ بیٹھے کہ میں اتنی طویل محفل میں اتنا خاموش کیوں بیٹھا رہا۔ میں نے بڑی عاجزی سے انھیں بتایا کہ ان کی ساری گفتگو سے میں نے نتیجہ یہ اخذ کیا ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت فارغ ہونے والی ہے مگر میں اب تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ یعنی نواز شریف صاحب اس کے بارے میں اتنے پُراعتماد کیوں ہیں۔ میرا سوال سن کر میاں صاحب کچھ چڑ سے گئے۔ مگر اپنی چڑچڑاہٹ پر انتہائی مہارت سے فوراََ قابو پاتے ہوئے انھوں نے فرمایا تو صرف اتنا کہ ’’میں بھی کبھی اس ملک کا وزیر اعظم رہا ہوں۔ مجھے خوب علم ہے کہ کسی وزیر اعظم کے آخری دن کیسے ہوا کرتے ہیں۔‘‘

سچی بات یہ بھی ہے کہ ان سے اس ملاقات کے کافی دن بعد مجھے اپنے تئیں خبر مل گئی کہ ’’فاروق بھائی‘‘ کسی بھی دن محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کو فارغ کرنے والے ہیں۔ بالآخر نومبر 1996ء میں انھوں نے یہ کام کر ہی دیا۔ جب یہ کام ہو گیا تو مجھے کئی دن تک نواز شریف سے مری میں ہوئی ملاقات کے آخری لمحات بھی تواتر سے یاد آتے رہے۔

سوال آپ کے ذہن میں اب یہ اٹھنا چاہیے کہ 1977ء اور 1996ء میں ہوئے دو مختلف واقعات کو میں اب کیوں دہرا رہا ہوں۔ اپنی جان کی امان پاتے ہوئے عرض بس یہ گزاروں گا کہ نواز شریف صاحب جو اب اس ملک کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم ہیں اپنا ’’اپریل 1977‘‘ دیکھ چکے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ ان کا ’’اپریل‘‘ 2014ء میں ہوا تھا۔ کیسے اور کیوں؟ یہ بتانے کی مجھ میں جرأت و سکت نہیں۔ تھوڑی تحقیق فرما کر اپنی تسلی آپ خود کر لیجیے۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ میاں صاحب کا اس اپریل کے باوجود جولائی 2014ء خیر و عافیت سے گزر گیا۔ مگر تاریخ خود کو ہمیشہ چند مخصوص مہینوں میں ہی دہرایا نہیں کرتی۔ کسی ماہر نقب زن کی طرح یہ کسی بھی وقت اپنے مہینے خود چن کر ہمیں حیران کیا کرتی ہے۔ اسلام آباد میں دیے دھرنے اب اپنا اثر دکھا چکے ہیں۔

ان کی افادیت کے بارے میں بحث ایک لاحاصل مشق ہو گی۔ اصل کہانی تو اب ان جلسوں سے شروع ہوئی ہے جو عمران خان نے پنجاب کے مختلف شہروں میں منعقد کرنا شروع کر دیے ہیں۔ دھرنے والے بڑی تیزی سے اپنی حکمت عملی میں جدتیں لا رہے ہیں جب کہ وزیر اعظم اور ان کے ساتھی زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد والی کیفیت میں گرفتار ہیں۔ ریت میں سر دبا کر لیکن طوفان کو ٹالا نہیں جا سکتا۔ سر اٹھا کر پوری توانائی سے اپنے دفاع کے لیے کوئی جوابی کارروائی بھی کرنا پڑتی ہے۔ یہ حکومت مجھے ایسی کسی کارروائی کے بارے میں کچھ سوچتی ہوئی بھی نظر نہیں آ رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔