دھوکے بازی کے باعث مویشیوں کی آن لائن خریداری کے رجحان میں کمی

سید بابر علی  اتوار 5 اکتوبر 2014
قربانی کی روایت میں تبدیلیوں میں ایک اہم کردار انٹر نیٹ کا بھی ہے فوٹو : فائل

قربانی کی روایت میں تبدیلیوں میں ایک اہم کردار انٹر نیٹ کا بھی ہے فوٹو : فائل

 عیدالضحیٰ کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر کے مختلف شہروں، دیہات میں چھوٹی بڑی مویشی منڈیوں کا قیام عمل میں آجاتا ہے۔لوگ سنتِ ابراہیمی پر عمل کرنے کے لیے ٹولیوں کی صورت میں مختلف علاقوں میں قائم مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں ۔ جانوروں کی خریداری کا یہ مرحلہ بعض اوقات کئی دنوں پر منحصر ہوتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک عید سے کئی دن پہلے جانور خرید کر اُس کی خاطر مدارت کی جاتی تھی، سجاوٹ کی جاتی تھی، قربانی کے جانوروں کو مہندی لگانا، جھانجھر پہنانا اور رنگ برنگے ’پٹے‘ پہنا کر گلیوں میں گھمانا، یہ سب وہ روایات تھیں جو نہ صرف چھوٹے بچوں بل کہ بڑوں کے لئے بھی باعث مسرت ہوتیں۔ لیکن افسوس اب یہ سب روایات آہستہ دم توڑتی چلی جارہی ہیں۔

ہماری اکثریت عید سے کئی روز قبل قربانی کا جانور لا کر گھر باندھنے کو بوجھ تصور کرتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عید سے صرف ایک یا دو روز قبل ہی جانور خرید کر گھر لایا جائے، ہم میں سے بہت سے لوگ جانور خرید کر باڑوں یا ڈیروں پر چھوڑ دیتے ہیں اور جانور کو عید کی صبح ہی گھر پر لایا جاتا ہے۔

قربانی کی روایت میں تبدیلیوں میں ایک اہم کردار انٹر نیٹ کا بھی ہے۔ دور حاضر میں انٹرنیٹ تقریباً ہر انسان کی بنیادی ضرورت بن چکا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف آپ اسے کاروباری اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب انٹرنیٹ کے ذریعے گھر بیٹھے خریداری کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ انٹرنیٹ پر خریداری کی سہولت فراہم کرنے والے ویب سائٹس جنہیں تیکنیکی زبان میں ’ای کامرس ویب سائٹ ‘ کہا جاتا ہے، کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ایجاد جہاں زندگی کے دوسرے شعبہ جات پر اثرانداز ہوئی تو دوسری جانب انٹرنیٹ کی بدولت ہی سماجی ابلاغ کے ایک نئے دور نے جنم لیا جسے ہم عام فہم زبان میں سوشل میڈیا کے نام سے جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ایک طرف پاکستانیوں کے لیے ہائیڈ پارک کا کردار ادا کیا تو دوسری طرف کاروباری افراد نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو اپنے کاروبار کی تشہیر کا ذریعہ بھی بنالیا۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بنائے گئے فین پیجز کو تجارتی بنیادوں پر استعمال کیا جارہا ہے۔

ان صفحات پر مشہور زمانہ فوڈ چین سے لے کر برانڈڈ ملبوسات تک فروخت کے لیے پیش کیے جارہے ہیں، چند سال قبل کچھ بڑے کیٹل فارمز کے مالکان اور کاروباری افراد نے ویب سائٹ کے ذریعے جانوروں کی آن لائن خریداری کا رجحان متعارف کروایا، لیکن جانوروں کی آن لائن خریداری کا منصوبہ عوام میں اتنی پذیرائی حاصل نہیں کرسکا جس کی اہم وجہ صرف تصاویر یا ویڈیو دیکھ کر جانور کو پسند کرنا اور رقم کی ادائیگی کے حوالے سے چند تحفظات تھے۔

تاہم جانوروں کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور طریقے سے استعمال تاحال کیا جا رہا ہے۔ ہر سال کی طرح امسال بھی کیٹل فارمز کی جانب سے سوشل میڈیا پر جانوروں کے فین پیجیز بنائے گئے، جہاں مویشیوں کی تصاویر اور ویڈیو کے ساتھ ساتھ نمایاں خصوصیات بھی فراہم کی گئیں۔ ان صفحات پر کیے گئے تبصروں اور لائیکس کی تعداد بلاشبہ ہزاروں میں ہے، لیکن خریداروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور مویشیوں کی خریداری کے لیے روایتی طور پر منڈی سے ہی خریداری کو زیادہ ترجیح دی جارہی ہے۔ تاہم قربانی کے لیے جانوروں کی آن لائن خریداری کے رجحان میں کمی صرف پاکستان ہی میں دیکھنے میں آئی ہے۔ جس کا اہم سبب ای کامرس کے حوالے سے شعور نہ ہونا ہے۔

دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں شہری گھر بیٹھے بکرا، گائے، دنبہ، اور اونٹ کی آن لائن خریداری کرسکتے ہیں۔ ان ویب سائٹس پر جانوروں کی تصاویر، دانت، وزن، رنگ، نسل، عمر اور قیمت سمیت تمام معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ صارف کچھ ہی دیر میں اپنی قوت خرید کے مطابق گھر بیٹھے جانور خرید سکتا ہے، جو ایک یا دو روز میں آپ کے فراہم کیے گئے پتے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان ویب سائٹ پر رقم کی ادائیگی کے لیے کیش آن ڈیلیوری، آن لائن ٹرانسفر سمیت دیگر طریقے بھی فراہم کیے گئے ہیں۔ آن لائن مویشی منڈیوں سے خریداری کے متعلق کچھ ویب سائٹ نے کئی مسالک کے مفتی صاحبان کے فتوے بھی فراہم کیے ہوئے ہیں، جن میں انٹرنیٹ کے ذریعے قربانی کے جانور کی خریداری کو جائز قرار دیا گیا ہے۔

جانوروں کی آن لائن قربانی کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ آن لائن خریداری کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو شہر میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث نقد رقم مویشی منڈی لے کر جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ اس صورت حال میں گاہکوں کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو وہ اپنے گھر کے نزدیک قائم منڈی سے جانور خریدیں یا ویب سائٹس ذریعے خریداری کرلیں۔ تاہم یہ رجحان چند بڑے شہروں تک ہی محدود ہے۔

جانوروں کی آن لائن خریداری کے حوالے سے ہر شخص کا الگ موقف ہے۔ کچھ شہریوں کے نزدیک آن لائن خریداری نے انہیں مویشی منڈیوں میں دھکے کھانے سے بچالیا ہے۔ امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر بھی کچھ صارفین آن لائن خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، جب کہ آن لائن خریداری کے مخالفین کے نزدیک اس طرح خریداری میں دھوکے بازی کا زیادہ احتمال ہے اور وہ مویشی منڈی میں جا کر خود جانور خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس حوالے سے سپر ہائی وے اور شہر کے مختلف علاقوں میں قائم مویشی منڈیوں میں خریداری کے لیے آنے والے افراد کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے قربانی اہم مذہبی فریضہ ہے اور اس اہم مذہبی فریضے کی ادائیگی اور جانوروں کی خریداری کے لیے تھوڑا وقت نکال لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ویسے بھی یہ فریضہ سال میں ایک بار ہی ادا کیا جاتا ہے۔آں لائن خریداری کے حوالے سے کچھ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانور کی آن لائن خریداری صرف اپنی ذات کی حد تک جائز ہے، لیکن جانور کو دیکھنے کے بعد اس کی قیمت ادا کی جائے۔

فرضی سودے بازی کا طریقہ درست نہیں۔ویب سائٹس کے ذریعے قربانی کے جانوروں کی خریداری ہمیں کس طرف لے جارہی ہے؟ خریداری کے ان طریقوں سے کیا ہم خود کو سچی اور حقیقی خوشیوں سے محروم نہیں کررہے؟ آج سے چند سال قبل تک عید سے کئی روز پہلے جانور کی خریداری اور پھر اس کی خدمت کو نہ صرف مذہبی فریضہ بل کہ اپنی شان دار روایات کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔

قربانی کے لیے جانور کی خریداری ایک اہم فریضہ ہے اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ہماری بہت سی اچھی روایات بھی دم توڑ رہی ہیں۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کے بدلتے اور جدید رجحانات کی وجہ سے عیدالاضحیٰ کا مذہبی اور روایتی پن بھی متاثر ہو رہا ہے۔

جانوروں کی آن لائن خریداری کا رجحان ہوسکتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو جانوروں کی خریداری کے لیے مویشی منڈی جانے کی خوب صورت روایت اور خوشی سے محروم کردے جس سے ہم اپنے بچپن میں لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔

پاکستان میں جانوروں کی آن لائن خریداری کا آغاز
2006 میں پہلی بار پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے ویب سائٹ کا قیام عمل میں لایا گیا، جس پر خریداروں کی سہولت کے لیے کریڈٹ کارڈ کیش آن ڈیلیوری اور دیگر طریقے متعارف کرائے گئے تھے۔ گھر بیٹھے خریداری کی سہولت نے بڑی تیزی سے اس رجحان کی ترویج کی۔

کیوں کہ اس طریقہ کار میں بیوپاریوں سے قیمتوں پر بحث و مباحثے سے بچنے کے علاوہ وقت کی بچت بھی معنی رکھتی تھی۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی مویشیوں کے کاروبار سے وابستہ پڑھے لکھے افراد اور چندکیٹل فارمز مالکان نے ویب سائٹس بناکر آن لائن کاروبار کا آغاز کردیا۔ ابتدا میں تیزی سے فروخت پاتے اس رجحان نے مڈل مین کا کردار ادا کرنے والے افراد کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرادی۔

مسابقت کی فضا قائم ہونے سے جہاں ایک طرف آن لائن خریداری کے طریقۂ کار اور قیمتوں میں کمی ہوئی تو دوسری طرف کچھ مفاد پرست عناصر کی دھوکادہی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کردی۔ کچھ فرضی ویب سائٹس کی مدد سے کریڈٹ کارڈ نمبرز کی چوری اور نقص والے جانوروں کی فروخت عوام کو ایک بار پھر روایتی طریقے سے جانوروں کی خریداری کی طرف راغب کررہی ہے۔

کلاسیفائیڈ ویب سائٹس بھی جانوروں کی خرید و فروخت میں کسی سے کم نہیں
سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے جانوروں کی خرید و فروخت میں کلاسیفائیڈ ویب سائٹس بھی کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ مفت میں اشتہار لگانے کی سہولت کی وجہ سے کلاسیفائیڈ ویب سائیٹس پر دنبے سے لے کر اونٹ تک فروخت کرنے کے لیے اشتہارات نظر آئے اور حیرت انگیز طور پر اشتہار میں بیان کی گئی قیمتیں بھی ناقابل یقین حد تک کم تھیں۔

تاہم ممکنہ فراڈ یا لوٹ مار کے خدشے کے پیش نظر کلاسیفائیڈ ویب سائٹس پر جانوروں کی خریداری میں عوام کی دل چسپی بہت کم رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔