تبدیلی فی الحال ممکن نظر نہیں آرہی

نصرت جاوید  ہفتہ 4 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

اپنی جماعت کے یوم تاسیس کے موقعہ پر سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف صاحب نے جو خطاب فرمایا اس نے بہت سارے لوگوں کو ’’ہم نہ کہتے تھے‘‘ پکارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 14 اگست 2014ء سے اسلام آباد میں جو دھرنے جاری و ساری ہیں ان سب کے پیچھے کسی ’’اسکرپٹ‘‘ کی دہائی کئی دنوں سے مچائی جا رہی تھی۔ جنرل صاحب جو نو برس تک اس ملک کے مختارِ کل رہے ہیں ایسے کسی ’’اسکرپٹ‘‘ کا اقرار کرتے سنائی ہرگز نہ دیے۔ دھرنے میں شامل افراد کو البتہ انھوں نے حق و سچ کے علمبردار ضرور ٹھہرایا۔ انھوں نے بڑی شدت سے یہ بات بھی دہرائی کہ پاکستانی عوام دو بڑی جماعتوں کی ’’باریوں‘‘ سے تنگ آ چکے ہیں۔

’’تبدیلی‘‘ اب ایک قومی نعرہ بن چکی ہے اور یہ آ کر رہے گی۔ تبدیلی کے بعد ’’تیسری قوت‘‘ کے نمودار ہونے سے پہلے البتہ کچھ عرصے کے لیے ایک ’’قومی حکومت‘‘ بنے گی۔ جنرل صاحب خوب جانتے ہیں کہ کسی حکومت کو ’’قومی‘‘ ثابت کرنے کے لیے اس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی نمایندگی بھی درکار ہے۔ ’’تبدیلی‘‘ مگر اس انداز میں آئی جس کی خواہش جنرل مشرف، ڈاکٹر قادری اور عمران خان اپنے دل میں پالے ہوئے ہیں تو مسلم لیگ (نواز) کے ساتھ ہی ساتھ اور بہت ساری جماعتوں کے لیے اس کی ساکھ بنانے کے لیے ’’قومی حکومت‘‘ کے لیے نمایندگان نامزد کرنا تقریباََ ناممکن ہو گا۔ بالآخر ٹیکنوکریٹس سے رجوع کرنا پڑے گا۔ فوج، وزارتِ خارجہ اور عالمی بینک وغیرہ سے ریٹائرڈ ہوئے افراد کا ایک ہجوم ہے جو قوم کا مقدر سنوارنے کو ہزار ہا امرت دھاری نسخے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ریاست نے اپنی خدمت کے لیے جب بھی پکارا فوراََ چلے آئیں گے۔

مشرف صاحب سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کے بعد ایسے ہی دانشواران کا ایک بے پناہ ہجوم کن کن ذرایع سے ان کی توجہ حاصل کرنے کو بے چین ہو رہا تھا۔ اصل فیصلہ اس ضمن میں البتہ جنرل محمود اور جنرل عزیز تفصیلی انٹرویوز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بدولت بیک گراؤنڈ چیک کے بعد کیا کرتے تھے۔ جنرل مشرف نے کلیدی تقرری صرف ایک کی تھی اور وہ طارق عزیز صاحب کا بطور معتمدِ خاص انتخاب۔ ان کا دوسرا انتخاب جنرل نقوی صاحب تھے اور تیسرا بریگیڈئر اعجاز۔ بعدازاں ’’دلّی گرڈ‘‘ اور علی گڑھ یونیورسٹی کے حوالے سے بھی کچھ لوگ ان کی سرپرستی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ چند افراد نے مرحوم بریگیڈئر نیاز کے ذریعے بھی ’’نئے نظام‘‘ میں اپنی جگہیں بنائیں۔ خوب چھان پھٹک کے بعد اعلیٰ عہدوں پر بٹھائے پاک صاف اور ذہین و فطین یہ سب لوگ مگر 2000ء کا بجٹ بناتے ہوئے بوکھلا گئے۔

ملک میں ٹیکس کو ’’نچلی سطح تک‘‘ پھیلانے کے لیے سروے ٹیمیں جب لاہور، راولپنڈی اور کراچی کے بازاروں میں پہنچیں تو ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اگرچہ حکومت سنبھالنے کے بعد پہلا فون جنرل مشرف نے ان دنوں Centcom کے جنرل زینی کو کیا تھا۔ مگر عبدالستار جیسے جید وزیر خارجہ اور واشنگٹن میں ڈاکٹر ملیحہ لودھی جیسی نامور صحافی کی بطور سفیر پاکستان تعیناتی کے باوجود امریکا کوئی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا۔ بڑی منت سماجت کے بعد صدر کلنٹن کو پاکستان کے دورے پر آمد کے لیے راضی کیا گیا۔ وہ صرف پانچ گھنٹے کے لیے اسلام آباد آئے اور اپنے قیام کے دوران پرویز مشرف سے کیمروں کے روبرو ہاتھ تک نہ ملایا۔ ہماری اس تذلیل کے عوض بھی انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ذریعے پاکستان کے عوام سے براہِ راست خطاب فرمایا اور انھیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ ’’اسلامی انتہا پسندوں‘‘ کی حمایت کرنا چھوڑ دیں۔

ان کی اس تقریر کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے جنرل مشرف کو ایک چٹھی لکھی۔ جنرل صاحب جو ایک زمانے میں کارگل کے ذریعے سری نگر پہنچنا چاہ رہے تھے اس چٹھی کے بعد بھارت سے ’’دیرپا امن‘‘ قائم کرنے کی خواہش کے ساتھ آگرہ پہنچ گئے۔ وہاں جانے سے قبل ا نہیں نواز شریف کو سعودی عرب بھی بھیجنا پڑا اور ہمیں تیل کے حوالے سے کثیر زرمبادلہ بچانے کی سہولت ملی۔ ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ کی عقل ہمارے کوئی کام نہیں آئی۔ پاکستان کی مشکلات آسان ہوئیں تو نائن الیون کے اس حملے کی بدولت جس کا ذمے دار اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا گیا تھا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں معاشی حوالوں سے جو تھوڑی بہت رونق نظر آتی رہی اسے پیدا کرنے اور برقرار رکھنے میں کسی ٹیکنوکریٹس کا ذرہ برابر حصہ نہ تھا۔

افغانستان میں War on Terror اس ساری رونق کا اصل سبب تھی۔ بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ ستمبر 2006ء کے قریب بدبخت امریکی اس شک میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے کہ ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیلی جا رہی ہے۔ اس گیم کے تدارک کے لیے مشرف صاحب کو، جو ’’نو نواز- نو بینظیر‘‘ کا بڑی رعونت سے ورد فرمایا کرتے تھے، دبئی جا کر محترمہ بے نظیر بھٹو سے NRO کرنا پڑا۔ اس کے بعد والے واقعات کو کیا دہرانا۔

میں یہ تمام باتیں صرف یہ بات سمجھانے کے لیے دہرانے پر مجبور ہوا ہوں کہ ہماری بدنصیب ریاست کا کاروبار صاف ستھرے اور ذہین و فطین ٹیکنوکریٹس کے ذریعے چلانے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کو کسی نہ کسی صورت پاکستان کی Geo-Strategic اہمیت یاد آجائے۔ وہ یہ اہمیت بھولا رہے تو ضیاء الحق جیسے مرد مومن کو بھی 1978ء میں کپاس کی فصل سے ممکنہ ریاستی آمدنی آغا حسن عابدی کے بینک میں رہن رکھ کر ریاستی بجٹ کو کسی نہ کسی طرح ’’متوازن‘‘ رکھنا پڑتا ہے۔

ہمارے ’’فاتح افغانستان‘‘ کے دن بھی اس وقت تھوڑی خوش حالی اور ثبات کی طرف پھرے جب سوویت یونین نے ببرک کارمل کو کابل کا بادشاہ بنا کر وہاں اپنی افواج بھیج دیں۔ غلام اسحاق خان، ڈاکٹر محبوب الحق، ڈاکٹر اسد اور سرتاج عزیز جیسے ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ صرف ’’افغان جہاد‘‘ کی بدولت ہمیں اپنی ذہانتوں کے جلووں سے حیران کرتے رہے۔ جنرل مشرف، ڈاکٹر قادری اور عمران خان جو ’’تبدیلی‘‘ لانا چاہ ہے ہیں اسے لانا ناممکن نہیں۔ میں اس بودی دلیل کو ہرگز ماننے کو تیار نہیں کہ ہمارے مستعد و بے باک میڈیا، آزاد عدلیہ اور کسی  نام نہاد ’’سول سوسائٹی‘‘ نے اس ’’تبدیلی‘‘ کا راستہ روکا ہوا ہے۔ مگر ’’تبدیلی‘‘ لانے کی حقیقی قوت کے مالک لوگوں کے سامنے ایک سوال بھی ہوتا ہے “What Next?”۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر ہی آگے بڑھنا پڑتا ہے۔

فی الوقت مسئلہ بنیادی یہ ہے کہ صدر اوباما نے افغانستان سے اپنے ملک کو تقریباََ علیحدہ کر لیا ہے۔ وہاں کے 6 فوجی اڈوں میں 12 سے 15 ہزار امریکی جدید ترین ہتھیاروں کے ساتھ اب بھی موجود رہیں گے۔ کابل موجودہ افغان حکومت کے ہاتھوں سے نکلتا نظر آیا تو اسے بچانے کے لیے ہر ہتھیار استعمال ہو گا۔ بھارت کے وزیر اعظم کے حالیہ دورئہ امریکا کے بعد جاری ہوئے مشترکہ اعلامیہ کو غور سے پڑھ لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ کس ہوشیاری سے واشنگٹن نے افغانستان کے بہت سارے معاملات ہمارے ازلی دشمن کو Out Source  کر دیے ہیں۔ افغانستان کے علاوہ پاکستان کی Geo-Strategic اہمیت امریکا کبھی ایران کے حوالے سے بھی دریافت کر سکتا تھا۔ اوباما کی بے پناہ کوششوں سے مگر یہ دونوں ملک اب Direct ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان تو دور کی بات ہے اسرائیل جیسا امریکی حلیف بھی بہت چراغ پا ہے اور سعودی عرب بھی اکثر پریشان ہو جاتا ہے۔

ایسی بہت ساری وجوہات مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ جنرل مشرف، ڈاکٹر قادری اور عمران خان جس طرح کی ’’تبدیلی‘‘ چاہ رہے ہیں فی الحال ہوتی ممکن نظر نہیں آ رہی۔ ہاں عمران خان اپنے جلسے جاری رکھیں تو ’’خانہ جنگی‘‘ کا الارم بجاتی کچھ صورتیں ضرور بن سکتی ہیں۔ ایسی صورتوں کا تدارک ریاست کے دائمی اداروں کی مجبوری بن جایا کرتی ہے۔ مگر اس کے بعد جو ہوتا ہے وہ پہلے سے طے شدہ نہیں ہوتا۔ نئے حالات نئے کردار پیدا کرتے ہیں۔

1958ء سے قبل ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے کتنے لوگ واقف تھے؟ نواز شریف جنرل ضیاء کی لائی ’’تبدیلی‘‘ کی دین ہیں۔ اب کی بار 1958ء یا 1977ء والی تبدیلی آئی تو وہ بھی بالآخر کسی اور ’’بھٹو‘‘ یا ’’نواز شریف‘‘ کو سامنے لائے گی۔ عمران خان بھی اس کے سامنے بہت پرانے لگیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔