جوتھیکا رائے ایک ناقابل فراموش آواز

رئیس فاطمہ  اتوار 5 اکتوبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے کہ:
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

تو ہوا یوں کہ موسیقی، دریاؤں اور طوفانوں کی سرزمین بنگال کا جب ذکر پچھلے دو کالموں میں چھڑا، تو سوشل میڈیا کے طفیل بات اس عظیم بنگالی گلوکارہ تک بھی جا پہنچی جسے موسیقی کے رسیا ’’میرا بائی کا دوسرا جنم‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ایک ایسی سریلی آواز جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ میرے والد اکثر گلوکاروں اور دیگر فنون لطیفہ سے وابستہ اپنے حلقہ احباب کا ذکر بڑی اپنائیت سے کرتے تھے۔

خاص کر کندن لعل سہگل کا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب صحرائے تھر کی منفرد آواز پاکستان کی پہچان بن گئی۔ گا بجا کر روزی کمانے والی ایک پیدائشی فنکارہ کی سریلی آواز ریڈیو پاکستان کراچی کے نہایت قابل اور موسیقی کے قدردان سلیم گیلانی کے کانوں سے ٹکرائی اور جوہری نے ہیرے کو پہچان لیا۔ جو دیکھنے میں صرف ایک کانچ کا ٹکڑا۔ لیکن تراش خراش کے بعد قدردان جوہری کے ہاتھوں نے شیشے کے ٹکڑے کو ایسا ہیرا بنا دیا جسے لوگوں نے ’’ریشماں‘‘ کے نام سے جانا۔ اس ہیرے کی چمک دمک پڑوسی ملک بھارت تک بھی پہنچی۔ ریشماں کا تعلق راجستھان سے تھا۔

حضرت لعل شہباز قلندر پہ اپنی دھن میں مست گاتی ہوئی ریشماں کی آواز نے سلیم گیلانی کو ایسا متاثر کیا کہ انھوں نے اسے براہ راست ریڈیو اسٹیشن آنے کی دعوت دے دی۔ اور پھر جب مسز اندرا گاندھی نے ریشماں کے فن کا شہرہ سن کر خواہش ظاہر کی وہ آدھے گھنٹے کے لیے اسے سننا چاہتی ہیں لیکن جب ریشماں نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو وہ مسلسل تین گھنٹے تک گاتی رہی اور اندرا گاندھی پوری محویت سے سنتی رہیں۔ اور پھر ریشماں کے لیے بھارتی فلم انڈسٹری کے دروازے بھی کھل گئے۔ تب میرے والد صاحب نے اچانک ایک HMV گراموفون کمپنی کا ایک ریکارڈ نکالا اور ریکارڈ پلیئر پہ لگا دیا۔

Seaman’s کمپنی کے اس ریڈیو گرام میں اکٹھے دس ریکارڈ لگتے تھے۔ جو باری باری پلیئر پہ گرتے اور بجتے رہتے تھے۔ لیکن اس دن انھوں نے ریکارڈوں کا سلیکشن کیے بغیر نو ریکارڈوں میں سب سے نیچے ایک ریکارڈ بڑی دیکھ بھال کے بعد رکھا اور بولے: ’’اب اس آواز کو سنو!‘‘ میری والدہ ، بڑے بھائی، بھابی اور میں خود ہمہ تن گوش ہو گئے کہ شاید کوئی نیا ریکارڈ لے کر آئے ہیں۔ ریکارڈ گھومنا شروع ہوا اور ایک عجیب رلا دینے والی پرسوز آواز کمرے میں ابھری۔

گھونگھٹ کا پٹ کھول رے تورے پیا ملیں گے
جب گیت ختم ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ آواز تھی بنگالی گلوکارہ اور بھجن گائیکی کی شہرت یافتہ جوتھیکا رائے کی۔ اس کی کہانی بھی بالکل ریشماں کی کہانی کی طرح ہے۔ ایک سانولی سلونی دبلی پتلی لڑکی کی پرکشش آواز اور بڑی بڑی کالی آنکھوں والی جوتھیکا رائے (JUTHIKAROY) بھی اپنی آواز کا جادو جگا کر کچھ پیسے کما لیتی تھی۔ یہی کوئی دس سال کی بچی تھی وہ اس وقت۔ جب کلکتہ (اب کولکتہ) میں ایک بنگالی میوزک ڈائریکٹر نے جان لیا کہ جوتھیکا کوئی معمولی لڑکی نہیں ہے بلکہ یہ مستقبل کی ایک بڑی گلوکارہ ہے اور اس کے گلے میں سر کی دیوی براجمان ہے۔ وہ اسے اپنے ہمراہ لے آئے۔

تربیت کی اور بارہ سال کی عمر میں اس نے اپنا پہلا گانا ریکارڈ کرایا تھا۔ پھر تو خوش قسمتی جوتھیکا کے گھر کی چوکھٹ پہ بیٹھ گئی۔ وہ جو میں نے شروع میں کہا تھا کہ ’’ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا‘‘ تو اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم سب جوتھیکا رائے کو دلچسپی سے سنتے تھے۔ ان کے تقریباً تمام مقبول گیت ہمارے پاس تھے۔ والد صاحب 1945ء سے کراچی میں تھے اور سول ایوی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہ پھر کبھی بھارت نہیں گئے کہ وہاں اب کون تھا۔ سوائے قبروں اور بچپن و لڑکپن کی یادوں کے۔ وہ اکثر کہتے کہ پتہ نہیں جوتھیکا رائے زندہ بھی ہے یا نہیں۔ ٹیلی فون بھی اس وقت اتنے عام نہیں تھے۔ سوائے ریڈیو کے کوئی اور دوسرا ذریعہ بھی نہ تھا۔ پھر والد صاحب کا انتقال جب 1998ء میں ہوا تو جوتھیکا رائے اور فیروزہ بیگم کے صرف گیت اور غزلیں ہی میرے پاس باقی رہ گئیں۔

لیکن ہوا یوں کہ 10 ستمبر 2014ء کو سوشل میڈیا پہ ٹائمز آف انڈیا اور بی بی سی نے جب فیروزہ بیگم کے انتقال کی خبر دی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جوتھیکا رائے نے بھی 93 سال کی عمر میں 5 فروری 2014ء میں کولکتہ کے ایک اسپتال میں وفات پائی۔ ہائے کیسی بے رحم اور سنگدل ہے شوبز کی یہ دنیا؟ جب تک فنکار نظروں کے سامنے رہے تو خبریں سنتی اور سلگتی رہتی ہیں۔ اور جب وہ چمکتی دمکتی دنیا سے کنارہ کش ہو جائے، بوڑھا ہو جائے تو اس کی موت کی خبر بھی صرف سوشل میڈیا کے طفیل مل جاتی ہے۔ مجھے واقعی بہت افسوس ہوا کہ جوتھیکا رائے جیسی آرٹسٹ یوں چپکے سے مر گئی۔

20 اپریل 1920ء کو ویسٹ بنگال میں جنم لینے والی گلوکارہ 70ء کی دہائی تک سرگرم رہی۔ 1972ء میں ’’پدما شری ایوارڈ‘‘ حاصل کیا۔ اپنے کیریئر میں 200 ہندی اور 100 بنگالی گیت اور بھجن ریکارڈ کروائے۔ قاضی نذرالاسلام، میوزک ڈائریکٹر کمل داس گپتا اور بھیشما دیو چٹو پادھائے کی سنگت اور تربیت میں اپنی گائیکی کو بام عروج پہ پہنچایا۔ وہ اپنے فن کے مظاہرے کے لیے مختلف شہروں میں بھی بلائی جاتی تھیں۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی ان کے فن کے بڑے قدردان تھے۔ مسز سروجنی نائیڈو ان کی آواز کی شیدائی تھیں۔ ان کے گائے گئے 340 گیتوں اور بھجنوں نے انھیں بھارت کی مقبول ترین گائیکہ بنا دیا تھا۔

گاندھی جی جب پونا جیل میں تھے تو روزانہ ان کا بھجن ضرور سنتے تھے۔ مسز سروجنی نائیڈو کے والدین جنھیں فلمی گانے بالکل پسند نہیں تھے وہ بھی تقسیم سے قبل جوتھیکا کا بھجن ’’پگ گھنگھرو باندھ میرا ناچی تھی‘‘ شوق سے سنا کرتے تھے۔ انھیں قومی تاریخ میں لازوال شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب آل انڈیا ریڈیو سے بھارت کے یوم آزادی پر ان کا یہ گیت ’’سونے کا ہندوستان‘‘ بار بار نشر ہو رہا تھا۔ کیونکہ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کا انھیں یہ پیغام دیا گیا کہ جب تک وہ لال قلعہ نہ پہنچ جائیں وہ اپنا گانا جاری رکھیں۔ وہ ایک یادگار دن تھا جب بار بار اور مسلسل جوتھیکا رائے کی مدھر آواز ساری دنیا میں سنی جا رہی تھی۔

جوتھیکا رائے کے مقبول ترین گیتوں اور بھجنوں میں کچھ بطور خاص مجھے بہت پسند ہیں۔ آج کل جو حالات ہیں کہ بادشاہوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور اسی حساب سے بے وقعت بے توقیر غلام بھی ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ انتہائی مایوس کن صورتحال، دل گرفتگی۔ چوروں اور ڈکیتوں کی سوسائٹی میں ایک شخص نے ہمت کی کہ ان کی فرعونیت کو للکار سکے۔

عوام کے پیسے سے محلات اور ملیں بنانے والوں کی جعلی مسکراہٹ کے پیچھے چھپا گھناؤنا چہرہ دکھا سکے۔ گردنوں میں لوہے کی جگہ سونے کے سریے فٹ کرنے والوں کے دماغوں سے ’’بادشاہ سلامت‘‘ کا خناس نکال سکے۔ جب سب ’’چور چور‘‘ کا کھیل کھیل رہے ہوں تو ایسے برے وقت میں جو بھی ان چوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھائے گا، عوام اس کا ساتھ دیں گے لیکن ’’لفافہ پرسن‘‘ چوروں اور لٹیروں کا ساتھ دیں گے۔ سورج ضرور طلوع ہو گا انسانی حقوق کی علم برداری کا کہ اماوس کے بعد چاند نیا جنم لیتا ہے۔ چلیے تب تک اعصاب کو پرسکون رکھنے کے لیے جوتھیکا رائے کے یہ گیت ضرور سنیے۔

(1) چپکے چپکے بول مینا۔ چپکے چپکے بول
(2) روتی انکھیاں نہ سمجھیں نہ سمجھائیں
(3) کنہیا پہ تن من لٹانے چلی میں
(4) میں تو پریم دیوانی، میرا درد نہ جانے کوئی

کیسی کیسی مدھر اور دلکش آوازیں صرف ٹیپ، سی ڈی اور ڈی وی ڈی میں رہ گئیں۔ فیروزہ بیگم، جوتھیکا رائے، شمشاد بیگم، مبارک بیگم، خورشید، ریشماں، اختری بائی فیض آبادی، کے ایل سہگل، پنکھج ملک، کے سی ڈے، سی ایچ آتما اور نہ جانے کیسی کیسی انمول آوازیں کہیں کھو گئیں۔ لیکن اب بھی موسیقی کے دلدادہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پسندیدہ گلوکاروں کے نغمے سنبھال کر رکھے ہیں اور جو کچھ معلومات ان کے حافظے میں محفوظ ہوتی ہیں وہ انٹرنیٹ پہ ڈال دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔