وقت

راؤ منظر حیات  پير 6 اکتوبر 2014
raomanzarhayat@gmail.com

[email protected]

کیسے ذکر کروں! کہ زمانے کے کس حصے میں زندہ ہوں!اگر عرض کروں تو قلم کی سیاہی تک مٹ جائے گی۔ بیان نہ کروں تو یقین کیونکر ہوگا!

میڈیکل سائنس میں مریض سے سب سے پہلے پوچھاجاتاہے” کہ وہ اپنے زمان ومکان میں موجودہے کہ نہیں”۔(Well Oriented in Time and Space)،اس کا جواب ڈاکٹر بڑی تفصیل سے کاغذ پر منتقل کرلیتاہے۔یہ کیس ہسٹری(Case History) ،علاج کی بنیادسمجھی جاتی ہے۔مجھے پہلے یہ سوال درست معلوم ہوتاتھا پر اب یہ بالکل بے معنی ہوچکاہے۔کون سازمانہ اورکون سی جگہ!سب کچھ نقش آب ہے،اصل چیز نقشِ خدائی ہے؟مجھے سب سے زیادہ منتشرسائنس کی شعوری تعلیم نے کیا ہے۔دو جمع دوصرف چار!اگر مالک چاہے تو یہ300بھی ہوسکتاہے۔صرف اورصرف بصیرت کی ضرورت ہے!سچائی کا ایک وسیع سمندر ہے جس کو پہچاننا ضروری ہے۔

طالب علم مسلسل مطالعہ میں مصروف ہے۔ کون سے دھرنے!کون سی حکومت!کون سی تبدیلی!کون حاکم اورکون غلام!یہ سوال عبث ہیں۔کیونکہ غلام تو خداکے حکم سے بادشاہ بنادیے جاتے ہیںاوربادشاہ مسندِ غلامی پربراجمان کردیے جاتے ہیں!بات صرف اورصرف حکمِ ربی کی ہے۔میراجیسا جاہل اب روزکی بحث سے اکتا چکا ہے۔ دھرنے، ملاقاتیں، جھوٹ، فریب اور جمہوریت کے نعرے بے معنی نظر آتے ہیں۔اصل نکتہ تو لوگوں کی بے لوث خدمت اورعدل میں موجود ہے۔کب اورکیسے؟جواب توصرف اورصرف خداکے حکم میںپنہاں ہے۔یا شائد اس کی عطا کردہ دانش میں!فقراء اوردرویش ناراض نظرآتے ہیں۔خداکا حکم ذہن پر لاگو نظر آرہا ہے!

نوازشریف کے ساتھ کون نہیں تھا جب انھیں دربدر کیا گیا۔ سب کچھ، تمام پارلیمنٹ،مکمل حکومت مگر ایک چیز کی کمی تھی،خداکے رحم اورفضل کی!وہ دربدر پھرتے رہے،پھر بچالیے گئے۔مگر سوچ سے محروم لوگ ہمیشہ اپنے نفس کے غلام ہوتے ہیں۔الیکشن جیت جائیں تو کہتے ہیں کہ ووٹ مل گئے اوراگربادشاہ بن جائیں توفرماتے ہیں کہ یہ ثمرِ جمہوریت ہے۔سب کچھ کرنے والا خاموش رہتا ہے، مگر صاحبان فہم!کب تک؟اردگرد دیکھیں تو غرور،تکبر اورمکاری کے پہاڑنظرآتے ہیں۔صاحبان!ہر چیز غیرمعیاری اوردلیل کے بغیر ہے۔

حکم ملا کہ اس جمعہ کی شب کو ساتھ چلو۔ میں  انکارکرپایا نہ اقرار۔افسوس اب تک ہے۔طبعیت ہے کہ سنبھلتی ہے نہ رمز کو سمجھنے پر قدرت رکھتی ہے۔ فون کیا توپتہ چلا کہ وقت توگزرگیا!اب دوبارہ دیکھیں گے۔  میں سہل پسندی کا شکار ہوچکاہوں۔جولکھناچاہتاہوں،اس پر حاوی نہیں،جوبولنا چاہتاہوں،اس کی اجازت نہیں۔پاکستان کے حاکم گمان رکھتے ہیں کہ سب کچھ انھوں نے اپنی حکمت سے حاصل کیا ہے،مگر یہ محض سراب ہے۔ولی کہتے ہیں کہ دل پھیرے جاچکے ہیں۔ساری تدبیریں اب نقش برآب ہیں اورسب تاولیں قدرت کی منشا کے خلاف۔وقت بدلا نہیں،بدل دیاگیاہے۔اشارہ کافی ہے!ناسمجھ وقت کو اپنی قید میں کرنا چاہتے ہیں مگر وہ تو سمندرکے پانی کی مانند ہاتھ سے نکل کر”کُل”میں شامل ہوچکا۔اب بچاکیاہے!سوائے پچھتاوؤں کے اوراپنے اقتدارکی گزری ہوئی کہانیوں کے!

اگر مالک!عزت دینے کے بعد واپس لینا چاہے تو کون ہے جو سامنا کرسکے۔کیا کراچی سے آئے ہوئے نقب زن اورآسائشوں کے غلام کچھ تبدیل کرسکتے ہیں!بالکل نہیں!صاحبان شعور!بالکل نہیں،ان کے گمان میں بھی نہیں ہے کہ حکمت خداوندی نے لوگوں کے دلوں کوتبدیل کرڈالاہے۔نہ کوئی جادوگر کام آئے گا اور نہ کوئی نجومی!غیب کا علم صرف اورصرف مالک کوہے،وہی اس پر قادرہے اورکسی کو بھی اس علم پر غالب نہیں ہونے دیتا!

کالے بکروں کی روزانہ قربانی رائیگاں جارہی ہے!تسبیح کے دانوں کا رخ بدل چکاہے۔مگر کمال ہے کہ جن کو نقصان پہنچ رہاہے وہ اسے اپنا فائدہ گردانتے ہیں۔اس کے حکم کی بدولت عصَا موسیٰ سے وقت کاسمندرپھٹ چکاہے۔قافلہ رواں دواں ہے۔مگر غروراوردولت کے پیکر ابھی تک سچ کی ریت تک رسائی حاصل نہیں کرپائے!وقت تو غیر مقیدہے، مگرمعلوم ہوتا ہے کہ منجمد کیاجاچکاہے!لیکن اشارہ جن کے لیے ہے وہ اپنی عقل کے ہاتھوں خیالی چٹانوں پر تکیہ کر بیٹھے ہیں!اقتدار کا چشمہ تو وہیں سے نکلے گا جہاں حکم ربی ہوگا۔نہ بادشاہ کے حکم سے نہ اس کی اولادکی خواہش پر!

حیران ہوں کہ سامنے نظر آنے والی حقیقتیںآنکھوں سے اوجھل کیسے ہوجاتیںہیں۔اہل صفا کی ریاضت سے ان کو کیونکر معدوم کردیاجاتاہے!انگلیاں ہلاہلا کر باتیں کرنے والے بادشاہ اوران کے غلام ایک دم اتنے بے معنی کیسے ہوگئے ہیں!صاحبان!رمز ہے!اشارہ سمجھیے!کل سے” روز گارِفقیر “زیر مطالعہ ہے۔علامہ اقبال کے متعلق نادرذخیرہ معلومات۔ حیران ہوں کہ قدرت نے فقیر سید وجیہہ الدین سے کیاکام لے لیا۔کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوپائی۔

تعجب یہ بھی ہے کہ لکھنے والے کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس نے کیسا نایاب اورگرانقدرنسخہ لکھ ڈالاہے۔”عشق رسول ـ”میں غرقاب،اقبال اپنی لافانی صورت میں اس کتاب سے باہر نکل آتا ہے۔ سوال کرتا ہے۔ اور عقل ہے کہ محض خاموش ہے، کیوں! میرے پاس کوئی جواب نہیں؟ درویش کا حکم تھا کہ یہ نسخہ ضرورپڑھاجائے لہذامحو مطالعہ ہوں۔ایسا کیوںہے!مجھے کیوں کہاگیا!کہ یہ پڑھوں!معلوم نہیں! پوچھنے کی ہمت نہیں اور نہ جواب سننے کی اسطاعت۔

کوئی ہے جو حکومت کے معاملات کو حل کرپائے؟ ہرگز نہیں!اَنا اورسونے کے بتوں کو پوجنے والے اصل حقیقت سے دورجاچکے ہیں!کوئی بھی صائب مشورہ انھیں اپنے نفس پر تازیانہ کی مانند معلوم ہوتا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے!فکرودانش رکھنے والے تمام افسر اوردانشورحکومت سے کوسوں دورمحض عزت بچا کربیٹھے ہوئے ہیں۔صاحبان علم!معلوم ہوتاہے!کہ اقتدارکی بساط بدلنے والی ہے۔آج نہیں تو کل!آج کے غلام مستقبل کے بادشاہ ہوں گے اورآج ذاتی ہوائی جہازوں میں موج کرنے والے،کل خواب گراں نظرآئیں گے۔محض وقت کی بات ہے۔

یہ قدرت صرف مالک میں ہے کہ وہ وقت کولوگوں کے لیے کیسے تبدیل کرتا ہے! تبدیلی کا کوہ گراں اب ہوامیں رقص پر ہے مگر اشارہ صرف اورصرف یقین رکھنے والوں کے لیے ہے!تدبیر پر تکیہ کرنے والے محض زخم چاٹتے نظر آئیںگے۔کوئی مددنہ کرپائے گا۔نہ چین کا لادین بادشاہ،نہ ترکی کی مسند پر براجمان پیسے کا غلام!صاحبان!وقت کو پہچانیے۔یہ مسلسل گردش میں ہے۔سچ صرف اورصرف کیفیت میں ہے!علامہ اقبال کہتے ہیں کہ سال میں دوتین باراس طرح کا ہوجاتاہوں کہ اشعار اورافکار مچھلی کی طرح جال کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں۔

فکر محض یہ ہوتی ہے کہ کون سی مچھلی پکڑوں اورکون سی چھوڑدوں!ماہی گیر تو پریشان ہی رہتاہے۔مگر یہ بھی عطاہے،اس رب کی۔ علامہ فرماتے ہیں کہ یہ کیفیت سال میں دو یاتین بارسے زیادہ نہیں ہوتی۔فیض کا عالم یہ ہوجاتا ہے کہ شعرخودبخودلکھے جاتے ہیں اورحکم ربی سے قلم بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔علامہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد خاموش ہوجاتے تھے۔مکمل خاموش،آنسوؤں کی لڑی تھی جو آنکھوں سے جاری ہوجاتی تھی۔

آج کل کے حالات پرکیا عرض کروں،دل دکھتا ہے۔ جھوٹ کا ایک قافلہ ہے ۔ہمیں مجبورکیاجارہاہے کہ ہم مسلسل دائرے میں سفر کرتے رہیں۔اگرکوئی سانس بھی لے تو وقت کے بادشاہ کی تعریف کے ساتھ اوراگر نہ کرے تو اسے عزت سے جینے کے حق تک سے عاجز کردیا جاتا ہے۔ مگر خاموشی کا یہ طوفان سمٹنے والا ہے۔ نئے حادثات اورواقعات کا بادل ہے جو شورش پر آمادہ ہے۔مگر دیکھنے کی توفیق اہل اقتدارسے چھین لی گئی ہے۔قدرت کا ایک عجیب فیصلہ ہے کہ اس کا کوئی بھی فیصلہ نیا اوراچھوتا نہیںہوتا۔سب کچھ جانتے اورمعلوم ہوتے ہوئے بھی مقتدرحلقے انجان بن چکے ہیں۔

اب آپ اپنے ملک پر غورکیجئے۔مستقبل کی کیفیت کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں۔انسان کا دل مولا کے حکم کا منتظر ہوتاہے۔وہ جب چاہے اورجدھر چاہے،پھیردے!مگراہل حَکم کو یقین نہیں کہ دل پھیرے جاچکے ہیں۔ وہ تو اس وقت تعویز گنڈوں میں مشغول ہیں!اہل صفا تو کب سے ان کی عادتات کی بدولت ان سے کوسوں دورجاچکے!اب تو ان کی واپسی کا بھی کوئی امکان نہیں!حکمران خاندانوں نے عزت دارلوگوں کی پگڑیاں گزشتہ دودہائیوں میں زمانے کی گرد کی نذرکرڈالیں!انھوں نے اہلیت کے اصول کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔بلکہ منافقت کے اس عظیم باب کو جنم دیا جو صرف ان کے لیے وقتی سکون کا باعث بن گیا۔

دولت میں خوفناک اضافہ ہوا۔مگر خدانے صحت واپس لے لی۔تباہی اورجلد بازی کے بازارمیں ہراہل قلم اوراہل ہنر کو بے عزت کیاگیا۔کسی کو اپنے ساتھیوں سے سازش کا نشانہ بنوایاگیا اورکسی کو سرکاری اداروں کے ہاتھوں رسوا کرنے کا بھرپور اہتمام کیا گیا۔ نتیجہ کیا نکلا۔دولت میں مسلسل اضافہ مگر قدرومنزلت میں حقیقی طورپر مسلسل کمی!اشارے بارہاہوئے مگر ہر بارتکبر کی چھڑی سے نظر انداز کردیے گئے!اب کیا رنگ ہوگیا!ہر طرف خداکی طرف سے دل پھیرنے کے بعد نفرت کی ایک بارش، پر چھپنے کی کوئی جگہ نہیں!کوئی شاخ نہیں جس پر بسیراکیاجاسکے!

ایک اور بارعرض کرتاچلوں!آئرلینڈ سے پاکستان سے منتقل صوفی آج کل اضطراب میں ہے۔خاموش رہتا ہے کیونکہ دل کے زخم باربار سینے کو چیر کر باہر آجاتے ہیں۔بولتا ہے تو پھر بہت جلد خاموش ہوجاتا ہے! رمز کیا ہے! صرف خداجانتاہے!میرے جیسے جاہل کے پاس تو کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں!درویش کی آنکھوں میں غصے کی معصومانہ جھلک ہے!لگتا ہے کہ وقت بدل چکا ہے یا خداکے حکم سے بدلنے والاہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔