میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے

وجاہت علی عباسی  پير 6 اکتوبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پینتیس سالہ زینب بی بی جو اپنے گھر پاکستان میں مقیم ہیں، انھوں نے برطانوی امیگریشن کو عرضی دی ہے کہ وہ پاکستان جانے سے بہت خوف زدہ ہیں۔ برطانوی اور امریکن قانون کے مطابق اگر آپ کو اپنے ملک واپس جانے سے کوئی بھی خطرہ ہے تو آپ اپنا وزٹ ویزا سیاسی پناہ کے ویزے میں تبدیل کرواسکتے ہیں اور اگر کچھ عرصے بعد یہ خطرہ اگر خطرہ ہی رہے یعنی کچھ سال گزر جانے کے باوجود آپ واپس نہ جا پائیں تو اکثر آپ کو ان ملکوں میں رہنے کی مستقل اجازت یعنی وہاں کی شہریت مل جاتی ہے جس کے بعد آپ سے مزید کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی، صرف یہی نہیں بلکہ آپ کو اوپر سے پیسے بھی ملتے ہیں تاکہ آپ اپنا گزر بسر کرسکیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں زینب بی بی پیدا ہوئیں اور ساری عمر رہیں وہاں واپس آنے میں ان کو ڈرکیوں لگتا ہے؟ وہ کوئی سیاسی شخصیت تو ہیں نہیں پھر ایک عام پاکستانی کو پاکستان واپس آنے میں کیا خوف ہوسکتا ہے؟ ہوسکتا ہے پاکستان میں دہشت گردی سے انھیں خوف آتا ہو، وہ آزاد ملک جس کی آزادی ملک میں آج ہم اپنے گھروں کے اندر چار تالوں کے پیچھے بیٹھ کر بھی آزادی سے سانس لینے سے ڈرتے ہیں۔

یہ مشکل سی تیز دوڑتی زندگی جسے پکڑنے کے لیے جتنے ہاتھ آگے بڑھاؤ اتنی تیز ہوتی جاتی ہے کس لمحے سڑک پر گزرتے ایک دھماکے سے ہمیشہ کے لیے تھم جائے گی کسی کو نہیں پتہ۔

آج ہم سے یہاں امریکا میں رہنے والے گورے بڑی حیرت سے پوچھتے ہیں ’’جب تم چھٹیوں میں پاکستان جاتے ہو تو ڈر نہیں لگتا؟‘‘

وہی ملک جو میرے آباؤ اجداد نے اس لیے بنایا تھا تاکہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے ایک آزاد ملک کی طرح پہچانے لیکن اسی پاکستان کے ذکر سے باقی قومیں حیرت کا اظہار کرنے لگتی ہیں۔ کیا بہت برے حالات ہیں وہاں؟، سچ مچ پاکستان میں دہشت گرد ٹریننگ حاصل کرتے ہیں؟ کیا تمہارے رشتے دار خیریت سے ہیں وہاں؟

نہیں … ان سب سوالوں کے جواب دینے کے لیے نہیں بنایا تھا پاکستان۔

زینب برطانیہ میں رہنا چاہتی ہیں، شاید انھیں اپنے پیارے پاکستان سے زیادہ سکون اس پردیس میں ان لوگوں کے بیچ جاکر ہے جن سے ساٹھ سال پہلے نجات پاکر ہم نے خود کو آزاد محسوس کیا تھا۔ اگر دہشت گردی زینب بی بی کا مسئلہ نہیں ہے تو پھر شاید معاش کی مشکلات یعنی ڈگری ہے لیکن نوکری نہیں کا خوف انھیں ہوسکتا ہے، پڑھوگے لکھوگے بنوگے نواب، بچپن سے محنت کرو اپنی قوم اور ملک کے لیے روز رات نو بجے کی خبروں سے پہلے ہر وہ بات جو قائداعظم نے فرمائی سن کے پاکستانی قوم کے نجانے کتنے بچوں نے سوچا ہوگا کہ وہ بھی پڑھ لکھ کر اپنے ملک کے لیے کچھ کریں گے لیکن لکھنے پڑھنے کے بعد ملک تو دور کی بات آج کے نوجوان کے لیے اپنے لیے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ بھی کرنا ناممکن ہوتا ہے۔

اپنی قابلیت سے صرف ایک چھوٹی سی نوکری ملنا بھی مشکل ہے، آپ کسی بڑے باپ کے بیٹے یا پھر آپ کے چاچا، ماما کسی بڑی پوسٹ پر لگے ہوئے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے پھر تو گھر ہی کی بات ہے کوئی نہ کوئی جگہ نکل آئے گی لیکن آج اگر کسی بھی نوجوان کی پہچان پاکستان ہونا ہے یعنی وہ کسی بڑے باپ کا بیٹا نہیں بلکہ صرف پاکستان کا بیٹا ہے جو پڑھ لکھ کر اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے تو اکانومی اتنی خراب ہے کہ نوکری کہاں۔ زینب بی بی اگر برطانیہ وزٹ ویزے پر جاکر سیاسی پناہ لے لیں تو انھیں چالیس پونڈ ہفتہ الاؤنس ملتاہے جو شاید انھیں پاکستان میں دفتروں کے دھکے کھانے سے بہتر لگتے ہوں۔ بجلی، پانی کے گھنٹوں گھنٹوں نہ ہونے کا خوف ہے زینب بی بی کو؟

چاند پر پہنچی دنیا روز ہم کو بتاتی ہے اخباروں میں کہ آج امریکا نے نیا اسپیس شپ بھیجا خلا میں یا پھر فرانس نے نیا سیٹلائٹ لانچ کیا اور ہندوستان نے پہلے سے ہزار گنا تیز کمپیوٹر بنالیا اور ہم یہ سب خبریں گھر میں بیٹھے پڑھ رہے ہوتے ہیں، اس گھر میں جہاں دن میں دو گھنٹے سے زیادہ سو واٹ کا بلب جل جائے تو ہم خوش ہوکر سوچتے ہیں کہ آج بجلی کم گئی، جہاں دوسرے ملک ترقی کرتے چاند تاروں تک پہنچ گئے وہیں ہماری ترقی یہ ہوگی کہ پورے شہر میں بجلی آتی رہے اور جب نل کھولو تو پانی آرہا ہو۔

امریکا جیسے ملک میں سال دو سال میں کسی وجہ سے کچھ دیر کو بجلی منقطع ہونا ہو تو محکمے والے کئی دن پہلے سے اطلاع کردیتے ہیں، اس کے علاوہ اگر بجلی جانے کی وجہ سے آپ کی فریج میں رکھا کوئی بھی سامان خراب ہوجائے تو ایک فارم جمع کروا کر بجلی والوں سے آپ ہرجانہ طلب کرسکتے ہیں۔

یہ سارے خوف تو پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کو ہیں اور یہ برطانیہ امریکا والے اچھی طرح جانتے ہیں، یعنی خوف کی یہ سب صفائیاں دینے سے تو کوئی بھی صاف صاف پکڑا جائے گا، برطانیہ جاکر اگر ہر پاکستانی اپنے یہی خوف بیان کرے تو برطانیہ والے سوچیںگے کہ پاکستان سے سب کو بلانے سے بہتر ہے کہ ہم خود ہی پھر کیوں نہ وہاں واپس چلے جائیں لیکن زینب بی بی کے خوف کی وجہ ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، ان کے خوف کی وجہ ہے ان کا قد۔

زینب بی بی کا قد سات فٹ دو انچ ہے اور وہ دنیا کی سب سے لمبی خاتون (سابقہ ) ہیں، ان کے مطابق پاکستان میں لوگ ان کو تنگ کرتے تھے، وہ گھر سے باہر نکلتی ہیں تو لوگ انھیں پتھر مارا کرتے تھے، لمبے قد کی وجہ سے انھیں بہت تنگ کیا گیا یہاں تک کہ ایک بار ان کی کلائی کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی۔

دس جنوری 2009 کو ان کی پناہ کی درخواست تیسری بار رد کردی گئی لیکن انھیں برطانیہ میں مزید رکھنے کی اجازت مل گئی ہے۔ ان کے وکیل چوتھی بار پھر کوشش کریںگے۔ پاکستان میں ان کے علاقے کے ایس ایچ او نے کہا ہے کہ ان کی حفاظت کی پوری ذمے داری ان کے علاقے کی پولیس کی ہے، اگر وہ واپس آئیں لیکن زینب بی بی کی بہتر سالہ والدہ اقبال بی بی کو لگتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی برطانیہ میں خوش ہیں تو اس کو واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

آپ بھی اگر پاکستان میں کسی بھی چیز سے تنگ ہیں تو برطانیہ میں پناہ کی درخواست کرسکتے ہیں، اگر اسائلم نہیں بھی ملی تو ویزے کی مدت میں توسیع ضرور ہوجائے گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ کا قد سات فٹ سے اونچا ہونا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔