ملک کا پہیہ چلانے والے لوگ

منظور ملاح  پير 6 اکتوبر 2014

جب سے سرمایہ دارانہ نظام نے ہمارے ملک میں اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں تب سے سماجی اخلاقی اقدار بھی پست ہو چکی ہیں، اور لائف اسٹائل بھی تبدیل ہو چکا ہے۔ اب بزنس مین کی بلے بلے ہے، باقی لوگ صرف دکھاوا ہیں۔یہ بزنس مین ہی ہیں، جو کالے دھن کو سفید میں تبدیل کر سکتا ہے، جو ایک ٹکے کی چیز کو لاکھوں میں بیچتا ہے، جب کہ بنانے والے پیٹ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔

یہ وڈیرے اور جاگیردار ٹھیک کہتے ہیں کہ ہماری سو ایکڑ زمین لے لو اور کراچی میں ایک تکے کباب کی دکان دے دو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ان پڑھ یا آدھے پڑھے لکھے جاگیرداروں میں ٹور ہی رہ گئی ہے، ورنہ اگر ہمارا بزنس کلاس فصلوں پرآنے والے خرچوں اور ہر چھ ماہ میں ملنے والی آمدنی دیکھے تو سر پر پائوں رکھ کر بھاگ جائے۔ بقول پنجابی کے سوہنے شاعر مشتاق صوفی کے اب پنجاب کی بزنس کلاس بھی مربعے لے کر ٹور بنا رہی ہے۔

کہاں گئے وہ سرکش جاگیردار، قبائل کے اصل جاگیردار لوگ۔ اب تو کراچی کا ایک سیٹھ بھی پیسے سے لے کر اثر و رسوخ میں ان سے طاقتور ہے، باقی ہمارے وڈیرے اور جاگیردار بیچارے دیہاتوں میں صرف غریبوں اور مسکینوں پر رعب ڈالنے، پھینٹی لگانے اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں گھومنے اور سیر و شکار کرنے میں پورے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، یہ وڈیرے اب بھی سولہویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ ان کے پاؤں زمیں سے اکھڑ رہے ہیں، اور ان کی بادشاہی سکڑ کر اپنے چھوٹے سے علاقے تک محدود ہو گئی ہے۔

خیر! وڈیرے اور جاگیردار تو اپنی جگہ لیکن اس کا اثر ہمارے برسوں سے زمین کی کھیتی باڑی کرنے والے کسان پر بھی پڑا ہے، جن کی شادیاں، غمیاں اور خوشیاں سب فصلوں کی بدولت ہوتی تھیں۔ یہ کسان دن رات محنت کرتے، فصلوں کی اپنے بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتے، اندھیری راتوں میں سانپ، بلاؤوں کو پاؤں تلے روند کر بھی فصلوں کو پانی دیتے، ہل، گوڈی، کھاد اور دوائیں ضرورت کے مطابق دیتے، زمینوں میں کچھ کیش کراپس اور کچھ مال مویشیوں کے لیے گھاس لگاتے، اس لیے ان کے گھر کا سنگھار بھینسیں، بکریاں اور بیل ہوتے۔

بیلوں کے بغیر تو آپ کسان ہونے کا تصور ہی نہیں کرسکتے تھے، پڑوسی کسان ایک دوسرے کی فصلیں دیکھنے آتے اور مزید بہتری کے لیے مشورے بھی دیتے، جب کی اپنے بیلوں کے بارے میں ذکر بھی کرتے تھے۔ بیٹوں اور بیٹیوں کی شادیوں کے دن بھی فصل کے اترنے سے مشروط ہوتے۔ پھر جب فصل اترتی تو کسان کے گھر میں مسکراہٹیں بکھرتیں، عورتیں نئے کپڑے، جوتے خریدنے میں لگ جاتیں، چولہے پر کوئی گوشت یا مچھلی کی لذیذ ہانڈی پکتی، بچوں کے چہروں پر خوشیاں نظرآتیں، کیسی خوشیوں کی دنیا آباد تھی تب۔ اب یہ کسان کسی اجڑی ہوئی جاگیر کا منظر پیش کرتے ہیں۔

ان کے پریشانی سے اترے ہوئے چہرے، پھٹے ہوئے کپڑے، میلی پگڑیاں، بے حال عورتیں، بدحال گھر، مال مویشی نہ ہونے کے برابر، بارہ کے بارہ مہینے قرضوں تلے دبے ہوئے، خوشیاں غموں میں تبدیل، فصل سے آمدنی ہوگی تو شادی ہوگی نا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں بڑھتی ہوئی سفید بالوں تک پہنچ جاتی ہیں، جو شادی کا انتظار کرکے بڑھاپے میں پاؤں ڈالتے ہیں۔ خودکشیاں روزبروز بڑھتی جا رہی ہیں، فصلوں کے بھاؤ بھی آمدنی سے کم ملتے ہیں، جو ملتے ہیں وہ سود پر کھاد اور دوائیں دینے والے دکاندار کھا جاتے ہیں، چراگاہیں ختم ہوگئیں تو مال مویشی بھی گھٹنے لگے، اگر کسی کے پاس بچ گئے ہیں تو وہ بھی دودھ پینے کی حد تک، باقی پالنے کے شوق چلے گئے۔

اب کسان کو بھی وہ محنت مزدوری نہیں کرنی پڑتی، کیوں کہ مشینی دور آگیا ہے، البتہ زمینداروں نے اب کسان کے خاندان میں ہی سے کم ماہانہ تنخواہ پر تنخواہ دار رکھے ہوئے ہیں، جو انھیں فائدہ بھی دیتے ہیں، اس صورت میں کئی سال سے زمینداری کو خاندانی پیشہ اپنانے والے کسان کہاں جائیں؟ کیوں کہ زرعی سماج ہمارے ہاں کئی صدیوں کی تاریخ پر محیط ہے۔ اب تو کسان بے چارہ دن میں بھی خواب دیکھتا ہے اور ہماری زراعت کا حال بھی دن بہ دن خراب ہوتا جارہا ہے۔ اندازہ لگائیے اتنا بڑا زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی زرعی اجناس باہر سے منگوائی جاتی ہیں، جب کہ ہماری زمینیں سیم و تھور کا شکار ہو رہی ہیں، جو بچ گئی ہیں وہ آبادی بڑھنے کی وجہ سے پلاٹنگ کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کی اکثر آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جب کہ پیسہ تو صرف ان لوگوں کے پاس جارہا ہے، جن کا اسٹاک ایکسچینج پر سکہ چلتا ہے، جو بیس سیٹر ذاتی جہاز میں اپنی فرموں کے تجارتی معاہدے کرنے جاتے ہیں، جن کی بڑی بڑی صنعتی امپائرز ہیں۔ اب ان کسانوں کے خاندانوں میں سے کچھ نوجوان اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے مزدوری کرنے شہر کا رخ کرتے ہیں۔

صبح سویرے جب میں دفتر جانے کے لیے سانگھڑ شہر میں سے گزرتا ہوں تو ان مزدوروں کو قطاروں میں بازار میں کھڑے ہوتا دیکھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، جو اپنی اداس آنکھوں میں موجود حسرتوں سے ادھر ادھر تکتے رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں خوشحال خاندانوں کے یہ لوگ اب بازار میں بکتے ہیں، ان کی بولی لگتی ہے، اور ہر کوئی مزدور کم اجرت پر اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے، جو بچ گیا وہ دوپہر کو خالی ہاتھ اور تھکے پاؤں ناامیدی کے عالم میں مایوس واپس گھر لوٹ آتا ہے، جہاں اس کے بچے انتظار کرتے ہیں کہ وہ کوئی دو چار کلو آٹا لائے گا تو پیٹ کی بھوک بجھائیں گے۔

تصورکریں کہ جب کوئی مزدور خالی ہاتھ واپس لوٹ آتا ہے، تو اس کا وہ دن گھر میں کیسے گزرتا ہوگا اور اس کے معصوم بچوں کی خواہشات کیسے دم توڑتی ہوں گی۔ میں نے تو کئی ایسے گھر دیکھے ہیں جو کئی دنوں تک بھوک کے فاقے کاٹتے ہیں، جن کے تن پر کپڑا نہیں ہوتا، جن کے چولہے بجھے بجھے ہوتے ہیں، جن کی کوئی عید نہیں ہوتی، جو کچھ خرید بھی نہیں سکتے۔ دوسری طرف ہم جب کرپٹ سیاستدانوں، بیوروکریٹس کے بڑے بڑے گھر دیکھتے ہیں، جن پر ہٰذا من فضل ربی یا ماشا اﷲ لکھا ہوا ہوتا ہے، جن کی اولاد کو عیاشیوں سے وقت نہیں ملتا، جہاں غریب آدمی کا داخلہ گناہ کبیرہ ہے۔

کیا یہ لوگ صرف زبانی طور پر ملک و قوم کے ساتھ وفاداری کا جو رونا روتے ہیں، یہ سب کچھ اس کی نفی نہیں؟ ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ مجھے اس کی کوئی فکر نہیں کہ ہمارا زرعی سماج زوال پذیری کی طرف جا رہا ہے، کیوں کہ دنیا ویسے بھی بدل رہی ہے لیکن مجھے تو غم ان کسانوں اور مزدوروں کا ہے جن کے گھر کے چولہے بھی نہیں جلتے۔ یہ وہی ہاتھ ہیں جن کی محنت کی بدولت یہ ملک چلتا ہے، زمین، زمینیں آباد ہوتی ہیں، کارخانے اور صنعتیں کام کرتی ہیں، جن کی وجہ سے زندگی کا وجود چلتی ہوئی گاڑی کی طرح برقرار رہتا ہے۔ آئیے ذرا اس طرف بھی سوچیں۔

یہ وہی ہاتھ ہیں جو ملک کا پہیہ چلاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔