دنیا کے اکثر ممالک میں لوگوں نے چاند کو سرخ ہوتے دیکھا

ویب ڈیسک  بدھ 8 اکتوبر 2014
دنیا بھر کے اکثر ممالک میں لاکھوں لوگوں نے مکمل چاند گرہن کو دیکھا۔ فوٹورائٹرز

دنیا بھر کے اکثر ممالک میں لاکھوں لوگوں نے مکمل چاند گرہن کو دیکھا۔ فوٹورائٹرز

نیویارک: سال میں دوسری مرتبہ ہونے والے چاند گرہن نے دنیا بھر کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرالی کیونکہ چاندنی بکھیرنے والا چاند گرہن کے باعث خونی رنگ میں تبدیل ہوگیا اور اس منظر کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں نے اپنے کیمروں میں محفوظ کرلیا۔

آسٹریلیا، مشرقی و جنوبی امریکا ،مشرقی ایشیا اور پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں چاند گرہن ہوا جو واضح طور پر دیکھا گیا اور اس دوران چاند پر خونی رنگ چڑھ آیا جس سے چاند کا رنگ روپ ہی تبدیل ہوتا دکھائی دیا جبکہ اس نظارے کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے لوگوں نے بڑی تعداد میں دیکھا اور اپنے کیمروں میں محفوظ کیا، لاکھوں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے لیے نکلے اور خاص طور پر ساحل سمندر کا بھی رخ کیا تاکہ اس نظارے کو مزید خوبصورت دیکھا جائے ۔ چاند گرہن کے دوران زمین گردش کرتی ہوئی سورج اور چاند کے درمیان آگئی اور مکمل طور پر چاند کو گھیر لیا جس کی بدولت چاند کی چاندنی کچھ گھنٹوں کے لیے غائب ہوگئی اور اس پر سرخی مائل رنگ چڑھ گیا جس کے باعث اس چاند گرہن کو خونی چاند کا نام دیا گیا۔

ہانگ کانگ میں چاند گرہن کے مناظر کو دیکھنے کے لیے اسپیس میوزیم میں ہاربر سائیڈ پر لوگوں کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھےجبکہ ٹوکیو میں یوگا کے ماہرین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خونی چاند گرہن کے دوران یوگا کی مشقیں کیں جبکہ آسٹریلوی خلاباز جیف سیمز نے چاند گرہن کا مشاہدہ نیو ساوتھ ویلز میں بلیو ماونٹین سے کیا، ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف چاند گرہن کی وجہ سے تاریکی چھاگئی تو دوسری طرف ستارے چمکتے دکھائی دے رہے تھے یہ منظر بڑا زبردست اور یاد رہنے والا تھا۔

دووسری جانب پاکستان کے بعض علاقوں میں بھی جزوی چاند گرہن دیکھا گیا جہاں لاہور اور فیصل آباد میں واضح طور پر چاند گرہن نظر دیکھا اور میڈیا نے بھی چاند گرہن کے مناظر براہ راست نشر کیے جبکہ لوگوں کی بڑی تعداد بھی اس منظر کے نطارے کرتی رہی۔

واضح رہے کہ رواں سال کا یہ دوسرا چاند گرہن تھا جبکہ پہلا چاند گرہن 15 اپریل کودیکھا گیا اور آئندہ چاند گرہن 4 اپریل 2015 کو ہونے کا امکان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔