بھارتی فوج کی بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ

ایڈیٹوریل  جمعرات 9 اکتوبر 2014
پاکستان کوبھارت کی صورت میں ایسا پڑوسی ملا ہے جسکے جارحانہ عزائم سے پاکستان سمیت دیگرپڑوسی ممالک بھی کسی طورمحفوظ نہیں. فوٹو: فائل

پاکستان کوبھارت کی صورت میں ایسا پڑوسی ملا ہے جسکے جارحانہ عزائم سے پاکستان سمیت دیگرپڑوسی ممالک بھی کسی طورمحفوظ نہیں. فوٹو: فائل

پاکستانی قوم عیدالضحیٰ کی خوشیاں منانے میں مصروف تھی کہ اچانک بھارتی فوج کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری شروع کردی گئی، جس کے نتیجے میں متعدد شہری شہید اور زخمی ہوگئے۔بھارتی فوج کے اس اقدام سے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول کے ساتھ مقیم پاکستانی شہریوں کی عید سوگ میں ڈوب گئی، عید کے تینوں دن فائرنگ کا یہ سلسلہ جاری رہا ۔دنیا بھر میں پڑوسی ممالک  تو ایک دوسرے کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتے ہیں۔پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات پرامن رہیں ، باہمی تعلقات وتجارت کو فروغ حاصل ہو۔

وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ، لیکن ان کی انتہائی پرخلوص کوششوں کا نظر انداز کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے اپنے رویے اور سوچ میں کسی بھی قسم کی مثبت تبدیلی پیدا نہیں کی ۔ پاکستان کو بھارت کی صورت میں ایسا پڑوسی ملک ملا ہے جس کے جارحانہ عزائم سے پاکستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک بھی کسی طور محفوظ نہیں ۔بھارتی فوج کوکم ازکم مسلمانوں کے مذہبی تہوارکا احترام توکرنا چاہیے تھا لیکن مقام افسوس ہے کہ بھارتی مورچے مسلسل پاکستانی آبادیوں پر گولے برسا کر معصوم شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں۔ ان واقعات میں گھروں اور مویشیوں کا بھی نقصان ہورہاہے۔

چناب رینجر کے مطابق ورکنگ باؤنڈری پربھارتی فورسزنے 31 مرتبہ سیز فائر کی خلاف ورزی کی جس پر بھرپور جوابی کارروائی کی گئی۔  آزاد کشمیر میں بھی اگلے روز بھارتی فورسز نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فائرنگ کی اور مارٹرگولہ پھینکے ، جس سے متعدد مکانات کو نقصان پہنچا جب کہ مویشی اور فصلیں بھی متاثر ہوئیں۔ پاک فوج کی موثر جوابی کارروائی کے بعد بھارتی مورچے خاموش ہوگئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نہتے اور بے قصور عوام کو بلاجواز نشانہ بنانا کہاں کی انسانیت ہے، کیا بھارتی جنگی جنون ڈیڑھ ارب انسانوں کو جنگ کی آگ کا ایندھن بنانا چاہتا ہے ۔

دنیا تبدیل ہو رہی ہے ، پرانی دشمنیاں اور جنگیں بھلا کر یورپ متحد ہوچکا ہے، بلڈی وار سے تو سب نفرت کرتے ہیں، دنیا میں امن کی ضرورت ہے، بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکن کی حیثیت حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے، پاکستان بھارت کے جارحانہ عزائم کے باعث اس کی اولین دن سے مخالفت کر رہا ہے کیونکہ یہ بھارت ہی تھا جس نے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو استصواب رائے کے ذریعے فیصلے کا حق دے گا ،لیکن بھارت نے آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا ۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی ہندو شدت پسند قوتوں کے حامی اور سرپرست گردانے جاتے ہیں ۔ورکنگ باؤنڈری پر تسلسل سے جارحانہ کارروائیاں کسی آنے والی ’جنگ ‘ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اسرائیلی طرز کی پالیسی اپنانے سے باز رہے،کیونکہ پاکستانی عوام گجرات کے نہتے باسی نہیں ہیں۔

بھارت کی خارجہ پالیسی معتدل نہیں بلکہ جارحانہ عزائم پر مشتمل ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے میں بھارت کا کردار انتہائی مذموم رہا ، سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی سرپرستی اور فوجی مداخلت ، افغانستان میں بڑھتا ہوا عسکری نیٹ ورک،چین اور پاکستان سے باقاعدہ جنگیں ، نیپال ، بھوٹان کا جینا حرام کرنا،کیا دنیا ان اعمال وافعال سے بے خبر ہے جو بھارت کو سلامتی کونسل کی رکنیت دینا چاہتی ہے ۔ بھارت اگر دنیا کی سپرپاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے تو اسے اپنی خارجہ پالیسی کو ازسرنو ترتیب دینا ہوگا ، پڑوسی ممالک کی خودمختاری ،سالمیت کا احترام اور ان سے تعلقات کی نوعیت کو بہتر بنانا ہوگا ، اگر اسلحے کے ڈھیر لگانے کا جنون طاری رہا تو یہ بھارت کے عوام کو غربت اور بے بسی کی گہری اور اندھی کھائی میں دھکیل دے گا،جس سے باہر آنا ان کے لیے ممکن نہ ہوگا ۔

بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں کشمیر سمیت متعدد صوبوں میں چل رہی ہیں، وہ بھی بھارت کو اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکارکرسکتی ہیں ۔کیا روس جیسی سپرپاور کا انجام بھارت کے سامنے نہیں، بھارتی سرکارکو چاہیے کہ وہ فوج کو بلاجواز فائرنگ سے فوری طور پر روکے، بے گناہ اور معصوم شہریوںکی جانیں لینے سے گریزکرے کیونکہ یہ چنگاریاں،آگ کے شعلے بن سکتی ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بھارت فوری طور پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کرے۔

انھوں نے مزید کہا کہ بد قسمتی سے کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر امن کی بحالی کے لیے ہماری کوششوں کے جواب میں بھارت کی طرف سے کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیںکہ قیام امن کے ضمن میں اقوام متحدہ کے مبصرین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔کیونکہ خطے کا امن خطر ے سے دوچارہوچکا ہے۔واحد راستہ ’امن‘ ہے کیونکہ جنگ کا نتیجہ تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہیں، بھارت کو یہ بات یاد رکھتے ہوئے بالادستی کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔