سیاسی تحریکوں میں محنت کشوں کا کردار

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 9 اکتوبر 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایوب خان کے خلاف تحریک پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی۔ مرد، عورت، بچے تحریک کا حصہ بن رہے تھے۔ اس زمانے میں طویل عرصے بعد مزدور طبقہ بیدار ہو رہا تھا، ہم نے سائٹ کے صنعتی علاقے میں مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا تھا، متحدہ مزدور فیڈریشن کے نام سے ہم نے جو تنظیم بنائی تھی وہ اس قدر تیزی کے ساتھ مزدوروں میں مقبول ہوگئی تھی کہ دوسری تمام پیشہ ورانہ مزدور تنظیموں کا ڈبہ گول ہوگیا تھا، مزدور، متحدہ مزدور فیڈریشن کے علاوہ کسی تنظیم کا نام سننے کے لیے تیار نہ تھے، عشروں سے مزدوروں کے نام پر کاروبار کرنے والی تنظیموں کی دکانداریاں ختم ہوچکی تھیں۔

لیبر ڈپارٹمنٹ کے ذریعے مزدوروں کے مسائل حل کرنے والی مزدور قیادت بے دست و پا ہوکر رہ گئی تھی، اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ متحدہ مزدور فیڈریشن کی قیادت ایسے مخلص اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کر رہے تھے جو مزدوروں کو لیبر کورٹس، لیبر ڈپارٹمنٹ کی بھول بھلیوں سے نکال کر ان کی اپنی طاقت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے اپنے حقوق حاصل کرنے کی ترغیب دے رہی تھی اور مزدور اپنی یونینوں کے ذریعے اپنے مطالبات منوا رہے تھے۔

امریکا نے پسماندہ ملکوں کے غریب عوام کو سوشلزم کی طرف راغب ہونے سے روکنے کے لیے جو مختلف طریقے اپنائے تھے ان میں کولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کی مدد کرنا بھی شامل تھا۔ پاکستان کو کولمبو پلان کے تحت جو بھاری اقتصادی امداد مل رہی تھی اسے صنعتی ترقی کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، کراچی میں تیزی سے صنعتیں لگ رہی تھیں اور دیہی علاقوں دوسرے صوبوں سے بے روزگاروں کے قافلے کراچی آرہے تھے، خاص طور پر صوبہ سرحد سے مزدور جوق در جوق کراچی کا رخ کر رہے تھے۔ کئی کچی آبادیاں بن چکی تھیں۔ متحدہ مزدور فیڈریشن نے مزدوروں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اس کی وجہ سے مزدوروں میں لسانی، قومیتی اور فرقہ وارانہ تعصبات ختم ہوگئے تھے اور مزدور صرف مزدور کی حیثیت سے متحد تھے، یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی کہ مزدور طبقہ صرف اور صرف طبقاتی بنیاد پر منظم ہو رہا تھا۔

ایوب خان کا دور اس حوالے سے ایک یادگار دور تھا کہ ملک میں تیزی سے صنعتی ترقی ہو رہی تھی لیکن کولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کو بھاری اقتصادی امداد فراہم کرنے والا امریکا ہرگز یہ نہیں چاہتا تھا کہ امداد حاصل کرنے والے ملکوں میں سوشلسٹ نظریات فروغ پائیں اور ترقی پسند طاقتیں عوام میں مقبول ہوں، ایک طرف ملک تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا تھا تو دوسری طرف مزدوروں پر جبر کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، مزدوروں کے لیے اپنی یونین بنانا ناممکن بنا دیا گیا تھا دوسری طرف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا، مالکان کو اس قدر کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی کہ وہ اپنی ملوں میں نجی جیلیں بنا رہے تھے اور مزدوروں کو سزائیں دے کر ان جیلوں میں بند کر رہے تھے، مزدوروں میں سخت خوف و ہراس پھیلا ہوا تھا۔

اس جبر اور خوف و ہراس کے ماحول سے مزدور طبقے کو نکالنے کے لیے متحدہ مزدور فیڈریشن نے ایوب حکومت کے خلاف مزدوروں کو سڑکوں پر لانے اور ایوب خان کے خلاف چلنے والی سیاسی تحریک کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ سائٹ کے صنعتی علاقے سے ایک جلوس نکالا گیا جس میں مزدور بصورت سیلاب شریک ہوئے لگ بھگ 50 ہزار مزدوروں کا یہ جلوس جب سڑکوں پر آیا تو ایوب خان کے خلاف چلنے والی تحریک میں ایک ایسا عنصر داخل ہوگیا جو اس تحریک میں فیصلہ کن کردار کا حامل بن گیا۔ مزدوروں کی تحریک میں شمولیت کے بعد تحریک اس قدر طاقتور بن گئی کہ اس وقت کے مرد آہن ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا یوں سیاسی تحریک میں مزدور طاقت فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوگئی مزدور خوف سے آزاد ہوگیا۔

سیاسی تحریکیں عموماً ریاستی جبر، اقتصادی ناانصافیوں اور اشرافیائی تسلط کے خلاف چلتی ہیں، ریاستی جبر اور طبقاتی استحصال کے خلاف عوام کے اندر ہی اندر لاوا پکتا رہتا ہے اور جب بھی کوئی سیاسی قیادت کوئی سیاسی جماعت ظلم و ستم کے اس نظام کے خلاف جرأت سے باہر نکلتی ہے اور حکمرانوں کو چیلنج کرتی ہے تو عوام کے اندر پکنے والا لاوا باہر نکل پڑتا ہے۔ عمران خان اور قادری نے جب حکومت کی بدعنوانیوں کے خلاف کھل کر آواز بلند کی تو عوام کا سیلاب باہر نکل آیا۔ عمران خان اور قادری نے جب حکومت کی کرپشن کی داستانیں عوام کو سنانے کا سلسلہ شروع کیا تو ہر طرف ملک کے اندر ملک کے باہر گو نواز گو کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور ڈی چوک میں محصور تحریک پورے ملک میں پھیلنے لگی۔

حکمران طبقات نے اپنی روایت کے مطابق دھرنوں کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرنے کی بار بار کوشش کی اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے لاٹھی اور آنسو گیس کا استعمال بھی کیا جس کے دوران عوام کا جانی نقصان بھی ہوا اور سیکڑوں لوگ زخمی بھی ہوئے۔ لیکن تحریک کو دبایا نہ جاسکا، اب یہ تحریک ڈی چوک سے نکل کر سارے ملک میں پھیل رہی ہے۔ بعض معتبر حلقوں کی جانب سے اس تحریک پر جو مختلف الزام لگائے جا رہے ہیں۔

ان میں سے ایک الزام یہ بھی ہے کہ عمران خان کی تحریک کا اہم عنصر برگر فیملیز ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ برگر فیملیز اس تحریک کا ایک متحرک حصہ بنی ہوئی ہیں لیکن یہ تبدیلی کوئی غلطی نہیں بلکہ عمران کی ایک بڑی کامیابی ہے کہ اس نے ایک ایسے طبقے کو سڑکوں پر لاکھڑا کیا جو اپنی خوابگاہوں اپنے ڈرائنگ روموں سے باہر نکلنا پسند نہیں کرتا تھا، اگر آج یہ طبقہ اپنے بچوں کے ساتھ سڑکوں پر بیٹھا ہے تو یہ ایک نئی سیاسی پیش رفت ہے ایک نئی کامیابی ہے ناکامی نہیں۔ نہ ہی اس نئی پیش رفت کو ایک الزام کی شکل میں عمران خان کے سر تھوپا جاسکتا ہے۔

سیاسی تحریکوں میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرنے والے اور سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے غریب طبقات ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہی طبقات سیاسی اور معاشی استحصال کا شکار ہوتے ہیں ہر ملک میں غریب مختلف پیشوں سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن ان کا تعلق بہرحال ایک ہی طبقے سے ہوتا ہے اس محنت کش طبقے میں مزدور اور کسان سب سے زیادہ مظلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مزدور طبقے کا حال صنعتی غلاموں جیسا اور ہاری اور کسان کا حال زرعی غلاموں جیسا ہے۔ بھٹو کے دور میں مزدوروں سے ان کے جو حقوق چھینے گئے تھے وہ آج تک واپس نہیں کیے گئے تنظیم سازی کا حق، ہڑتال کا حق، سودے کاری کا حق ان سارے حقوق سے محنت کش طبقہ محروم ہے۔ کسانوں کا حال زرعی غلاموں جیسا ہے جب کہ یہ طبقہ ملکی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے جو سب سے زیادہ مظلوم ہوتا ہے وہی ظالموں کے خلاف تحریکوں میں سب سے زیادہ فعال کردار ادا کرتا ہے۔ اپنی سیاسی تحریکوں کا حصہ بنانے کے لیے ان کو مسائل کو ہائی لائٹ کرنا ضروری ہے۔

مزدوروں کے بڑے بڑے مسائل میں ان کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ یونین سازی سوداکاری اور ہڑتال کا حق سب سے اہم ہیں ٹھیکیداری نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ کسانوں کو وڈیروں جاگیرداروں کے تسلط سے آزاد کرانے کے لیے زرعی اصلاحات اور زرعی اصلاحات کے ذریعے حاصل ہونے والی زمین کی منصفانہ بنیادوں پر ہاریوں میں تقسیم ضروری ہے اگر ان کے یہ مطالبات ہائی لائٹ کیے جائیں اور انھیں پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو یہ طبقات سیاسی تحریکوں کا حصہ بن سکتے ہیں اور سیاسی تحریک بامعنی بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔