گو نواز گو کے نعروں کا سیاسی بحران

سلمان عابد  جمعرات 9 اکتوبر 2014
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

سیاست میں بعض اوقات آپ کا سیاسی فلسفہ یا سیاسی منطق وہ اہمیت اختیار نہیں کرتے ، جو سیاسی نعروں کو حاصل ہوتی ہے ۔ اس وقت پاکستان کا سیاسی بحران سیاسی قوتوں سے حل ہونے کے بجائے مسلسل بگاڑ کا شکار ہے ۔ اگرچہ حکومت کو گرانے یا وزیر اعظم کی رخصتی کے مطالبات تھمے ہوئے ہیں ، لیکن حکمران طبقات مسلسل خطرات کی زد میں گھرے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ کیونکہ بحران محض حکومتوں یا وزیر اعظم کی رخصتی کا نہیں ہوتا ، بلکہ اس بحران کے نتیجے میں اہم بات حکومت یا کسی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کی سیاسی و اخلاقی ساکھ کا ہوتا ہے ۔

اس دھرنے کی سیاست جو اب عمران خان کی نئی حکمت عملی کے تحت جلسے جلوس کی شکل اختیار کرگئی ہے ، اب کھیل میں خود عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی میدان میں کود پڑے ہیں ۔ ان کے بقول اب وہ صرف جلسے یا جلوس ہی نہیں کریں گے بلکہ انھوں نے اپنی جماعت کو آنے والی انتخابی سیاست کے لیے بھی پیش کر دیا ہے ۔

اس لیے حکومت اور بعض سیاسی جماعتوں کا جو خیال تھا کہ دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے ہاتھ خالی اور ناکامی ان کا مقدر ہوگی ۔لیکن ایسا نہیں ہوا ، کیونکہ دھرنوں کی سیاست کی جلسوں میں تبدیلی نے حکومتی مشکلات میں نیا اضافہ کردیا ہے ۔اس مشکلات میں ایک نیا اضافہ’’ گو نواز گو‘‘کے سیاسی نعروں کا ہے ۔ گو نواز گو کے یہ سیاسی نعرے اب حکمران طبقات کا سیاسی پیچھا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

عوامی مقامات یا عوامی اجتماعات میں حکومتی لوگوں کا ایک استقبال ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعروں سے ہوتا ہے ۔ ماضی میں بھی ہم گو نواز گو، گو بے نظیر گو، گو مشرف گو اور گو زرداری گو کے نعرے سن چکے ہیں ۔ ان نعروں میں ایک خاص وقت تک شدت بھی رہی ، لیکن ان نعروں کے کچھ عملی نمونے یا سیاسی ردعمل ہم سیاسی محاذ پر بہت زیادہ نہیں دیکھ سکے تھے ۔ لیکن عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے گو نواز گو کے نعروں کی سیاسی پذیرائی نے ملک کی فضا میں حکمران طبقات کو ایک بڑے ردعمل کی سیاست میں مبتلا کردیا ہے ۔

گو نواز گو کے سیاسی نعرے نے اوپر سے لے کر نیچے تک کے طبقات میں پذیرائی حاصل کی ہوئی ہے ۔ ایک زمانے میں لوگ بڑے لوگوں کے ساتھ اپنے تحفظات ، مایوسی اور نفرت کے باوجود ان کے سامنے ردعمل کے اظہار سے گریز کیا کرتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے ۔ اس نعرے کا اظہار ہر طبقہ میں کیا جا رہا ہے ، سیاسی کارکنوں سے ہٹ کر اسکولوں اور کالجوں کے بچے اور بچیاں بھی ان نعروں کے ساتھ اپنے شعور کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔حکمران طبقہ اب عوامی اجتماعات میں جانے سے قبل منتظمین سے پوچھتا ہے کہ وہ وہاں عوامی ردعمل سے کیسے بچ سکیں گے ۔

’’گو نواز گو ‘‘ کے سیاسی نعرے محض تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی سیاست تک محدود نہیں رہے ، بلکہ پیپلز پارٹی کے ناراض جیالے اپنے جلسوں میں بھی اپنی قیادت کا استقبال گو نواز گو کے نعروں سے کرکے انھیں بھی سیاسی طور پر جھنجھوڑ رہے ہیں ۔ کسان ، مزدور، ٹیچرز سمیت جو بھی طبقات اپنے مسائل یا عوام بجلی کے بلوں میں اضافہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ’’ گو نواز گو ‘‘ کے نعرے کو بطور سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے حکومتی رٹ کو کمزور کررہے ہیں انھیں  ایک بنیادی نقطہ سمجھنا ہوگا کہ لوگ جب گو نواز گو کا نعرہ لگاتے ہیں تو اس کے پیچھے اس نظام سے مایوسی کا عمل لوگوں میں زیادہ ہوتا ہے ۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ جو نظام، جمہوریت اور آئین کی سیاسی چھتری کے نیچے چلایا جا رہا ہے وہ ان کے مفادات کے خلاف ہے ۔ لوگوں میں اپنے مسائل کے بارے میں مایوسی پہلے بھی تھی ، لیکن اب اس کے اظہار کے لیے انھیں ایک اچھا نعرہ یا سیاسی شغل مل گیا ہے ، اس نعرے سے معاشرے کے محروم طبقات اپنے غصہ کا اظہار کرکے اندرکے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس گو نواز گو کے سیاسی نعرے نے حکمرانوں کو بھی ان نعروں کی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ پشاور میں تو پیر صابر شاہ نے خود ہی گو نواز گو کے نعرے لگوا دیے ، کہا گیا کہ یہ زبان کی پھسلن تھی ، مان لیا ، لیکن جو لوگ پیر صابر شاہ کے ساتھ اسی نعرے کی گردان کر رہے تھے ان کو کیا نام دیا جائے گا۔ اسی طرح جہاں لوگوں نے حکمران طبقات کے سامنے گو نواز گو کے نعرے لگائے تو بعض مقامات پر ان کو مخالفین کی جانب سے تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حکمرانوں کی مجبوری سمجھ میں آتی ہے ،کیونکہ اس مضبوط طاقت ور حکمران طبقات کو ماضی میں اس طرح کا براہ راست ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا تھا ۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاسی نعرہ حکمرانوں کی سیاسی چھیڑ بن کر رہ گیا ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ اس نعرے کا حکمران طبقات میں خاصہ ردعمل ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے بقول اللہ کے شیر جاگے تو سرخی رہے گی نہ پاوڈر اور مریم نواز کے بقول وزیر آباد میں گو نواز گو کے نعروں کا ابھی صرف ٹریلر چلا ہے ، جیسے کو تیسے کا ردعمل ہوا تو پی ٹی آئی کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی ۔اسی طرح وزیر آباد میں گو نواز گو کے نعروں پر ان کے صوبائی رکن اسمبلی کا مظاہرین پر تشدد اور اس کے بعد مریم نواز اور شہباز شریف کی جانب سے اس کی حمایت اور مزید اس پرتشدد عمل کی حمایت ، اچھی حکمت عملی نہیں ۔

اگرچہ حکومت کی منطق یہ ہے کہ گو نواز گو کے نعروں کو عوامی اجتماعات میں عمران خان اور ان کے ساتھی ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت لگواتے ہیں ، لیکن اسکولوں ،کالجوں میں جو معصوم طلبہ و طالبات یہ نعرے لگا رہے ہیں اسے کس طرح سے سیاسی مخالفین کی حکمت عملی قرار دیا جا سکتا ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کے سیاسی مخالفین بھی کوئی ایک ایسا خاص نعرہ تیار کرتے جو عمران خان کے سیاسی حمایتیوں کو پسند آتا، لیکن اس کے لیے یقینا تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے ۔ لیکن خدشہ ہے کہ اس نعرے کی بنیاد پر سیاسی محاذ پر سیاسی لوگوں میں محاذ آرائی بڑھ رہی ہے ، جو اچھا عمل نہیں ۔ گو نواز گو کے نعرے پر جتنا سخت ردعمل حکمران جماعت کی جانب سے سامنے آئے گا ، یہ نعرہ اتنا ہی زیادہ بڑھے گا ۔ اس لیے جو لوگ بھی حکومت کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ان نعروں کا سیاسی ردعمل جوابی کارروائی کی صورت میں دیں ، وہ حکومت کے دوست کم اور دشمن زیادہ نظر آتے ہیں ۔

گو نواز گو کے نعروں کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس نے اس نعرے کی حمایت یا مخالفت میں ایک سیاسی لکیر بھی کھینچ دی ہے ۔لوگ سیاسی تھڑوں، چائے خانوں، سیاسی محفلوں، بازاروں ، گھروں اور دفتروں میں اسی نعرے کو موضوع بحث بنا کر حمایت اور مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں ۔ سوشل میڈیا میں گو نواز گو کا نعرہ اپنی مقبولیت میں سب کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔

دوسرے ملکوں میں رہنے والے پاکستانی بھی اپنے پیغامات کو سوشل میڈیا اور ایس ایم ایس کے ساتھ پھیلاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔لوگ ایس ایم ایس میں اس نعرے کو بنیاد بنا کر پیغام رسانی کرتے ہیں ۔ایک زمانے میں اس طرز کے نعروں کی ایک بڑی قبولیت محض چند بڑے شہروں تک محدود رہتی تھی ، لیکن گو نواز گو کے نعرے اب چھوٹے شہروں سمیت دیہاتوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔

اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری سیاست اور اس میں موجود فریقین  ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ نعروں کے بجائے لوگوں کے بنیادی مسائل اور قومی درپیش چیلنجزکو اپنی سیاست کی اہم ترجیح بناتے ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔کیونکہ گو نواز گو کے نعروں سے بچنے کا راستہ ان نعروں کو جوابی نعروں کے بجائے خود حکومتی کارکردگی سے جڑا ہوا ہے ۔

جب خود حکمران اپنے حکمرانی کے نظام کو موثر اور لوگوں کی خواہشات کے مطابق چلائیں گے ، یا اس میں بہتری لائیں گے تو لوگ اس کارکردگی کی بنیاد پر گو نواز گو کے نعروں سے گریز کریں گے ، اور جو لوگ نعرے لگا بھی رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی ہوگی۔ وگرنہ دوسری صورت میں گو نواز گو کا نعرہ اور اس کا پھیلاؤ بری طرز حکمرانی میں حکومت کی سیاسی اور اخلاقی ساکھ کو اور زیادہ متنازعہ بنا کر حکومت کو پہلے سے زیادہ دفاعی پوزیشن پر لاکر کھڑا کردے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔