بلاول بھٹو کا پیغام امید

ایم جے گوہر  جمعرات 9 اکتوبر 2014

پاکستان پیپلز پارٹی کے جواں سال پرجوش و پرعزم چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے رہنماؤں و کارکنوں کے نام اپنے ایک پیغام میں تسلیم کیا ہے کہ ماضی میں ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ہم ان کوتاہیوں کے ازالے اور اصلاح کا عزم رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے پارٹی کے ان ناراض کارکنوں، رہنماؤں، ہمدردوں اور نظریاتی جیالوں سے جن کے دلوں میں آج بھی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے محبتوں، قربتوں اور عقیدتوں کی رمق باقی ہے کہا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے ان کی تضحیک ہوئی ہے یا انھیں نظرانداز کیا گیا ہے اور پارٹی سے ناراض ہیں تو بلاول بھٹو زرداری ان سے ذاتی طور پر معذرت کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم نے اصلاحات کا فیصلہ کر لیا ہے آپ میرے ساتھ کسی بھی شکایت کی سزا پاکستان اور جمہوری عمل کو ہرگز نہ دیں اور نہ ہی کسی غیر جمہوری و انتہا پسند جماعت کی حمایت کریں کیونکہ پاکستان میں پہلے ہی دائیں بازو کی سیاست کو پروان چڑھایا گیا ہے یہاں تک کہ تحریک طالبان پاکستان کو بھی سیاسی جماعت بنا کر پیش کیا گیا۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ پی پی پی ایک جمہوری جماعت ہے جس میں پارٹی پالیسی پر اختلاف کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور ہم نے ہمیشہ پارٹی کے اندر مخالفت اور اختلاف رائے کا احترام کیا ہے تاہم اس کے باوجود اگر آپ پارٹی چھوڑنے پر بضد ہیں تو آپ کسی جمہوری و عوام دوست پارٹی کا انتخاب کریں پی پی پی اس کا خیر مقدم کرے گی۔ انھوں نے ناراض کارکنوں کو باور کرایا کہ صرف پیپلز پارٹی ہی ایک پرامن، خوشحال اور ترقی پسند پاکستان دے سکتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا ناراض کارکنوں و رہنماؤں کے نام مذکورہ پیغام گہری معنویت لیے ہوئے ہے اور موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں اپنے اندر غور و فکر کا سامان بھی رکھتا ہے تاہم پیغام کی بنیادی روح پیپلز پارٹی کے ناراض کارکنوں، رہنماؤں اور نظریاتی جیالوں کے پارٹی پر متزلزل اعتماد کو پھر سے بحال کرنا ہے۔ ان کے اندر پھیلے ہوئے مایوسیوں کے اندھیروں کو امید کی کرنوں سے روشن کرنا ہے، انھیں دوبارہ پارٹی کے ہر اول دستے کا حصہ بنانا ہے، بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ جڑے ان کے نظریاتی تعلق کو مستحکم بنانا ہے، پارٹی اور ناراض کارکنوں کے درمیان موجود غلط فہمیوں کا خاتمہ اور فاصلوں و دوریوں کو قربتوں و محبتوں میں بدلنا ہے۔

ملک بھر کے مبصرین و تجزیہ نگار بلاول بھٹو کے مذکورہ پیغام کو ملک کے سیاسی حالات اور پیپلز پارٹی کی اندرونی صورت حال کے تناظر میں مختلف زاویوں سے دیکھ اور پرکھ رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ شاخ شاخ بیٹھنے کے عادی اور ہوا کا رخ دیکھ کر اڑان بھرنے والے سیاسی پرندوں کی طرح پیپلز پارٹی کی قیادت سے ناراض اور مایوس رہنماؤں و کارکنوں کی بھی ایک بڑی تعداد پارٹی چھوڑنے اور عوامی سطح پر تیزی سے مقبول ہوتی جماعت تحریک انصاف کی جانب مائل بہ پرواز ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے غور و فکر کر رہی ہے، نہ صرف پنجاب بلکہ سندھ، جو پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے، کے ناراض رہنما و جیالے بھی قطع تعلق کرنے کے والے سے ’’دوسری جانب‘‘ سے اشاروں کے منتظر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بدلتی ہوئی صورتحال سے احسن طریقے سے عہدہ برآ ہونے کے لیے پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بہت کچھ سوچنے کے بعد سنجیدہ عملی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

پی پی پی کے سرپرست اعلیٰ سابق صدر آصف علی زرداری نے جو ملکی سیاست کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہ ہیں، اپنی مفاہمتی سیاست کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے فرزند بلاول بھٹو زرداری کو عملی سیاسی زندگی میں پوری طرح فعال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا ناراض کارکنوں و رہنماؤں کو واپسی کا پیغام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ 18 اکتوبر کو کراچی میں بابائے قوم کے مزار کے پہلو میں جلسہ کر کے بلاول بھٹو اپنی سیاست کا آغاز کریں گے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی خالصتاً ایک نظریاتی جماعت ہے جس کی عمارت شہید بھٹو کے سیاسی فلسفے کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے۔ اول اس کی نگہبانی شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہاتھ رہی جنھوں نے اپنے لہو کا نذرانہ دے کر اس عمارت کو مزید مستحکم کیا اور اس کی رکھوالی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی ذمے داری ہے۔ اس نظریاتی سیاسی عمارت کے سارے مکین نہایت مخلص، سچے، کھرے، وفادار اور اپنے شہید قائد کے سیاسی فکر و فلسفے کے محافظ ہیں۔ زمانے کی کوئی لالچ، مفاد، حرص، طمع اور غرض انھیں اپنے راستے سے ہٹا نہیں سکتی۔

ماضی اور تاریخ گواہ ہے کہ بعض عاقبت نااندیش حاشیہ برداروں نے پیپلز پارٹی کے اندر دراڑیں ڈالنے اور رہنماؤں و جیالوں کو ورغلانے کی بزدلانہ کوششیں کیں۔ اندرونی و بیرونی قوتوں نے زور آوری کے تمام حربے آزما لیے لیکن وہ پیپلز پارٹی کی بنیادوں کو ہلانے میں ناکام رہے۔ چار دہائیاں گزرنے کے باوجود ملک کے کروڑوں غریبوں، مزدوروں، کسانوں، مزارعوں، محنت کشوں، غریبوں اور پسماندہ طبقے کے دلوں میں شہید بھٹو اور شہید بی بی کی محبتوں اور قربتوں کی شمع روشن ہے۔ عوام اور پارٹی کے درمیان فاصلے اور دوریاں پیدا کرنے کی ہر سازش ناکام اور سازشی عناصر نامراد رہے پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ آج بھی صوبہ سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔

ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل و استحکام کو یقینی بنانے اور آمریت کے خلاف پی پی پی کے رہنماؤں و کارکنوں نے طویل، صبر آزما، کٹھن اور تاریخ ساز جدوجہد کی شہید بھٹو اور شہید بی بی نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر جمہوریت کی آبرو بچائی۔ ایک زمانہ اس حقیقت کا معترف ہے کہ پی پی پی کے جیالے کارکن بھٹو ازم کے محافظ اور جیلیں کاٹنے، صعوبتیں برداشت کرنے، کوڑے کھانے، خودسوزیاں کرنے اور لہو کے نذرانے دینے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ پارٹی کے مخلص رہنماؤں و کارکنوں کی یہی وہ قربانیاں ہیں جو پارٹی کا اصل سرمایہ اور لازوال اثاثہ ہیں جو ملک کی کسی دوسری سیاسی جماعت کے پاس نہیں ایسا کیوں؟ اس لیے کہ پاکستان میں کوئی دوسرا بھٹو نہیں ہے، دوسری بے نظیر بھٹو نہیں ہے۔

کسی سیاسی جماعت کے پاس پی پی پی کے جیالوں جیسے آئینی عزم کے حامل نظریاتی و مخلص کارکن نہیں ہیں۔ بھرے، باوقار و وفادار رہنما نہیں ہیں جو دل شکستہ ہو کر بھی سیاسی وفاداری نبھانے کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ بہرحال ناراض و دل گرفتہ جیالے کارکنان و رہنما خاطر جمع رکھیں۔ بلاول بھٹو زرداری تک آواز پہنچ چکی ہے۔ پارٹی میں اصلاح کے لیے تطہیری عمل شروع ہو رہا ہے۔ بلاول کا پیغام آپ کے لیے امید کی کرن ہے۔ ملک، جمہوریت اور عوام کی خاطر آپ کو پھر سے فعال، متحد، منظم اور متحرک ہو جانا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔