سنگ چٹی

حسین مسرت  جمعرات 9 اکتوبر 2014

گلی میں ہمجولیوں کے ساتھ بے فکری سے کھیلتے، رسی کودتے کودتے، وہی رسی جیسے عمر بھر گلے کا پھندا بن گئی۔ گڑیا کی شادی رچاتے اور ’’ہنڈکلیا‘‘ پکاتے پکاتے اس معصوم کی زندگی بھی گڑیا کی شادی کی طرح تبدیل ہو گئی۔ دفعتاً گڑیا کی جگہ وہ دلہن بنا دی گئی۔ محبت کی مٹی سے گندھی ہوئی کئی معصوم بچیوں کی زندگی اسی طرح دفعتاً تبدیل ہو جاتی ہے۔ اکثر بچیاں بڑا مختصر بچپن پاتی ہیں۔ بچپن کے کھیل کود، شرارتیں، بے فکری کے قہقہے ان کی زندگی میں کم ہی آتے ہیں، ان کی یاد شروع ہی شادی سے ہوتی ہے۔ نیا گھر اور نئی ذمے داریاں ان کا مقدر تو ہوتی ہی ہیں لیکن ظلم اور مارپیٹ بھی جیسے ان کے ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں۔

میرے خوبصورت سندھ کا یہ پہلو بہت بھیانک ہے۔ چھوٹی عمر کی بچیاں جو کم عمری میں دلہنیں بنائی جاتی ہیں، یہ کوئی خوشی کا موقع نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک رسم بھی نہیں بلکہ ایک مافیا کی طرح ہے، گھریلو مافیا ہے، جسے کوئی بھی چیلنج نہیں کرتا۔ سندھ کے وہ علاقے جہاں قبائلی نظام رائج ہے، وہ علاقے جہاں وڈیرا شاہی کا ڈیرا ہے، وہ اس قبیح رسم کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں۔ ایسے علاقوں میں لڑکیاں شادی کے نام پر بیچی جاتی ہیں۔ معصوم زندگیوں کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ معصوم پریاں ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی کسی نہ کسی کی قید میں چلی جاتی ہیں۔ ہم اتنے ظالم بھی نہیں کہ عمل کو جائز قرار دیں، ہم نے بہت اچھے اچھے قانون بنائے ہوئے ہیں، بچپن کی شادی کی ممانعت کا قانون ہماری سندھ حکومت کا آئینی کارنامہ ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ جرم ہے۔

یہ قانون تو 1929ء میں انگریز دور حکومت میں بھی پاس ہوا تھا۔ 16 سال سے کم عمر لڑکی اور 21 سال سے کم عمر لڑکے کی شادی کو جرم قرار دیا گیا تھا، یہ قانون 1930ء میں پورے برصغیر میں رائج کیا گیا تھا۔ آج بھی یہ قانون موجود ہے لیکن جرم کو جرم مان کر بھی اس کا ارتکاب جاری ہے۔ مرد عورت کو اشیائے صرف کے برابر سمجھتا ہے، ایک ایسی چیز جو خریدی اور بیچی جا سکے۔ ایسی چیز جس کو اپنے فائدے کے لیے کسی بھی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

قدیم زمانے میں جب کرنسی نہیں تھی تو لوگ اشیائے صرف کو ایک دوسرے کی ضرورت کے حساب سے بدل لیتے تھے، اس کو بارٹر سسٹم کہا جاتا تھا۔ آج کل عورت اسی سسٹم کی طرح لی اور دی جاتی ہے۔ جرم کو جرم نہیں اسے مختلف نام دے کر کیا جاتا ہے۔ وہ بچپن کی شادی ہو یا ’’سنگ چٹی‘‘ ہو۔ سنگ چٹی ایسی قبیح رسم ہے جو کہ عورت کی زندگی کو مکمل طور پر تباہ کر دیتی ہے۔ سندھی میں ’’چٹی‘‘ لفظ کا مطلب ہے، ہرجانہ، بنا کسی قصور کے تاوان ادا کرنا۔

’’سنگ چٹی‘‘ اس وقت نافذ ہوتا ہے جب گھر کا کوئی مرد کوئی غلطی کرے، کسی جھگڑے میں ملوث ہو یا کوئی پسند کی شادی کر لے تو پھر اس کی بہن یا کسی قریبی عزیز لڑکی کو دوسرے متاثرہ خاندان میں بیاہ کر دے دیا جاتا ہے۔ اس کو سنگ چٹی کہا جاتا ہے۔ اس میں عموماً کم عمر لڑکیوں کے رشتے طے کیے جاتے ہیں، کبھی کبھی تو پیدا ہونے سے پہلے ہی طے کیا جاتا ہے کہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اس کو ہرجانے کے طور پر دیا جائے گا۔

قبائلی اور وڈیرا شاہی کا نظام اسی طرح کے فیصلوں پر چلتا ہے۔ یہ عمل چھوٹی عمر کی شادیوں کو فروغ دیتا ہے۔ پچھلے دنوں SPO ادارہ استحکام شرکتی کی جانب سے کیے گئے ایک سروے رپورٹ سامنے آئی۔ یہ سروے صرف ضلع شکارپور کے کچھ دیہات میں کیا گیا تھا۔ نتائج بہت ہی تلخ تھے، سیکڑوں ایسی خواتین ملیں جو ’’سنگ چٹی‘‘ اور چھوٹی عمر کی شادیوں کی رسم کی بھینٹ چڑھی ہوئی تھیں۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ غربت کی وجہ سے، غریب والدین بچیوں کی شادیاں کر دیتے ہیں۔

عجیب بات ہے کہ غربت کے مارے لوگ کبھی بیٹوں کو نہیں بیچتے، کبھی کسی لڑکے کا رشتہ ’’سنگ چٹی‘‘ کے تحت نہیں کیا جاتا۔ سبھاگی 9 سال کی تھی جب اس کی شادی بھائی کے بدلے میں کی گئی۔ بھائی تو خوش رہا لیکن وہ گھر میں نوکروں کی سی حیثیت سے زندگی گزارنے لگی۔ دن رات کام کی چکی میں پستی ہوئی معصوم آہستہ آہستہ بیمار رہنے لگی۔ وہ گھر کا کام بھی کرتی تھی اور اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے، سلائی کڑھائی کا کام بھی کرتی تھی۔

بھائی پر لگائے گئے قتل کے الزام کو ختم کرنے کے بدلے میں علاقے کے وڈیرے نے فیصلہ دیا کہ مولا بخش کی 10 سالہ بیٹی رانی کو مقتول کے بیٹے سے بیاہ دیا جائے۔ ایک قاتل کی بہن جب دلہن بن کر گھر میں داخل ہوتی ہے تو اس کا استقبال محبت سے نہیں نفرت سے کیا جاتا ہے۔ رانی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، بدلے کی آگ میں جھلسے ہوئے لوگ اٹھتے بیٹھتے اسے طعنے دیتے۔ یہ تو صرف نام کی شادی تھی، اصل مقصد بدلہ لینا تھا۔

سو بھائی نے قتل کیا تو اس کی جان بچانے کے لیے رانی کو ساری عمر عذاب میں رہنا پڑا۔ ایسی سیکڑوں معصوم لڑکیاں ہیں جو جرگوں اور فیصلوں کے ذریعے بیچ دی جاتی ہیں۔ پھر ان کی زندگی مسائل کے انبار میں دبتی چلی جاتی ہے۔ وہ نہیں جانتیں کہ اس ظلم پر آواز اٹھانا ان کا حق ہے، وہ نہیں جانتیں کہ ان کی مرضی اور خواہش بھی اہمیت رکھتی ہے۔ مسلسل عزت نفس کے مجروح ہونے کا وہ شکوہ بھی نہیں کرتیں۔ معصوم لڑکیاں کبھی کبھار تو والدین کے گھر بھی نہیں جاتیں۔ والدین سے ملنے کے لیے انھیں اپنے نام نہاد شوہر کی ’’اجازت‘‘ درکار ہوتی ہے۔ گھر میں ان کے ساتھ ’’خریدی ہوئی کنیز‘‘ کی طرح کا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

کئی معصوم بچیاں صحت کے مسائل کا شکار ہو کر جان سے گزر جاتی ہیں۔ جب ایک کمزور اور کم عمر بچی ماں بننے کے عمل سے گزرتی ہے تو بعض اوقات اس کا جسم اس عمل کی طاقت نہیں رکھتا اور وہ ایک جان کو تخلیق کرتے ہوئے اپنی زندگی کھو بیٹھتی ہے اور اس قتل پر نہ کوئی دفعہ نہ تعزیر لگتی ہے کہ یہ معصوم بے قصور مجرم کا مقدر جو ٹھہرا۔ تڑپ تڑپ کر جان دینے والی کو کبھی اسپتال جانا بھی نصیب نہی ہوتا۔ مال غنیمت میں ملی ہوئی بے جان چیزوں کی کچھ وقعت ہوتی ہے لیکن معصوم لڑکیوں کی اتنی بھی اہمیت نہیں ہوتی، بہت سستے داموں میں بک جاتی ہیں، بیٹیاں بہنیں اسی طرح قربان ہو جاتی ہیں، اپنے بھائیوں پر، باپ پر، لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

اس ظلم کا سلسلہ بہت طویل ہے۔ سزا ملنی چاہیے۔ قانون رشتوں کا پابند نہیں۔ جرم کو آئین کی نظر سے دیکھا جائے تو پھر کوئی بھی مجرم بچ نہیں سکتا۔ ورنہ پھر یہ ظلم کے سلسلے کبھی نہیں رکیں گے۔ اختیار رشتوں میں قید ہے، عورت کا اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں۔ چھوٹی سی زندگی اور لامتناہی جبر کا نظام بہت چل چکا ہے۔ ہمارا قانون ہمارے ساتھ ہے۔ ہم اپنے قانون کی عزت کرتے ہیں لیکن اگر تھوڑی سی عزت معصوم بچیوں کے مقدر میں شامل ہو جائے تو بہت بے گناہ، بے قصور لڑکیاں بے موت مرنے سے بچ جائیں گی۔

گھر کا تقدس اپنی جگہ محترم لیکن قانون اور آئین جب بنائے جاتے ہیں تو ان کا مقصد بھی گھر اور معاشرے کا سکون اور امن برقرار رکھنا ہوتا ہے لیکن ہمارا معاشرہ ابھی تک ملکی قانون سے زیادہ معاشرتی قانون اور رسومات میں قید ہے۔ اکثر دیہات میں چھوٹے پڑے مسائل علاقے کا وڈیرا حل کرتا ہے اور غریب لوگ لاکھوں، کروڑوں روپوں کے ہرجانے بھی بھرتے ہیں اور معصوم بچوں کا لین دین بھی ہوتا ہے۔ لوگوں نے ریاست کے اندر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنائی ہوئی ہیں، قانون کے برابر چھوٹی سطح پر مقامی عدالتوں کی طرح کام ہو رہا ہے، کسی وجہ سے لوگوں کا حکومت اور قانون پر سے اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اور جرائم بھی بڑھ رہے ہیں، خاص طور پر ایسے جرائم جن کا تعلق خواتین سے ہوتا ہے۔ کیونکہ جرم کرنے والے کو اپنی جان بچانے کے سارے طریقے آتے ہیں۔ قتل کے بدلے میں بیٹی یا بہن دے کر جان بچائی جا سکتی ہے۔

زمین پر جھگڑا ہو تب بھی معصوم بچی کے دینے سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔ اگر مرد پسند کی شادی کر لے اور کاروکاری کے مسئلے میں جرگہ ہو تو بھی خاندان کی کسی بھی بیٹی کا رشتہ دے کر معاملہ ختم کرنا بہت آسان ہے۔ کیا مضائقہ ہے ایک لڑکی کی زندگی جہنم بن جائے، مرد کی زندگی تو بچ جاتی ہے۔ لڑکی تو ایک کھلونا ہے جس کا مقدر ہی ٹوٹنا ہے، چاہے ماں باپ کے گھر رہے چاہے سسرال میں رہے۔ انجام بالآخر وہی ہوتا ہے، بس جب ’’چٹی‘‘ کہہ دیا تو پھر شکایت کیسی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔