ڈاک کا عالمی دن

محمد آفتاب عالم  جمعرات 9 اکتوبر 2014

ہر سال 9 اکتوبر کو ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال دنیا کے 160 سے زائد ممالک یہ عالمی دن منا رہے ہیں اور ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کی ایک خصوصی تنظیم (UPU) یونیورسل پوسٹل یونین کے ممبران میں شامل ہے اس موقع پر ڈاک ٹکٹ کا اجرا کرتا ہے۔ اس ادارے کا قیام 9 اکتوبر 1847ء کو عمل میں آیا۔ حالانکہ اس کے قیام کی جدوجہد 1863ء سے امریکا نے شروع کر دی تھی اور پہلے General Postal Union کے نام سے کام کیا جو بعد میں UPU کے نام سے اقوام متحدہ میں رجسٹرڈ ہوا۔ حالیہ 25 ویں کانگریس 10 اکتوبر 2012ء کو دوحہ (قطر) میں منعقد ہوئی۔

UPU کانگریس کا بنیادی کام ڈاک کے متعلق قانون سازی ہے۔ یہ ایگزیکٹو کونسل کے 40 ارکان اور پوسٹل اسٹڈیز کی مشاورتی کونسل کے 35 ارکان بھی نامزد کرتی ہے نیز پچھلے 5 سال کے عرصے میں ہونے والے کام سے متعلق اپنے متعلقہ اہم شعبوں کی رپورٹوں کا جائزہ بھی لیتی ہے اور اپنے نئے ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کا تقرر کرتی ہے۔ یونین کے سالانہ اخراجات اور اس کے مختلف شعبوں کی سمندر پار سرگرمیوں کا تعین کرتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی عالمی سروسز اور خدمات کے باوجود یونیورسل پوسٹل یونین کا بجٹ اقوام متحدہ کے تمام ذیلی اداروں کے بجٹ سے کم ہے۔

اقوام متحدہ کو چاہیے کہ اس کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے۔ کیونکہ جغرافیائی تبدیلی تیزی سے رونما ہو رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ممالک وجود میں آ رہے ہیں۔ جس سے ممبران اور کام دونوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس ادارے کی ترقی اور کارکردگی کی بہتری کے لیے پاکستان پہلے بھی 20 سے زائد تجاویز دے چکا ہے۔ “UPU” کی سرگرمیوں میں پاکستان کے مثبت کردار کا یہ واضح ثبوت ہے۔اب آئیں اس طرف آخر ڈاک ٹکٹ ہے کیا۔ اس ادارے کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے۔ پہلے پہلے تو یہ صرف خط پارسل وصول کرنے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی ایک رسید تھی مگر 1969ء میں ٹوکیو کانگریس نے یہ طے کیا کہ ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے جس قدر مقدار میں ڈاک وصول ہو گی اس اضافی وزن کا معاوضہ انھیں 0.50 گولڈ فرانک فی کلوگرام کے حساب سے ادا کیا جائے۔ جیسے جیسے ڈاک میں تیزی آئی ویسے ویسے طے شدہ شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس لین دین کے حسابات کو ادارہ یونیورسل پوسٹل یونین UPU دیکھ رہا ہے۔

دنیا میں جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اسی تیزی سے ہر میدان میں جدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ یہی حال کچھ ڈاک ٹکٹ جمع کرنے والوں کا ہے۔ شروع شروع میں ڈاک ٹکٹ جمع کرنا بادشاہوں اور نوابوں کا شوق تھا پھر صاحب حیثیت لوگ شامل ہوتے چلے گئے۔ اس شوق کو Reach Happy کہا جانے لگا اور اب یہ عوامی شوق ہو گیا ہے اور کروڑوں لوگوں نے اس کو کاروبار کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ میں اربوں ڈالر آمدنی کی جا رہی ہے۔ جب اس نظام کو فروغ ملا تو اشیا، خط کی ترسیل کی رسید کی حیثیت سے ہٹ کر اس کی اہمیت ضرورت عالمی ہو گئی۔ عالمی سطح پر اس کے قوانین بن گئے۔ اس کے ذریعے اکثر ممالک اپنے اپنے ملک کی معاشی، سیاسی، جغرافیائی، نظریاتی عکاسی کرتے ہیں اسی لیے ڈاک ٹکٹ کو ’’خاموش سفیر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ میں صرف اور صرف پاکستان کی مثال دے رہا ہوں۔پاکستان 14 اگست 1947ء کو آزاد ہوا۔ اس موقع پر پاکستان میں جو ڈاک ٹکٹ چلایا گیا اس میں بادشاہ کنگ جارج کی تصویر پر پاکستان چھاپا گیا۔

گویا ہم نے پاکستان کی آزادی برطانوی سامراج سے حاصل کی۔ طویل جدوجہد کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ہم نے یہ ملک حاصل کر لیا آپ ہمارے ملک کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ مگر ملک چلانے کی مہلت نہیں ملی۔ آپ 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے اور 11 ستمبر 1948ء کو وفات پا گئے۔ آپ نے پاکستان چلانے کے لیے قوم کو تین سنہرے اصول دیے اتحاد، تنظیم، یقین محکم۔ ان اصولوں پر چل کر ہم پاکستان میں مستقل پائیداری قائم کر سکتے ہیں۔ عوام کے حقوق مساوی عدل انصاف ہمارا پیمانہ ہونا چاہیے۔ اسی میں امن و سلامتی ہے ۔ پاکستان نے اپنا جغرافیائی حق ڈاک ٹکٹ کے ذریعے ظاہر کیا۔ ویسٹ پاکستان کے نقشے کے ساتھ چھوٹے سے ایک ٹکڑے کا سفید رنگ کے اندر دکھایا گیا اور اس میں تحریر ہے کہ یہ علاقہ جموں و کشمیر غیر تصفیہ شدہ علاقہ ہے، کافی دور ایک کنارے میں ایسٹ پاکستان کا نقشہ سمندر کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان ایک تھے۔ 1949ء میں ڈاک ٹکٹ کے ذریعے دوست ممالک کے درمیان تجارتی، عسکری معاہدے بھی ظاہر کیے جاتے تھے۔

موجودہ دور میں ساؤتھ ایشیا ایسوسی ایشن سارک ممالک پر تمام کے تمام سارک ممبر یہ ٹکٹ جاری کر رہے ہیں۔ اور ہر ملک اپنا اپنا نظریہ اپنے ملک تجارتی معاشی پالیسی ڈاک ٹکٹ کے FDC فرسٹ ڈے کور کے ذریعے عیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان نے پہلے RCD کا معاہدہ کیا جس میں ترکی، ایران، پاکستان شامل تھے۔ تینوں ممالک ہر سال RCD کے قیام کے دن پر ٹکٹ جاری کرتے تھے۔ جب یہ معاہدہ ختم ہوا تو اس موضوع پر ڈاک ٹکٹ کا اجرا بند ہو گیا اب سارک معاہدے کی صورت میں یہ ڈاک ٹکٹ جاری کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بہترین کلکشن Collection ہے جس کو جمع کرنے والے شائقین زیادہ ہیں۔ جنرل محمد ضیا الحق نے ملک میں عید میلادالنبی کے موقع پر اپنے دور حکومت میں ایک ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا جس میں روضہ رسول اور قرآن کریم کو اوپر دکھایا درمیان لکھا کہ ’’اور کہہ دو حق آیا اور باطل مٹ گیا‘‘ یعنی اس ڈاک ٹکٹ کے ذریعے پورے عالم اسلام کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے وہی سب سے اعلیٰ نظام ہے۔

اس پر ایمان کے بغیر ہم اس دنیا میں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ اللہ نے یہ دنیا اپنے احکامات کی پیروی اپنی عبادت اور اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کامل یقین رکھنے کی ہدایت کی۔ مسلمانوں اور حکمرانوں کا یہی نظریہ ہونا چاہیے۔ ہم سب صدق دل سے اللہ کی کتاب قرآن پڑھیں اس پر عمل کریں۔ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اس دنیا میں بھیجے گئے اسی وقت سے حق آ گیا اور باطل مٹ گیا اب اس دنیا میں حق قائم کرنا ہم مسلمانوں کا فرض ہے تا کہ حضورؐ کا دیدار بروز قیامت نصیب ہو۔ ڈاک ٹکٹ کی عکاسی اور بیان میں ضروری نہیں کہ سب کا موقف ایک ہو مگر جو لوگ ڈاک ٹکٹ جمع کرتے ہیں اور آرٹس سے واقف ہیں وہ بہتر سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈاک ٹکٹ کو خاموش سفیر بھی کہا جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔