بھارتی جارحیت: اقوام متحدہ نوٹس لے

ایڈیٹوریل  جمعرات 9 اکتوبر 2014
پاکستان نے ہر بار صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔  فوٹو: فائل

پاکستان نے ہر بار صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ فوٹو: فائل

لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے دس افراد شہید اور 42 زخمی، درجنوں مویشی ہلاک،70 ہزار سے زائد افراد متاثر ہوئے اور چالیس ہزار سے زائد علاقے سے نقل مکانی کر گئے جب کہ درجنوں مکان تباہ ہو گئے۔

بھارت کی اس جارحیت کے باعث عید کے دنوں میں بھی لوگ گھروں میں محصور رہے۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے اس بھارتی جارحیت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت فوری طور پر جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کرے‘ انھوں نے کہا کہ بھارتی فوج پچھلے سات روز سے کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر گولہ باری اور فائرنگ کر رہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان انتہائی صبرو تحمل اور ذمے داری سے کام لے رہا ہے۔

گزشتہ ماہ پاک بھارت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنزکے درمیان ہاٹ لائن پر رابطہ بھی ہوا اور جنگ بندی کے حوالے سے فیصلے کیے گئے تھے مگر ان پر عملدرآمد چند روز ہی برقرار رہا اور بھارت نے کسی قانون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سرحدوں پر بھارتی فوج کی جانب سے فائرنگ کا یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں اس سے قبل بھی بھارت ایسا کر کے خطے میں کشیدگی کا ماحول پیدا کرتا رہا ہے۔

پاکستان نے ہر بار صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی۔ نریندر مودی کی حکومت آنے کے بعد سرحدوں پر فائرنگ اور گولہ باری کے سلسلے میں شدت آ گئی ہے۔ کچھ مبصرین اس خدشے کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ نریندر مودی جو انتہا پسند ہندوؤں کے رہنما ہیں پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کرنے کے بجائے حالات کو کشیدہ رکھیں گے جب کہ کچھ مبصرین کا خیال تھا کہ نریندر مودی زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کے عمل پر یقین رکھتے ہیں لہٰذا برسراقتدار آنے کے بعد ان کے رویے میں تبدیلی آ جائے گی اور وہ دوطرفہ متنازعہ معاملات کو گولی کے بجائے بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سرحد کی صورت حال جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔

مودی کے رویے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ان کے نزدیک سرحدی کشیدگی کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی اور یہ معمول کی کارروائی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند روز سے بلا جواز جاری بھارتی فائرنگ‘ گولہ باری اور نریندر مودی کے غیر ذمے دارانہ بیان کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں اور بھارت اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق ہو سکتا ہے بھارتی حکومت کا خیال ہو کہ افواج پاکستان اس وقت وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہیں اور اندرونی طور پر بھی پاکستانی قوم انتشار اور افراتفری کا شکار ہے امن و امان اور معاشی صورت حال بھی بہتر نہیں اس لیے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا یہ بہترین موقع ہے اور وہ اس طرح پاکستان سے من مانے فیصلے کروا سکتا ہے۔

گزشتہ چند روز سے بھارتی حکومت اس قسم کا عندیے دے رہی ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے تیار ہی نہیں اور وہ خواہاں ہے کہ پاکستان کشمیر کا مسئلہ بھول جائے اور کسی بھی عالمی فورم پر اسے نہ اٹھائے۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں کہ بھارت کشمیر کو متنازعہ معاملہ قرار دینے کے بجائے اسے مستقل طور پر اپنا حصہ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ دنوں جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کو اٹھایا تو بھارتی حکومت نے اس پر واویلا مچانا شروع کر دیا۔

پاکستان نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر اس نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی اور جواب میں سرحدوں پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ پاکستان بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ بھارت اپنا رویہ درست اور ذمے داری کا مظاہرہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ دو ہمسایہ ایٹمی ممالک کے درمیان تصادم کی فضا پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ کے واقعات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحدوں پر جارحیت کا نوٹس لے کر بھارت کو فوری طور پر فائر بندی کے لیے کہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل سفیر مسعود احمد خان نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوجی مبصر گروپ کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایت کرے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا کہنا ہے کہ پاک فوج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہی ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ بھارتی فوج کے سربراہ نے سرحدوں پر تعینات فوجی کمانڈروں کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ جب محسوس کریں پاکستانی علاقوں پر کارروائی کر سکتے ہیں اور انھیں اعلیٰ حکام سے اجازت لینے کی ضرورت بھی نہیں۔اس سے قبل کہ بھارتی حکومت کا کوئی بھی غیر ذمے دارانہ رویہ پورے خطے کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو فوری طور پر امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔