نئے سیاسی کلچرکا فروغ

ڈاکٹر منصور نورانی  جمعـء 10 اکتوبر 2014
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

ہمارے ملک کی پارلیمانی تاریخ گواہ ہے کہ  جنرل ضیاء کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب نیا جمہوری دور شروع ہوا تو پارلیمنٹ میںصدر مملکت کے سالانہ ہر آئینی خطاب کے موقعے پر حزبِ اختلاف کی جانب سے ’’گو گو‘‘ کے زبردست نعرے لگائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلتا رہا لیکن بعدازاں سیاست میں رفتہ رفتہ شائستگی اور بردباری آتی گئی اور صدر کے خطاب کے دوران رخنہ اور خلل ڈالنے کا رجحان ختم ہوتا گیا۔خاص کر سابقہ جمہوری دور میں اُس وقت کے صدرِ مملکت  زرداری صاحب نے اپنے تما م پانچ سالہ خطاب بنا کسی ہُلڑ اور فقرہ بازی کے ماحول میں ادا فرمائے۔ یہ ایک خوش نما صحت مند تبدیلی تھی۔

تمام اختلافات کے باوجود اپوزیشن نے کوئی بدتمیزی اوربد مزگی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔لیکن اب یہ نعرہ ایک بار پھر ہماری قومی سیاست میں پوری جاذبیت کے ساتھ سرائیت کرتا جا رہا ہے۔ آج کل گو نواز گو ایک فیشن کے طور پر سارے ملک میں بولا جا رہا ہے۔اسلام آباد میں موجود دو جماعتوں کے دھرنوں سے اِس کی ابتدا ہوئی اور اب یہ سارے ملک میں رائج ہو گیا ہے۔عمران خان اور طاہر القادری اِس نئے قومی نغمے کے رائٹر اورپروموٹر ہیں جنہوں نے اپنے دھرنے کو ممکنہ بوریت سے بچانے کے لیے اِسکی شروعات کی اور اب یہ ہر جلسے ، جلوس اور سیاسی اجتماعات میں مقبول عام ہوتا جا رہا ہے۔قطع نظر اِس سے کہ اِس کے نتائج اور مضمرات آیندہ آنے والے دنوں میںکیا نکلیں گے اور یہ وزیرِ اعظم کی ذات سے نکل کر ہر مخالف سیاستداں کے خلاف بولا جانے لگے گا بلا روک ٹوک پورے شدو مد کے ساتھ جاری و ساری ہے۔

جس کی ایک مثال گزشتہ دنوں پشاور میں تحریک ِ انصاف کے اپنے ایک لیڈر کی جانب سے وہاں کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک  کے خلاف وہ پریس کانفرنس ہے جس میں ’گو نواز گو ‘کے ساتھ ساتھ ’گو خٹک گو ‘کے نعرے بھی سنائی دیے گئے۔آج صرف میاں صاحب کو یہ مشکل درپیش ہے کل ہر نئے وزیرِ اعظم کو یہ خفت اُٹھانی پڑے گی۔آنے والا کوئی بھی حکمراں اِس نعرے سے بچ نہیں پائے گا۔طاہرالقادری نے تو حسبِ عادت جوشِ خطابت میں یہاںتک ارشاد فرما ڈالا کہ تمام لوگ کرنسی نوٹوں پر یہ نعرہ تحریر کریں تاکہ ساری دنیا کو معلوم ہوجائے کہ پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے۔

مگر موصوف کو دوسرے ہی دن اپنا یہ حکم واپس لینا پڑگیا کیونکہ اسٹیٹ بینک نے ایسے کرنسی نوٹوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ طاہرالقادری کا شمار اُن جوشیلے اور شعلہ بیاں خطیبوں میں ہوتا ہے جو جذبات کی رو میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں ۔ دھرنے سے ناکام لوٹنے والے کے لیے واجب القتل قرار دینے کا فتویٰ بھی اُنھوں نے ہی جاری فرمایا تھا جس کی بعد میں اِس حکم نامہ کو مذاق کہہ کر تصحیح کردی گئی اور اِس طرح ناکام و نامراد واپس لوٹنے والے کی جاں بخشی بھی کر دی گئی ۔اب شاید وہ خود بھی باآسانی بخیر و خیریت دھرنے سے واپس لوٹنا چاہیں تو لوٹ سکتے ہیں۔

گو نواز گو ہر خاص و عام کی زباں پر اِس قدر چڑھا دیا گیا ہے کہ بات کچھ ہوتی ہے اور جواب آتا ہے گو نواز گو۔لگتا ہے آیندہ ہر امتحان میں طالبِ علم ہر سوال کا جواب گو نواز گو ہی لکھ کر آیا کریگا ۔ ممکن ہے ہمارے صوبے خیبر پختون خواہ میں تو ہر نئے پیدا ہونے والے بچے کا نام بھی گو نواز گو ہی رکھ دیا جائے گا ۔ خود نون لیگ سے وابستہ صوبہ سرحد کے سابق وزیرِ اعلیٰ  پیرصابر شاہ بھی اِس لہر میں بہک کر گو نواز گو کا نعرہ لگا بیٹھے۔ سوشل میڈیا پر تو یہ اتنا پسندیدہ نعرہ ہے کہ کچھ لوگوں نے اِسے اپنا پرو فائل پکچر ہی بنا ڈالاہے۔

خوبصورت نوجوان لڑکیوں نے تو گونواز گو لکھنے کی خواہش میں میاں صاحب کے نام کو اپنے گالوں پر ہی سجا لیا۔سوشل میڈیا سے یاد آیا کہ آج کل جتنی سیاست سوشل میڈیا پر ہو رہی ہے اُتنی تو اصل میدانِ سیاست میں بھی ہو نہیں پا رہی۔عمران خان بمشکل ہفتے میں ایک سیاسی جلسہ کر پاتے ہیں اور اُن کے چاہنے والے روزانہ فیس بک اورٹوئٹر پر خوب دل کی بھڑاس نکال رہے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی اپنے تئیں سیاستداں بنا ہوا ہے۔

عمران خان کی سیاست کی اِس کامیابی کو تو ہمیں تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ اُنھوں نے جس شخص کو بھی بُرا بھلا کہا اُن کے حامیوں نے اُسے بھی اپنا دشمن سمجھ لیا۔ چاہے وہ  رکن صوبائی اسمبلی ہو، خود اپنی پارٹی کے رکن ہوں سبھی کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا گیا۔ یا کوئی مخالف نقطہ نظر رکھنے والا صحافی ہو یاعام تبصرہ نگار ، ہر کسی کو لفافہ بردار صحافی گردانہ گیا۔ عمران خان کی طرف سے طالبان کی بھرپورحمایت کرنے اور آپریشن کی مخالفت کرنے کا قصور بھی اُن کے پرستاروں کی طرف سے درگزر اور معاف کر دیا گیا۔ اُن کی ساری خامیاں اور خرابیاں اب خوبیاں بن چکی ہیں۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی سیاست کو مُک مکا کہنے والے کی جانب سے ایم کیو ایم سے صلح جوئی کو کیا نام دیا جائے کہ اب کراچی میں دھاندلی کا شور بھی مصلحتاً ترک کردیا گیا۔

عمران خان کو دھرنوں سے نکل کر سیاسی جلسے کرتا دیکھ کر اب دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی جلسوں کا پروگرام بنا ڈالا ہے۔ اور تو اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی اپنی جماعت کو ایک بار پھر سیاست کے میدان میں اُتارنے اور آزمانے کا تہیہ کرلیا ہے۔ قوم اگلے کئی ماہ سیاسی کبڈی ، ملاکڑے اور دشنام طرازی کے بھرپور مقابلوں سے لطف اندوز ہونے والی ہے۔

اِن دھرنوں اور جلسوں سے کسی کا فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اُن سے وابستہ آرگنائزرزکا ضرور فائدہ ہو گیا ہے۔کرسیوں اور شامیانے والوں کے علاوہ بسوں اور ٹرکوں کے مالک بھی خوب استفادہ کر چکے ہیں۔ نجانے اب یہ سلسلہ کہاں جاکے رُکے گا۔تنقید برائے تنقید اور سیاست برائے سیاست کے اِس کھیل میں کسے کامیابی نصیب ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا البتہ قوم اِس صورتحال میں انتہائی تذبذب اور بے چینی کا شکار ہے۔عید سے قبل قربانی کی توقعات میں عید بھی گذر گئی۔

کوئی خوشخبری دھرنوں سے نہیں مل پائی مگر ہاں دو بچیوں کی ولادت ضرور ہو پائی ہے پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں میں۔ اِسے ہم اُن بچیوں کے والدین کے لیے خوش کُن ضرور قرار دے سکتے ہیں۔ البتہ قوم کو کب خوشی نصیب ہوتی ہے یہ کسے نہیں پتا۔ سیاسی پنڈت  شیخ رشید  بھی تاریخوں پر تاریخیں دیے جا رہے ہیں۔ اب وہ اگلے سال کی باتیں کرنے لگے ہیں ۔دیکھتے ہیں کب اُن کی پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے۔ایک نہ ایک دن تو شاید ہو ہی جائے گی اور وہ اُس دن خود کو سچا نجومی کہلوا رہے ہونگے۔

عمران خان اور طاہرالقادری نے جس نئے سیاسی طرز،کلچر اور رجحان کی بنیاد رکھی ہے اُس کا کیا انجام ہوگا۔ کہیں یہ خود اُن کے گلے نہ پڑ جائے ۔جس طرح  زرداری کی زبان گدی سے کھینچ لینے کی دھمکی کے بعد مولانا صاحب کو ردِعمل کے طور پر اپنے سے بہت کم تر اور کم عمر نوجوان کی جانب سے اُنھیں کارٹون کا لقب نوازا گیا، کیا وہ اُن کے شایانِ شان تھا۔

ہوسکتا ہے گو گو کا یہ شور اور ایک دوسرے کی ہتکِ عزت کا یہ کھیل آ ج ہمیں بہت دلکش اور بھلا معلوم ہو رہا ہو کیونکہ ٹارگٹ اور ہدف ہم نہیں ہیں کوئی دوسرا ہے لیکن اگلی باری ہماری بھی ہو سکتی ہے۔اِس لیے سیاست میں شائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے۔ نوجوان نسل ہمارا مستقبل ہے اِسے مہذب اور تعمیری سیاست کا سبق پڑھانا چاہیے۔شائستگی، بردباری اور برداشت کا درس دینا چاہیے۔ اپنے مخالفوں کو بُرا بھلاکہنے ، گالیاں دینے اور بے عزت کرنے سے کبھی کوئی انقلاب نہیں آیا کرتا۔ اس کے لیے کسی واضح انقلابی پروگرام اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔