انتظامی یونٹ عوام کی سہولت کے لیے ضروری ہیں

آصف زیدی / عامر خان  جمعـء 10 اکتوبر 2014
نئے انتظامی یونٹ اور بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے موضوع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو۔  فوٹو: ایکسپریس

نئے انتظامی یونٹ اور بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے موضوع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

ملک بھر خاص طور پر سندھ کی سیاست میں گذشتہ کافی عرصے سے بلدیاتی انتخابات اور نئے انتظامی یونٹوں کے حوالے سے بیحد سیاسی گرماگرمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

سندھ اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) کافی عرصے سے یہ مطالبہ کررہی ہے کہ فوری طورپر بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں۔ دوسری جانب نئی حلقہ بندیوں اورنئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے اختلافات نے فی الحال بلدیاتی الیکشن کا انعقاد موخر کردیا ہے کیونکہ معاملہ اب عدالت میں ہے۔ ادھر قائد متحدہ الطاف حسین کی جانب سے عوام کی سہولت کے لیے صوبہ سندھ میں نئے انتظامی یونٹ بنانے کی بات نے ہر طرف ایک ہلچل مچادی ہے۔

تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں اس نکتے سے اپنی رائے کا اظہار کررہی ہیں، کوئی اسے سندھ توڑنے کی سازش کہہ رہا ہے تو کسی کی رائے ہے کہ ایسا کوئی بھی مطالبہ پارلیمنٹ میں لایا جائے۔ آخر بات کیسے بنے گی؟بلدیاتی الیکشن کیوں نہیں ہورہیَ اور کیا بلدیاتی انتخابات کی خواہشمند جماعتوں نے اپنا کیس صحیح طرح پیش کیا ؟ اور کیا سندھ میں نئے انتظامی یونٹ بنانا صحیح ہے یا نہیں؟۔۔۔انھی سوالات کے جواب جاننے کیلیے اور مختلف سیاسی جماعتوں کا موقف عوام کے سامنے لانے کے لیے کراچی میں ایکسپریس فورم کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے اپنا موقف پیش کیا۔۔ایکسپریس فورم کی روداد نذر قارئین ہے

محمد حسین (رہنما متحدہ قومی موومنٹ، سابق صوبائی وزیر بلدیات)

کسی بھی چیز کا مطالبہ کرنے کا کوئی وقت معین نہیں، جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ معاملہ سامنے لایا جاتا ہے اور اپنا کیس ارباب اقتدار کے سامنے رکھا جاتا ہے۔بلدیاتی انتخابات اور نئے یونٹ کا ایشو صرف سندھ کے لیے نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے ہے کیونکہ ملک بھر کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، انھیں اپنے بنیادی مسائل کے حل کے لیے بھی بیحد پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتیں اتنے بڑے بڑے انتظامی یونٹوں کو صحیح طرح نہیں سنبھال پارہیں جس کی وجہ سے معاملات مزید بگڑرہے ہیں۔

یہ بات ہم ہر فورم اور ہر سطح پر بارہا کہہ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ سندھ کا جغرافیئہ تبدیل کردیا جائے بلکہ ہم تو پورے پاکستان میں نئے انتظامی یونٹ چاہتے ہیں تاکہ عوام کو تمام سہولتیں فوری ان کی دہلیز پر میسر ہوں اور ان کی آواز سننے والا ان کے درمیان ہو، کیونکہ جتنے زیادہ انتظامی یونٹ ہوں گے، عوام کو اتنی ہی زیادہ سہولتیں میسر آئیں گی۔رہنما ایم کیوایم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کچجھ عناصر نئے انتظامی یونٹ کی بات کو سندھ توڑنے سے تعبیر کررہے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو مغلوں سے بھی پہلے سندھ میں 300 سے زائد راجواڑے تھے، پھر انگریزوں نے انتظامی یونٹ بنائے لیکن سندھ کا جغرافیہ، ثقافت، اور زبان تبدیل نہیں ہوئی۔ ہم کہتے ہیں کہ ملک مین انتظامی سطح پر 15, 20 نئے انتظامی یونٹ بنادیں ، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے سینیٹ، قومی اسمبلی، سندھ اسمبلی سمیت تمام فورمز پر یہ ایشو اٹھائے ہیں لیکن عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے ایسے معاملات کو عوام کے سامنے بھی پیش کیا جاتا ہے۔

اسمبلیوں جیسے فورم پر معاملات کو لانے سے قبل آپ کو صحیح وقت کا نتظار کرنا ہوتا ہے، اکثریت کا خیال کرنا ہوتا ہے کیونکہ اب اگر کوئی جماعت نئے انتظامی یونٹ نہیں چاہتی تو ایم کیوایم تنہا اسمبلی سے اس حوالے سے قانون سازی نہیں کرسکتی۔ رہنما متحدہ کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز یہی ہے کہ انھوں نے اپنے انتظامی سسٹم کو عوامی امنگوں کے مطابق ڈھالا ہے۔ ہمارے ملک میں افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو پارٹی اکثریت میں آتی ہے اور حکومت بناتی ہے وہ صرف اپنے ووٹروں کے حقوق کا خیال کرتی ہے۔

ہم موجودہ نظام کی تعریف اس طرح کرسکتے ہیں کہ democracy is the dictatorship of majority۔ ہمارے ملک مین اگر کسی کی پارٹی کی ایوان میں اکثریت نہیں ہے تو وہ کچھ نہیں کرسکتی جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی کے ہر رکن کی رائے کا احترام کیا جائے۔ محمد حسین نے کہا کہ یہ انتہائی غلط تاثر ہے کہ ہم نے یعنی ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا معاملہ اسمبلی میں نہیں اٹھایا، اسمبلی کے ریکارڈپر ایسی بہت سی تحاریک اور قراردادیں موجود ہیں۔اس معاملے پر ایم کیو ایم سے زیادہ کسی جماعت نے آواز نہیں اٹھائی۔ ہمارا تو واضح موقف ہے کہ بلدیاتی نظام کے بغیر حکومت مکمل نہیں۔

وفاقی سطح سے تو اختیارات کی منتقلی صوبوں کو ہوگئی لیکن صوبائی حکومت نے نچلی سطح تک یعنی بلدیاتی حکومتوں تک اختیارات منتقل نہیں کیے، یہ اقدام سپریم کورٹ کے احکام کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اب اس وقت ایڈمنسٹریٹر، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور سرکاری افسران کے ذریعے نظام حکومت چلایا جارہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ بلدیاتی ادارے عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے چلائے جائیں۔ بلوچستان نے تو آسانی سے بلدیاتی الیکشن کرادیے  ہیں، لیکن باقی صوبے اس حوالے سے انکاری ہیں۔ سپریم کورٹ جب ہر ایشوپر ازخود نوٹس لے لیتی ہے تواسے اس معاملے پر بھی سوموٹو ایکشن لینا چاہیے۔

محمد حسین نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن سے قبل مردم شماری کا فیصلہ کریں گی اور پھر حلقہ بندیوں کی طرح مردم شماری بھی متنازع ہوجائے گی جس کے سبب بلدیاتی الیکشن کا انعقاد مزید التوا کا شکار ہوجائے گا۔ امن و امان کی بنیاد پر بلدیاتی الیکشن نہ کرانا سمجھ سے بالا تر ہے، بلوچستان نے تو فوری بلدیاتی انتخابات کرادیے، ضمنی الیکشن بھی ہوجاتے ہیں تو بلدیاتی انتخابات میں کیا مضائقہ ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ ابھی پرانی حلقہ بندیوں کے تحت بلدیاتی الیکشن کرادیے جائیں، پھر ان کی مدت کے دوران نئی حلقہ بندیاں بھی ہوجائیں اور مردم شماری بھی، اس کے بعد آئندہ بلدیاتی انتخابات نئی حلقہ بندیوں کے تحت ہوجائیں۔

سینیٹرسعید غنی (رہنما پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین)

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبوں کا مطالبہ ایم کیو ایم کا حق ہے لیکن اس کی مخالفت کرنا پیپلز پارٹی کا اپنا حق ہے ، ہم سب کی رائے کا احترام کرتے ہیں ، پنجاب میں سرائیکی صوبے اور بہاولپور صوبے پر سب کا اتفاق رائے ہے، ہزارہ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی جو جماعتیں کر رہی ہیں ، وہ ان کی رائے ہے، سندھ میں جو لوگ نئے صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں ،اگر مطالبہ کرنے والوں کے علاوہ دیگر جماعتیں اور عوام نہیں چاہتے تو نئے صوبے کس طرح قائم کیے جا سکتے ہیں۔

ایم کیو ایم کبھی مطالبہ کرتی ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتی ہے ، ایم کیو ایم سمجھتی ہے کہ اگر نیا صوبہ بننا چاہئے تو وہ اس مسئلے کو متعلقہ فورم پر لے جائے تاکہ اس پر بحث کرکے اس کا حل تلاش کیا جا سکے، 2008ء سے 2013ء تک وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی، ہم پر تنقید کی گئی لیکن ہم نے اکثریت کی بنیاد پر نہیں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر فیصلے کیے، پیپلز پارٹی کی کوشش ہوتی ہے کہ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر فیصلے کیے جائیں ، ملک بہت سے مسائل کا شکار ہے، متنازع مسائل کو اس وقت نہ چھیڑا جائے، ایم کیو ایم ذمہ دار جماعت ہے، اسی لیے ہم امید کرتے ہیں کہ ایسے ایشوز پر سیاست نہ کی جائے، جس سے رنجش یا اختلافات پیدا ہوں۔

سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں ضلع یا ڈویژن انتظامی یونٹس ہی ہیں، اگر ان کو با اختیار بنانا ہے تو بات چیت کی جا سکتی ہے، اردو بولنے والے کو وزیر اعلیٰ بننا چاہیے، یہ ایم کیو ایم کی جائز بات ہے، وزیر اعلیٰ بننے کا معاملہ نمبر گیم ہوتا ہے، جو جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل کرتی ہے ، یہ اس کی مرضی ہوتی ہے کہ کس قومیت سے تعلق رکھنے والے اپنے رہنما کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنائے۔ 1990ء ، 1997ء اور 2002ء میں سندھ میں جو حکومتیں بنیں ، ان حکومتی اتحاد میں ایم کیوایم شامل تھی اور پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی۔

ایم کیو ایم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت ایم کیو ایم نے اپنا وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بنایا ، انھوں نے لیاقت جتوئی ، جام صادق ، مظفر شاہ ، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم کی حمایت کیوں کی، 1988ء ، 1993ء، 2008 ء اور 2013ء میں پیپلز پارٹی اکثریت میں آئی اور سندھ میں ہم نے اپنا وزیر اعلیٰ منتخب کیا ، بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سعید غنی نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہے ، جب ہم نے حلقہ بندیاں کیں اور بلدیاتی ایکٹ منظور کیا تو اس معاملے پر ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔

بلدیاتی حلقہ بندیاں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دی گئیں اور سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ حلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کرے گا، حلقہ بندیوں میں کوئی بد دیانتی نہیں کی گئی،حلقہ بندی میں آبادی ، رقبہ اور دیگر معاملات کو سامنے رکھنا  پڑتا ہے، سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں کے لیے الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ جلد سے جلد حلقہ بندیاں کریں، معاملات طے ہوتے ہی جلد از جلد سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرا دیے جائیں گے ۔

شاہ محمد شاہ (رہنما مسلم لیگ ن سندھ)

ہماری رائے ہے کہ سندھ میں ہم اردو بولنے والے سندھی اور سندھی بولنے والے سندھی ایک ہیں، میں الطاف حسین بھائی سے اپیل کرتا ہوں کہ ملک اس وقت نازک صورتحال سے گزررہا ہے، ایسے وقت میں اس قسم کی باتیں نہ کی جائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں نئے انتظامی یونٹوں کی بات بے وقت کی راگنی ہے۔ جمہوریت میں اظہار رائے کا سب کو حق ہے لیکن نئے انتظامی یونٹوں کے لیے آئینی راستہ اسمبلی ہے، ایم کیو ایم وہاں جائے اور ساری جماعتوں کو اپنے موقف پر قائل کرے۔اس وقت ایسی باتیں کیا اس بات کی کوشش ہے کہ تیسری قوت آجائے۔

ہم سب وفاقی اکائیاں ہیں، اس وقت پاکستان نئے انتظامی یونٹوں کی باتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے کہا کہ  ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی بنیاد بلدیاتی الیکشن ہیں اور اختیارات کی تقسیم جمہوریت کا حسن ہے، ہم بلدیاتی الیکشن کے ذریعے اختیارات کی تقسیم کے حق میں ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں پسند و ناپسند کی بنیاد پر حلقے بنائے گئے، میرے اپنے گائوں کے حلقے بھی تقسیم کیے گئے۔ سندھ کی طرح پنجاب میں بھی حلقہ بندیوں کا تنازع ہے، اب الیکشن کمیشن جو کام کررہا ہے وہ عدالتوں کے احکام کے تحت کررہا ہے، جب حلقہ بندیوں کے حوالے سے تنازعات طے ہوجائیں گے تو بلدیاتی الیکشن ضرور ہوں گے۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ضیاء الحق نے بھی 16 صوبے بنانے کی بات کی تھی، ڈاکٹر طاہرالقادری کے منشور میں بھی 35 صوبے ہیں، جمہوریت میں اپنی رائے کا اظہار کرنا سب کا حق ہے، کوئی بھی جماعت کسی بھی قسم کا مطالبہ کرسکتی ہے لیکن کوئی بھی فیصلہ قانون سازی کے ذریعے ہی سامنے لایا جاسکتا ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما نے ایک سوال پر کہا کہ ایم کیو ایم سندھ میں پیپلزپارٹی کی اتحادی ہے جبکہ  ہمارا گورنر ان کے ساتھ ہے۔ وقت آنے پر مسلم لیگ ن کی حکومت بلدیاتی الیکشن سمیت تمام معاملات کو آگے لے کر جائے گی۔ تاریخی حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قیام پاکستان سے بھی بہت عرصے قبل سندھ  ایک مملکت کی حیثیت سے رہا، کشمیری پنڈتوں کے دور میں سندھ مملکت اور کراچی اس کی بندرگاہ تھا جس کا نام دیبل تھا۔ محمد بن قاسم کے دور میں بھی سندھ کا مملکت کی حیثیت برقرار رہی ، انگریزوں نے آکر انتظامی یونٹ بنائے۔

حافظ نعیم الرحمن (امیر جماعت اسلامی کراچی)

اگر پاکستان کے آئین میں گنجائش موجود ہے تو نئے انتظامی یونٹس کے قیام پر متعلقہ فورم پر بات چیت کی جائے، 40 دنوں سے جو پارٹیاں دھرنا دے کر بیٹھی ہوئی ہیں ، ان کا معاملہ حکومت کے ساتھ ہے، ایک طرف مصالحت کار بھی ہیں ، اب ظاہر بات ہے کہ ایم کیو ایم کو بھی میڈیا پر آنے کے لیے کوئی ایشو چاہیے ،صوبوں کا معاملہ ہو یا بلدیاتی مسئلہ ایم کیو ایم یو ٹرن لیتی رہتی ہے۔ 1973 ء کا آئین متفقہ طور پر بنایا گیا۔ اس میں ترامیم بھی متفقہ طور پر کی گئیں، اگر کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے تو اس پر اتفاق رائے سے بات ہونی چاہیے ،ایم کیو ایم کی جانب سے نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ اٹھانا بے وقت مسئلہ چھیڑنے کے مترادف ہے۔

ملک میں افواہیں گرم ہیں کہ مارشل لاء آ رہا ہے اور ایک جانب لگانے والے تردید کرتے ہیں ،اس وقت متنازعہ مسائل پر سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت کا حصہ ہے اور سندھ میں ان کا گورنر موجود ہے، اگر کوئی مسئلہ یا مطالبہ ہے تو ایم کیو ایم اس مسئلے پر اسمبلیوں میں آواز بلند کرے، انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم ایک طرف کوٹہ سسٹم کی مخالفت کرتی ہے ،دوسری جانب وہ حکومت میں شامل ہے اور اسی کوٹہ سسٹم کے تحت ملازمتیں بھی مانگتی ہے، انھوں نے کہا کہ سیاسی حکومتیں بلدیاتی انتخابات اس لیے نہیں کراتی کیونکہ وہ اختیارات عوام کو منتقل نہیں کرنا چاہتیں۔

ڈکٹیٹر اس لیے بلدیاتی انتخابات کراتے ہیں کیونکہ وہ ان انتخابات کے ذریعے ملک میں نئی سیاسی قیادت متعارف کرانا چاہتے ہیں ، انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف کا بلدیاتی نظام اچھا ہے ،اس میں ترامیم کرکے اس نظام کو رائج رکھا جا سکتا تھا لیکن سیاسی حکومتوں نے اپنے مفادات کی خاطر اس نظام کو ختم کر دیا، انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اگر سنجیدہ ہو جائیں تو وہ بلدیاتی انتخابات کرا سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ جب تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوں گے عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ فوراً حلقہ بندیاں کرے تاکہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہو سکیں، انھوں نے کہا کہ کراچی میں انفرا اسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، ایم کیو ایم دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اس شہر کی اسٹیک ہولڈر جماعت ہے ، میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ سندھ حکومت کا حصہ ہیں ، اس معاملے پر آواز کیوں نہیں اٹھاتے ،انھوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام ایسا ہونا چاہیے ، جس میں تمام میٹرو پولیٹن حکومتوں کو اختیارات حاصل ہوں اور وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کر سکیں ،انھوں نے کہاکہ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اچھا بلدیاتی نظام قائم کیا ہے ،اگر بلدیاتی انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی کو وہاں کامیابی حاصل ہو گی ۔

خرم شیر زمان (رہنما پاکستان تحریک انصاف)

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما خرم شیر زمان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ملک میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام کی حمایت کرتی ہے ، تاہم ہم جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ نئے یونٹس انتظامی سطح پر بنائے جائیں، نئے انتظامی یونٹس کی لسانی سطح پر قیام کی مخالفت کریں گے، انتظامی یونٹس کا قیام اگر ضروری ہے تو تمام جماعتوں کو اس حوالے سے اعتماد میں لے کر متعلقہ فورم پر مشاورت کی جائے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتے ہیں، ساڑھے 6 سال سے اس ایشو پر سیاست کی جا رہی ہے ،بیان بازی کی حد تک تو بلدیاتی انتخابات کا معاملہ زیر بحث آتا ہے لیکن عملی طور پر اس کے  لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے ، اسلام آباد میں تحریک انصاف کے40 روزہ دھرنے سے عوام میں بیداری کی لہر پیدا ہو گئی ہے اور تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہو گئی ہیں کہ عام انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے اصلاحات کی جائیں۔

انھوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے ہم نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات بائیو میٹرک سسٹم کے تحت کرائے جائیں تاکہ شفاف طریقے سے عوام اپنی مرضی کے مطابق اپنے امیدواروں کو منتخب کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں اور نہ ہی وزیر اعظم کے استعفیٰ کے  بغیر الیکشن 2013ء کا آڈٹ ہوسکتا ہے، انھوں نے کہا کہ ملک کو اس وقت مختلف مسائل کا سامنا ہے، عمران خان نے گذشتہ روز کراچی میں جلسہ کے دوران متنازع تقریر نہیں کی، ہمیں کراچی میں انتخابی دھاندلیوں پر شدید اعتراضات ہیں، عمران خان متنازع تقریر کرکے ایک نیا ایشوکھڑا نہیں کرنا چاہتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے ووٹرز پر امن ہیں ، ہماری تحریک بھی پر امن ہے ، اسی لیے ہم ملک میں شفاف انتخابات کے لیے تحریک چلا رہے ہیں ، کراچی کے ایشو پر بعد میں بات کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آج کے پی کے میں بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعے انتخابات کرانے کا اعلان کرے، وہاں کی صوبائی حکومت انتخابات کے لیے تیا رہے، انھوں نے کہا کہ سندھ میں بھی مقامی حکومتوں کا نظام مربوط ہونا چاہیے اور جلد بلدیاتی انتخابات ہونے چاہیں تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکیں، انھوں نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔