(پاکستان ایک نظر میں) - داعش آ نہیں رہی داعش آ چکی ہے

جاہد احمد  اتوار 12 اکتوبر 2014
عراق میں داعش اُسی وقت مضبوط ہوئی جب ملک میں حکومت کمزور ہوئی اور خانہ جنگی نے سر اُٹھایا۔ پاکستان میں بھی حالات کچھ مختلف نظر نہیں آرہے۔ مظاہرین حکومت گرانے پر تلے ہیں جبکہ عوام ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہوچکی ہے۔ فوٹو: فائل

عراق میں داعش اُسی وقت مضبوط ہوئی جب ملک میں حکومت کمزور ہوئی اور خانہ جنگی نے سر اُٹھایا۔ پاکستان میں بھی حالات کچھ مختلف نظر نہیں آرہے۔ مظاہرین حکومت گرانے پر تلے ہیں جبکہ عوام ایک دوسرے کے سامنے کھڑی ہوچکی ہے۔ فوٹو: فائل

بات یقیناً اتنی سیدھی نہیں کہ موجودہ نظام کو گول کر کے نیا نظام اور نیا پاکستان تخلیق کرنا ہے۔بات اتنی سادہ بھی نہیں کہ’مصورِ نیا پاکستان‘ کے برسرِاقتدار آتے ہی قومی مسائل چھو منتر ہو جائیں گے کیونکہ بات اگر اتنی ہی آسان ہوتی تو خیبر پختونخوا آج نئے پاکستان کے ماڈل کے طور پر باقی ماندہ صوبوں کے عوام کی آنکھیں چکا چوند کر رہا ہوتا۔

لیکن حقیقت اس کے عین برعکس ہے!زمینی حقائق یہ ہیں کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین الہ دین چراغ کے جن نہیں جو چٹکی بجاتے ہی تمام مسائل حل کر دیں گے۔پاکستان تیسری دنیا کا پچھڑا ہو ا ملک ہے۔ ایسا ملک جوبنیادی قسم کے مسائل میں گھرا ہے۔ ایسے مسائل جو پاکستان کو خانہ جنگی اور پر تشدد کاروائیوں کے پروان چڑھنے کے لئے انتہائی سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں! ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔۔۔

اڑھائی فیصد سالانہ کے حساب سے بے قابوہوتی آبادی، آبادی کے تناسب سے وسائل کی کمیابی،ملکی بنیادی ڈھانچوں میں سرمایہ کاری کا فقدان، معیاری تعلیم کی غیرمناسب و ناکافی سہولیات، بے روزگاری، نوجوانوں کی پرتشدد نظریاتی تربیت،  فرسودہ تعلیمی نصاب،  بدحال معیشت،  دہشتگردی،  فرقہ واریت، تاریخی اعتبار سے متنوع اقوام کی موجودگی، نسلی تعصب، صحت کی ناقص سہولیات، خوراک و پانی کی کمی، وبائی امراض کا پھیلاؤ، عالمی سیاست و تعلقات میں کمترمقام اور محدود سوچ کی حامل شخصیت پرست و تماش بین بکھری قوم اس سازگار ماحول کے خاص خاص عوامل ہیں!ایسے ماحول میں تبدیلی، نظام، حقوق اور آزادی کے نام پر ذاتی مفادات کی سیاست،شخصی نفرت کا ابھار، جوشِ خطابت، انارکی ، انتشار، تشدد اور خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا کرنا شعور و عقل کے منافی اصولوں پر دلیل ہے۔

اس طریقِ سیاست کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا تو عمران خان پاکستان کے بنیادی حقائق سے مکمل نابلد جبکہ اس طرزِ سیاست کے نتائج کو سمجھنے سے بالکل پیدل ہیں اور تمام اقدامات محض احمقانہ اور نیک نیتی کے زمرے میں اٹھاتے چلے جا رہے ہیں یا پھر سفاکانہ حد تک جانتے بوجھتے ہوئے انہی بنیادی حقائق و عوامل کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بھرپور طریقہ سے استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔حالات و واقعات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو موخرالذکر وجہ ازحد درست معلوم ہوتی ہے۔

انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف کی سیاسی کارکردگی پر نگاہ دوڑائیں تو اس جماعت نے پوری شدت سے طالبان بھائیوں کے سیاسی بازو ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا ہے۔ اسلام آباد میں ریاست پر چڑھ دوڑنے کا مظاہرہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ غیر آئینی طریقہ سے حکومت کا واقعتا کمزور ہونا یا کمزوری کا تاثر ابھارا جانا بھی کسی صورت باعثِ افتخار فعل نہیں۔ پاکستان کے معروضی و معاشرتی حقائق کے پیش نظر ایسے حالات پاکستان کودھیرے دھیرے تصادم کی جانب لے جانے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

ملک بھر میں ایسے گروہ کثرت سے موجود ہیں جو پاکستان کی اپنے نظریے اور سوچ کی بنیاد پرازسرنو تعمیر کرنے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں اور جمہوری نظام کو مذہب سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ ہر ایسے گروہ کی جیب میں ایک نئے پاکستان کا نقشہ اور اپنے نظریے کی تکمیل کی خاطرمن میں کچھ کر گزرنے کی تمنا دیے کی مانند جل رہی ہے۔ شدت پسندی سے جڑے بین الاقوامی معاملات اور عراق و شام کی صورتحال ہر ذی شعور پاکستانی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ عراق اور شام میں فرقہ واریت اور سیاسی عمل کی ناپختگی اور حکومت کی کمزوری نے خانہ جنگی کو ہوا دی اور فرقہ پرست گروہ داعش کو موقع فراہم کیا کہ یہ عراق اور شام کے علاقوں میں قبضہ کر کے اپنے نظریہ پر اسلامی خلافت کا قیام کرے۔

معاملات خرابی کی طرف مائل ہوں تو مذہبی و فرقہ پرست عناصر افواج میں بھی شکست و ریخت کا سبب بنتے ہیں۔ عراقی افواج بھی اسی ہیجان کا شکار ہوئیں جہاں فرقہ پرستی عراقی قومیت پر حاوی ہوئی اور کئی محاذ پرعراقی افواج چند سو لڑاکوں کا مقابلہ کرنے سے بھی قاصر رہیں یا محاذ سے پیچھے ہٹ گئیں۔ اس معاملے پر بھی پاکستان کے حالات قدرے مختلف نہیں۔ ماضی قریب و بعید میں سیکیورٹی اداروں پر داغی گئی متعدد دہشت گرد کاروائیوں میں اندرونی ہاتھوں کے ملوث ہونے کے اشارے ملتے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاکستانی طالبان نے داعش کی حمایت کا علان کیا تھا جو یقیناً ہم سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے اور ہمیں حالات کو قابو کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تو خان صاحب توجہ فرمائیے۔ ایسے بیانات سے معلوم ہورہا ہے کہ داعش آ نہیں رہی، داعش آ چکی ہے!! لیکن زیادہ گھمبیر صورت یہ ہو سکتی ہے کہ’ مصورِ نیا پاکستان‘ آنے والے دنوں میں طالبان کی طرح خیبرپختونخوا میں داعش کے بھی باقاعدہ دفاتر کھولنے کا مطالبہ پیش کر دیں! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مرتبہ مطالبہ منوانے کی خاطر دھرنا ورنا بھی دیا جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

جاہد احمد

جاہد احمد

جاہد احمد ایک لکھاری، ادیب و صحافی ہیں۔ اردو مجلے ماہنامہ "بیاض" کے شریک ایڈیٹربھی ہیں۔ ان سے رابطہ [email protected] پرکیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔