اس کا دل زندہ رہا، وہ محبت کا پیغام دیتی رہی اور فاتح عالم بن گئی

سید بابر علی  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
پاکستان کی شان ملالہ یوسف زئی اس سے قبل بھی کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کرچکی ہے۔   فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی شان ملالہ یوسف زئی اس سے قبل بھی کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کرچکی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ملالہ یوسف زئی پاکستان کی ایک ایسی بہادر بیٹی اور قابل قدر سرمایہ ہے، جس نے اس وقت دنیا کے نقشے پر پاکستان کا مثبت پہلو اجاگر کیا جب بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دیا جا رہا تھا۔ شیشے جیسی اس نازک بچی پر سنگ باری کی گئی، مگر اس نے ہمت نہیں ہاری، وہ زندہ رہی، اس کا دل زندہ رہا، وہ محبت کا پیغام دیتی رہی اور فاتح امن بن گئی۔

گذشتہ روز ’’نوبیل امن انعام‘‘ حاصل کرکے ملالہ نے نہ صرف پاکستان کا نام روشن اور پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا بل کہ اس نے وطن کے حالات پر افسردہ پاکستانیوں کے دل خوشی سے بھردیے۔ پاکستان کی پہچان بن جانے والی یہ بچی عزم وحوصلے کی ایک روشن مثال ہے۔ اس بین الاقوامی ایوارڈ کے لیے دنیا بھر سے 278 امیدواروں کو نام زد کیا گیا جن میں ’پاپ فرانسس‘،’جولین اسانج‘،’ٹونی بلئیر‘ اور ’ایڈورڈ سنوڈین‘ جیسی قد آور شخصیات بھی شامل تھیں۔

یاد رہے گذشتہ سال بھی ملالہ کو اس ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا تھا۔ نارویجین نوبیل کمیٹی کی جیوری نے 2014 کا ’’نوبیل امن انعام‘‘ بچوں کے حقوق اور اُن کی تعلیم کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دینے پر پاکستان کی بہادر بیٹی ملالہ یوسف زئی اور بھارت میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم سماجی راہ نما کیلاش ستھیارتھی کو مشترکہ طور پر دیا ہے۔

پاکستان کی شان ملالہ یوسف زئی اس سے قبل بھی کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کرچکی ہے۔ گذشتہ ماہ ہی نیشنل کانسٹی ٹیوشن سینٹر، فلاڈلفیا کی جانب سے فخرِ پاکستان ملالہ یوسف زئی کو چھبیسویں ’’لبرٹی میڈل‘‘ کے لیے نام زد کیا گیا ہے۔ ملالہ دیگر کئی اعزازات کی طر ح ’’لبرٹی میڈل ‘‘ حاصل کرنے والی کم عمرترین فرد اور پاکستانی ہے۔ پاکستان کی اس عظیم بیٹی کو یہ ایواراڈ 21 اکتوبر 2014 کو ایک عظیم الشان تقریب میں دیا جائے گا۔

ملالہ دنیا بھر میں تعلیم کے موضوع پر ایک وکیل کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ وہ گلوبل ایجوکیشن کے موضوع پر اقوام متحدہ کی نمائندہ خصوصی کے طور پر ایک ایسے مقصد پر کام کر رہی ہیں جس کا ہدف دنیا بھر میں بچوں کے لیے پرائمری تعلیم کے حق کا حصول ہے۔

نیشنل کانسٹی ٹیوشن سینٹر کے چئیرمین جیب بْش کا کہنا ہے کہ ’’زبردستی اور جبر سے آزادی اور برابری کے لیے ملالہ کی جنگ ان میں ایک جذبے والی اور اپنے ہدف کے بارے میں قطعی نقطۂ نظر رکھنے والی لیڈر کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک ایسی لیڈر جو عمر کی حد سے بے نیاز اصلاحات کے لیے ہر ممکن تحریک کو ابھارنے کی طاقت رکھتی ہے۔‘‘

تین جنوری 2009 کو بی بی سی اردو کے بلاگ کی زینت بننے والے الفاظ نہیں جانتے تھے کہ وادی سوات کی ’’گل مکئی‘‘ نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ ’’گل مکئی‘‘ کے فرضی نام سے ڈائری لکھنے والی کم عمر، لیکن پْرعزم وبلند حوصلہ ملالہ یوسف زئی نے ان لوگوں کے خلاف قلم کی طاقت استعمال کرنا شروع کی جو دہشت و بربریت کی علامت بن چکے تھے۔

لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ بننے والی ہر شے کو ختم کرنے کا عزم لیے اس بہادر لڑکی نے باقاعدگی سے اپنی تحریروں میں تعلیم دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا شروع کردیا۔ ملالہ کی ڈائری نے دنیا کو اس سنگین صورت حال سے صحیح معنوں میں آگاہ کیا جس سے سوات سمیت پاکستان کے شمالی علاقوں کے عوام دوچار تھے، کیوں کہ یہ میڈیا کی رپورٹ نہیں، ایک معصوم اور حالات سے متاثرہ بچی کے سچے جذبات اور کھرے الفاظ تھے۔

جلد ہی ملالہ اپنی تحریر سے ملکی اور غیرملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملالہ کی زندگی کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوگیا۔

اکتوبر 2011 میں جنوبی افریقا کے آرچ بشپ ’’Desmond Tutu‘‘ نے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈچ تنظیم ’’کڈز رائٹس فائونڈیشن‘‘ کے ’’انٹر نیشنل چلڈرنز پیس پرائز‘‘ کے لیے ملالہ کا نام تجویز کیا۔ ملالہ اس ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی۔

دسمبر2011 میں ملالہ کی بین الاقوامی سطح پر شہرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب اسے اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ’’نیشنل یوتھ پیس پرائز‘‘ دیا۔ وزیراعظم نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سوات کے ایک سیکنڈری اسکول کا نام اس کے نام پر رکھنے کا اعلان کیا، جب کہ ملالہ کی درخواست پر وزیراعظم نے ’’سوات ڈگری کالج فار ویمن‘‘ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیمپس بھی قائم کرنے کی ہدایت دی۔

علم کی شمع جلانے والی ملالہ کی زندگی کا چراغ بجھانے کے لیے 9 اکتوبر 2012 کو اس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ وہ اس حملے میں شدید زخمی ہوگئی۔ اسے فوراً پشاور کے فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا۔ تین گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد ملالہ کے سر اور گردن میں لگنے والی گولیاں تو نکال لی گئیں، تاہم اس کی حالت بدستور تشویش ناک تھی۔ دو دن بعد پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں کے ایک پینل نے ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اسے برمنگھم کے ’’کوئن الزبتھ اسپتال‘‘ میں لے جایا گیا۔

ملالہ پر حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی، تمام عالمی راہ نمائوں نے اس حملے کی مذمت کر تے ہوئے ملالہ یوسف زئی سے اظہار ہم دردی کیا۔ صحت یابی کے بعد اپنے پہلے بیان میں بھی ملالہ نے علم کی شمع جلانے رکھنے کا عہد کیا۔

صحت یابی کے بعد اپنے پہلے ویڈیو بیان میں ملالہ نے پہلے انگریزی، پھر اردو اور بعد میں پشتو میں اپنا پیغام دیا، جس میں اس نے کہا، ’’میں خود کو دوبارہ بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، میں چاہتی ہوں کہ ہر ایک بچی اور ہر ایک بچہ تعلیم حاصل کرے اور ہمارے ملک بل کہ پوری دنیا میں امن ہو۔ اور اس امن کے لیے میں دوبارہ بھی خود کو قربان کردوں گی۔‘‘ ملالہ نے کہا،’’میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی، ہر بچہ تعلیم حاصل کرے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ملالہ فنڈ بنایا ہے۔

صحت یابی کے بعد ایجبیسٹن ہائی اسکول میں پہلے دن کو اپنی زندگی کا اہم ترین دن قرار دیا۔ اس موقع پر اس کا کہنا تھا،’’میری زندگی کا سب سے اچھا دن واپس اسکول جانے کا ہے۔ میرا خواب ہے کہ تمام بچے اسکول جاسکیں، میں اسکول یونیفارم پہن کر فخر محسوس کر رہی ہوں۔‘‘

گذشتہ سال ملالہ یوسف زئی کی آپ بیتی’’میں ملالہ ہوں‘‘ منظر عام پر آئی جسے کچھ حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تاہم ملالہ نے کتاب پر کیے گئے اعتراضات کی دوسری جلد میں تصحیح کرنے کا اعلان کیا۔

متعدد بین الاقوامی اعزازات حا صل کرنے والی پاکستان کی قابل فخر بیٹی ملالہ یوسف زئی کو بارہ جولائی کو اپنی سولہویں سال گرہ کے موقع پر نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شریک ہونے اور جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوچکا ہے۔ ملالہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ نے اس کی تاریخ پیدائش ’’بارہ جولائی‘‘ کو ملالہ یوسف زئی سے منسوب کردیا ہے۔ بارہ جولائی کو ’’ورلڈ ملالہ ڈے‘‘ منانے کا مقصد دنیا میں ہر بچے کے لیے تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔

شلوار قمیص میں ملبوس، پیروں میں عام سی چپل، سر پر دوپٹہ اور سفید رنگ کی شال اوڑھے ملالہ یوسف زئی نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کے اسی پوڈیم پر خطاب کیا جہاں اس سے قبل ’’فیڈل کاسترو‘‘، ’’یاسر عرفات‘‘، ’’بے نظیر بھٹو‘‘، ’’دلائی لاما‘‘، ’’باراک اوباما‘‘، ’’جارج بش‘‘، ’’نیلسن منڈیلا‘‘ اور ’’ہوگو شاویز‘‘ جیسی دنیا کی مشہور شخصیات خطاب کرچکی ہیں۔

ملالہ نے اقوام متحدہ میں کی گئی اپنی تقریر میں دنیا میں امن، علم، عدم تشدد اور برداشت کی تعلیمات کے لیے پیغمبرِاسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، مہاتما بدھ، مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا اور قائداعظم محمد علی جناح کے حوالے بھی شامل کیے تھے۔ ملالہ یوسف زئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ نیلسن منڈیلا کے بعد تقریر کرنے والی دوسری شخصیت ہیں، جنہیں اقوام متحدہ میں اتنی پذیرائی دی گئی۔

2013 میں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ملالہ یوسف زئی کو ’’انٹرنیشنل چلڈرنز پیس پرائز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ تقریب سے خطاب میں یمنی صحافی اور ایکٹیوسٹ توکل کارمان نے ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملالہ کے سر میں لگنے والی گولی وہ لمحہ تھا جب ان کے ملک نے تاریخ کا اہم سنگ میل عبور کیا تھا۔‘‘

تعلیم سے محبت اور کتابوں کی شیدائی ملالہ نے برمنگھم میں یورپ کی سب سے بڑی لائبریری کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا،’’میں آج اس عمارت میں بہت فخر محسوس کر رہی ہوں، جو لاکھوں کتابوں کا گھر ہے، جسے خواتین کے لیے بنایا گیا ہے اور اس شہر میں جو میرے خوب صورت ملک ’’پاکستان‘‘ کے بعد میرا دوسرا گھر ہے۔ انہوں نے کہا،’’کتابوں اور کتب خانوں کے بغیر کوئی شہر ایک قبرستان کی طرح ہوتا ہے۔‘‘

ملالہ کا نام ٹائم میگزین کی جانب سے جاری ہونے والی دنیا کی سو سب سے بااثر افراد کی فہرست میں بھی شامل ہوچکا ہے۔ گذشتہ سال ناروے کی پارلیمان کے حزبِ اقتدار کے ارکان نے ملالہ یوسف زئی کا نام ’’نوبیل امن انعام‘‘ کے لیے نارویجن نوبیل امن کمیٹی کو دیا تھا۔ دسمبر 2012 میں فرانس کی پارلیمان کے ڈیڑھ سو اراکین نے اس یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں ملالہ یوسف زئی کو 2013 کے نوبیل امن انعام کے لیے نام زد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پاکستان نے بھی ملالہ یوسف زئی کو ملک کے قومی امن کے اعزاز سے نوازا تھا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے دسمبر 2012 میں ملالہ یوسف زئی کو ’’دخترِ پاکستان‘‘ کا خطاب دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی تھی۔

لندن کی ایک تنظیم ’’انڈیکس‘‘ نے بھی ملالہ کوآزادیِ اظہار کے ایوارڈ ’’Doughty Street Advocacy‘‘ سے نوازا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو 2012 کا ’’بین الاقوامی ٹپیریری ایوارڈ برائے امن‘‘ دیا گیا ہے۔ اسے آئرلینڈ کا یہ اعلیٰ ایوارڈ بچوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے اور ان کے بلند حوصلے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔

دنیا بھر سے محبتیں، خراج تحسین اور اعزازات سمیٹنے والی پاکستان کی یہ بیٹی اپنی قوم کا فخر اور پہچان بن چکی ہے۔ آج جب دنیا ہمیں ہماری زمین پر خوف پھیلاتے اور خون بہاتے دہشت گردوں، منافرت کی آگ بھڑکاتے انتہاپسندوں، لوٹ مار کرتے سیاست دانوں اور بے کسوں پر ظلم ڈھاتے زورآوروں کے سیاہ چہرے دکھا کر کہتی ہے،’’یہ ہے پاکستان‘‘ تو ہم دمکتی پیشانی اور روشن آنکھوں والی ملالہ کی تصویر دکھا کر فخر سے کہہ سکتے ہیں،’’نہیں، یہ ہے پاکستان، امن کا نوبیل انعام۔‘‘

ملالہ پر بنائی جانے والی فلم ’’گُل مکئی‘‘ تکمیل کے مراحل میں

ملالہ یوسف زئی کی زندگی پر بھارتی ہدایت کار امجد خان کی فلم ’گل مکئی‘‘ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ فلم میں ملالہ یوسف زئی کا کردار بنگلادیش کی 17سالہ طالبہ فاطمہ شیخ ادا کر رہی ہیں۔ ابتدا میں سیکیوریٹی خدشات کی بنا پر اداکاری کی دنیا میں اس فلم کے ذریعے قدم رکھنے والی فاطمہ شیخ کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی، تاہم اب فاطمہ کا نام ظاہر کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے امجد خان کا کہنا ہے کہ فاطمہ شیخ کے والدین اُس کے فلم میں کام کرنے کے مخالف تھے اور وہ بہت مشکل سے راضی ہوئے، جب کہ پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف اشفاق پرویز کیانی کا کردار مشہور بھارتی اداکار اوم پوری ادا کر رہے ہیں۔ امجد خان کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’ملالہ تعلیم کے شعبے میں خود ایک تحریک ہے، میری یہ فلم ملالہ کے لیے ایک خراج عقیدت ہوگی۔‘‘

جرأت کی آواز ۔۔۔ملالئی سے ملالہ تک

ملالہ کے والدین کے مطابق ملالہ یوسف زئی کا نام افغان دوشیزہ ’’ملالئی‘‘ کے نام پر رکھا گیا۔ ملالئی پختونوں میں جرأت کی علامت مانی جاتی ہے اور ملالہ نے اپنی بہادری سے اسم بامسمیٰ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔

یہ جولائی 1880 کا واقعہ ہے۔ افغانستان میں پختونوں کا لشکر اس وقت کے کمانڈر ایوب خان کی قیادت میں برطانوی فوج کے خلاف برسرپیکار تھا۔ فضا بندوقوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سے گونج رہی تھی۔ جنگ کے دوران ایک موقع پر پختونوں کے حوصلے پست نظر آنے لگے اور عین ممکن تھا کہ وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ جاتے اور اپنی شکست تسلیم کرلیتے کہ ایک خوب صورت پختون دوشیزہ ’’ملالئی‘‘ نے میدان جنگ میں نمودار ہوکر، اپنے دوپٹے سے جھنڈا بناکر لہرایا اور یہ تاریخی ٹپہ گایا

کہ پہ میوند کے شہید نہ شوے

گرانہ لالیہ بے نگئی تہ دے ساتینہ

( میرے محبوب اگر تم آج میوند کے میدان میں شہید نہ ہوئے، تو ساری زندگی لوگ تمہیں بے غیرتی کا طعنہ دیں گے)

ملالئی کی یہ آواز جب پختون مجاہدین کے کانوں تک پہنچی، تو ان میں لڑنے کا ایک نیا جوش وجذبہ اور ولولہ پیدا ہوا اور وہ برطانوی فوج پر شیروں کی طرح ٹوٹ پڑے، جس کی وجہ سے برطانوی فوج شکست کھاکر میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوگئی۔

’’ملالئی‘‘ میومند کے قریب خیگ نامی گائوں میں ایک گڈریے کے ہاں 1861 میں پیدا ہوئی تھی۔ جنگِ میوند کے موقع پر اس کی عمر انیس سال تھی، جس جنگ کو جیتنے کا سہرا ملالئی کے سرجاتا ہے، اس میں اس کا باپ اور منگیتر بھی شریک تھے اور ان دونوں نے اس معرکے میں جام شہادت نوش کیا تھا۔ برطانوی فوج کے اس وقت کے جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم نے ملالئی کی وجہ سے شکست کھائی، اگر وہ میدانِ جنگ میں اپنا دوپٹہ نہ لہراتی اور ٹپہ نہ گاتی توہم یہ جنگ جیتنے ہی والے تھے۔

ملالئی کا مذکورہ ’’ٹپہ‘‘ اس کا نام اور کارنامہ پختونوں کی تاریخ میں جرأت کا باب اور جنگ کے خلاف مزاحمت کی ایک نئی آواز بن گیا، جس کی گونج آج بھی ’’ملالہ یوسف زئی‘‘ کی شکل میں سنائی دے رہی ہے۔

ملالہ کو ملنے والے قومی و بین الاقوامی اعزازات

–    نیشنل یوتھ پیس پرائز
–     حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ شجاعت
–     فارن پالیسی میگزین کی طرف سے ٹاپ گلوبل تھنکر کا اعزاز
–     ٹائم میگزین کی ’سال کی شخصیات‘ میں شمولیت
–     مدر ٹریسا میموریل ایوارڈ برائے سماجی انصاف
–    روم پرائز برائے امن و انسانیت پسند افعال
–    سائمن ڈی بی وائر پرائز
–     سنسرشپ کے خلاف آواز بلند کرنے کا ڈوٹی اسٹریٹ ایڈووکیسی ایوارڈ
–     فریڈ اینڈ این ایوارڈ از یو کے نیشنل یونین آف ٹیچرز
–     وائٹل وائسز گلوبل لیڈرشپ ایوارڈ
–     ٹائم میگزین کی ’سو بااثرترین شخصیات‘ کی فہرست میں شمولیت
–     پریمی انٹرنیشنل کیٹالونیا ایوارڈ
–     سالانہ ایوارڈ برائے ڈیولپمنٹ آف او ایف آئی ڈی
–     انٹرنیشنل کیمپینر آف دی ایئر، 2013ء آبزرور ایتھیکل ایوارڈز
–     ٹپیریری انٹرنیشنل پیس ایوارڈ
–     انٹرنیشنل چلڈرنز پیس پرائز، کڈز رائٹس
–     ’ ضمیر کا سفیر ایوارڈ، ایمنسٹی انٹرنیشنل
–     کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ از کلنٹن فاؤنڈیشن
–     ہارورڈ فاؤنڈیشن پیٹر گومیز ہیومینیٹیرین ایوارڈ از ہارورڈ یونی ورسٹی
–     سخاروف پرائز برائے فریڈم آف تھاٹ از یورپی پارلیمنٹ
–     یونی ورسٹی آف ایڈنبرگ کی جانب سے ماسٹرز کی اعزازی ڈگری
–     فخر برطانیہ اعزاز
–     بین الاقوامی اعزاز برائے مساوات اور عدم امتیاز
–     کینیڈا کی یونی ورسٹی آف کنگز کالج کی طرف سے ڈاکٹر آف سول لا کی اعزازی ڈگری
–      امن کا نوبیل انعام

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔