ملالہ نے امن کا نوبل انعام جیت لیا

ایڈیٹوریل  جمعـء 10 اکتوبر 2014
سوات میں شدت پسندوں نے لڑکیوں کے اسکول بند کرا دیے تھے جب کہ دیگر تعلیمی ادارے بھی بموں سے اڑائے جا رہے تھے۔
فوٹو: اے ایف پی

سوات میں شدت پسندوں نے لڑکیوں کے اسکول بند کرا دیے تھے جب کہ دیگر تعلیمی ادارے بھی بموں سے اڑائے جا رہے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

طالبان کے حملے میں شدید زخمی ہونے والی سوات کی طالبہ ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبل انعام جیت لیا ہے۔ انھیں اور بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو مشترکہ طور پر امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ ملالہ دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام جیتنے والی شخصیت ہیں۔ پاکستان کے لیے یقیناً یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وطن کی ایک بیٹی کو امن کے نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔

نوبل پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ ان کی بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد اور تمام بچوں کے لیے تعلیم کے حق کے لیے کوششوں پر دیا گیا ہے‘ پاکستان میں ملالہ سے پہلے ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس کے مضمون میں ان کی غیر معمولی کارکردگی کے اعتراف میں نوبل انعام ملا تھا‘ اب یہ دوسرا نوبل انعام ہے جو ایک کمسن طالبہ کے حوالے سے پاکستان کے حصے میں آیا ہے جو سب پاکستانیوں کے لیے فخر و انبساط کی بات ہے۔ صدر پاکستان ممنون حسین‘ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف و دیگر حکومتی زعما‘ وزراء‘ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔

ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبل انعام حاصل کر کے پاکستانیوں کا سر پوری دنیا میں فخر سے بلند کر دیا ہے‘ اتنی چھوٹی عمر میں نوبل پرائز جیت لینا ایک بے مثال کارنامہ ہے‘ ملالہ یوسف زئی کو بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کرنے پر امن کا نوبل انعام دیا گیا ہے۔ بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو بھی ان کے ساتھ مشترکہ طور پر نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے‘ کیلاش ستیارتھی عمر میں ملالہ سے کہیں بڑے ہیں‘ ان کی عمر 60 برس ہے۔

یوں دیکھا جائے تو ملالہ کا اعزاز کیلاش ستیارتھی سے کہیں بڑا ہے‘ اس برس نوبل امن انعام کی دوڑ میں ریکارڈ تعداد میں 278 امید وار حصہ لے رہے تھے۔ یہ تمام شخصیات انتہائی شہرت یافتہ اور بااثر تھیں۔ ان میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن‘ سی آئی اے کے سابق منحرف افسر ایڈورڈ اسنوڈن اور امریکی خاتون فوجی سپاہی چیلسیا ماننگ شامل جیسے عالمی شہرت کے لوگ شامل تھے۔ اطلاعات کے مطابق پوپ فرانسس بھی اس دوڑ میں شامل تھے تاہم نوبل پرائز کمیٹی کے چیئرمین اور ناروے کے سابق وزیر اعظم تھورب جوئرن جاگلینڈ نے ملالہ یوسف زئی کے نام کا اعلان کیا۔ ملالہ یوسف زئی کو یہ انعام 10 دسمبر 2014ء کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں دیا جائے گا۔ نوبل پرائز کی رقم 12 لاکھ ڈالر ہے جو ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی کے درمیان برابر تقسیم ہو گی۔

سوات میں شدت پسندوں نے لڑکیوں کے اسکول بند کرا دیے تھے جب کہ دیگر تعلیمی ادارے بھی بموں سے اڑائے جا رہے تھے۔ علاقے میں ملا فضل اللہ کا ہر طرف خوف اور دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اس زمانے میں طالبان کے خوف سے اس صورتِ حال پر میڈیا میں بھی کوئی بات نہیں کر سکتا تھا۔ ان حالات میں ملالہ یوسف زئی نے کمسن ہوتے ہوئے بھی انتہائی جرأت کا مظاہرہ کیا اور مینگورہ سے ’گل مکئی‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کے لیے باقاعدگی سے ڈائری لکھنا شروع کی۔ اس ڈائری میں وہ سوات میں پیش آنے والے واقعات بیان کیا کرتی تھیں۔

اس ڈائری کو اتنی شہرت حاصل ہوئی کہ ان کی تحریریں مقامی اور بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں بھی باقاعدگی سے شایع ہونے لگیں۔ ملالہ پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں ملالہ نے کھل کر تعلیم پر پابندیوں کی بھر پور مخالفت کی تھی۔ ملالہ یوسف زئی کو اکتوبر 2012ء میں طالبان نے حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ حملے کے وقت وہ مینگورہ میں ایک اسکول وین پر اسکول سے اپنے گھر جارہی تھیں۔

اس حملے میں ملالہ یوسف زئی سمیت دو اور طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں۔ ابتدائی علاج کے بعد انھیں انگلینڈ منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ صحت یاب ہونے کے بعد اب لندن میں ہی زیرِ تعلیم ہیں۔ ان حالات کے باوجود ملالہ یوسف زئی خوفزدہ نہیں ہوئیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جرات اور حوصلے سے انھوں نے شدت پسندی کے خلاف جدوجہد شروع کی۔

اس بار انھیں عالمی سطح پر بھی حمایت حاصل ہوئی اور وہ دنیا کی نمایاں شخصیات میں شامل ہو گئیں۔ گو پاکستان میں بھی ایک طبقہ ملالہ یوسف زئی کی مخالفت کرتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت ملالہ یوسف زئی کے کاز کی حامی ہے اور انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی نے پوری دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستانی ایک پر امن قوم ہے اور اس قوم کی بچیاں بہادر ہیں اور تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور اس مقصد کے لیے طالبان کی دہشت گردی کے خلاف بھی ڈٹ جانے کی جرأت  اور حوصلہ رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔