ریسرچ لائبریری، چمکا چمکا صبح کا تارا

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
barq@email.com

[email protected]

یہ ایک اٹل اور غیر مبدل حقیقت ہے کہ اس دنیا میں اگر عشق یا جنون نہ ہوتا تو عقل و خرد اسے جہنم کا نمونہ بنا چکی ہوتی کیونکہ عقل و خرد اندیشہ ہائے دور دراز اور نفع نقصان کا حساب پہلے لگاتی ہے اور کام بعد میں کرتی ہے بلکہ اگر نہیں کرتی اور کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے میں کھو کر رہ جاتی ہے، مولائے روم کہتے ہیں

عقل گوئد کہ شش جہت است و بیروں را ہ نیست
عشق گوئد کہ راہ است و من رفتہ ام بار ہا

ترجمہ: یعنی عقل تو کہتی ہے کہ کائنات میں صرف چھ اطراف ہیں اور ان کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں لیکن عشق کا کہنا ہے کہ راستہ ہے اور میں اس پر کئی بار آیا گیا ہوں، یہ راستہ وہی ہے جو بقول علامہ حضرت ابراہیم نے اختیار کیا تھا

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

کیونکہ عقل تو آگ دیکھ رہی تھی جو جلاتی ہے لیکن عشق نے صرف یہ دیکھا کہ مجھے کودنا ہے اور بس، کہاں؟ کیوں؟ کیسے؟ کس لیے؟ عشق ایسے بے معنی سوالوں پر سر نہیں کھپاتا

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

ایسا ہی ایک واقعہ پچھلے دنوں ہم نے بچشم خود دیکھ لیا اور حسرت سے انگشت بدنداں ہو گئے کافی دیر تک تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ واقعی ایسا ہے بھی یا ہم کوئی قصہ کہانی دیکھ رہے ہیں، لیکن اپنے آپ کو ایک زور کی چٹکی کاٹی تو معلوم ہوا کہ خواب نہیں ہے جو کچھ دیکھ رہے ہیں اور جو سنا تھا وہ بھی افسانہ نہیں ہے دیوانے لوگ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں

یوں تو ہنگامے اٹھاتے نہیں دیوانے لوگ
مگر اے دوست اٹھائیں تو ٹھکانہ بھی نہیں

کیا یہ دیوانگی اور جنون نہیں ہے کہ لوگ دریا کے بہاؤ کے ساتھ تیر رہے ہیں اور ایک دیوانہ مستانہ چڑھاؤ کی طرف تیرنے لگے، انتہائی تیز رفتار بہاؤ کے خلاف چڑھاؤ کی طرف اس تیرنے والے کا نام فصیح الدین ہے جو ایک ایسے وقت میں ایک مثالی لائبریری بنا رہے ہیں بلکہ بنا چکے ہیں جب لوگ بھول چکے ہیں کہ کتاب نام کی کوئی چیز بھی دنیا میں ہوتی ہے۔

یہ تو ہمیں بہت پہلے سے معلوم تھا کہ یہ حضرت کچھ کھسکے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے کالموں میں ان کا یہ کھسکا پن صاف دکھائی دیتا ہے پر جب انھوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ ’’خامہ بجوش‘‘ کے نام سے شایع کیا تو باقاعدہ کھسکے ہوئے لوگوں میں رجسٹرڈ ہو گئے، مزے بلکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان میں کچھ کچھ حسرت موہانی کے ’’لچھن‘‘ بھی پائے جاتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ حسرت موہانی مشق سخن کے ساتھ ساتھ چکی کی مشقت کرتے تھے اور یہ حضرت پولیس کی نوکری کر رہے ہیں جو تقریباً ایک ہی بات ہے، ہم نے جب یہ سنا کہ انھوں نے پشاور جیسے ’’شہر‘‘ میں لائبریری کھول ڈالی ہے تو یقین نہیں آیا

قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشت قیس میں آنا
تعجب سے وہ بولا ’’یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں‘‘؟

جس شہر آشوب میں کتابوں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں اور اسلحے کی دکانیں دھڑا دھڑ کھل رہی ہیں بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ جس طرح ایک زمانے میں گلی گلی آنہ لائبریریاں ہوا کرتی تھیں کہیں ویسے ہی ریڑھیوں اور چھابڑیوں میں بندوقیں، پستول، کلاشنکوف اور بم بارود نہ بکنے لگیں، بم لے لو، ساتھ میں ڈیٹونیٹر مفت، کلاشنکوف کے ساتھ سو کارتوس فری، ایک کلو بارود کے ساتھ دو کلو لوہے کے چھرے اور ٹکڑے مفت، کتاب کلچر کی ماں دوسرے شہروں میں بھی مر رہی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ صرف ایشیائی ملکوں میں مر رہی ہیں ورنہ جہاں سے یہ نئی الیکٹرانک وبائیں پھوٹی ہیں وہاں کتاب کلچر ابھی تک زندہ ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ تمام سائنسی آلات اور ایجادات کی ماں بھی کتاب ہی ہے لیکن پشاور میں تو باقاعدہ ’’کالے حرف‘‘ کو کالی بندوق کی نالی سے قتل کیا جا رہا ہے اور یہ جو ہر طرف کالی نالیاں کالا دھواں اور کالی رات مسلط ہو رہی ہے۔

اس کا علاج صرف اور صرف ’’کالے حروف‘‘ ہیں کتاب ہے علم ہے روشنی ہے، جتنا جتنا اس خطے میں تشدد کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے تو یار لوگ ’’امن‘‘ کے نام پر طرح طرح کے کھیل کھیل رہے ہیں، امن تنظیمیں بنائی جا رہی ہیں جلسے ہو رہے ہیں، پروگرام ہورہے ہیں، امن سیمینار اور کانفرنسیں ہو رہی ہیں لیکن وہ سب صرف باتیں ہی باتیں ہیں تشدد اور جنگ و جدل کو صرف اور صرف ’’علم و آگہی‘‘ کی روشنی سے ختم کیا جا سکتا ہے اور علم و آگہی کا ذریعہ صرف کتاب اور کالے حروف ہیں، باچا خان نے جب عدم تشدد کا بِیڑا اٹھایا تو ان کا بنیادی زور علم کی روشنی پر تھا ان کا نظریہ یہ تھا کہ ظلم و تشدد کے اندھیروں کو صرف اور صرف علم کی روشنی سے دور کیا جا سکتا ہے۔

کیوں کہ اندھیرے میں نہ دوست دشمن کی پہچان ممکن ہوتی ہے نہ سیدھے یا غلط راستے کا انتخاب ممکن ہوتا ہے اور نہ ہی گرنے بھٹکنے اور گمراہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے، اگر انسان کی آنکھیں بہت ہی موٹی موٹی بڑی بڑی اور تیز ہوں اور روشنی نہ ہو تو بیکار ہیں، جناب فصیح الدین نے جس لائبریری کا اجراء کیا ہے وہ بنیادی طور پر ایک ریسرچ لائبریری ہے اور کمال انھوں نے یہ کیا ہے کہ ابتداء ہی سے ایک اچھی اور بے مثل ریسرچ لائبریری کے طور پر اسے کھولا ہے، ان کی دیوانگی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ جس دور میں لوگ ہر جائز و ناجائز کام کر کے اپنے آپ کو ’’بنانے‘‘ میں لگے ہوئے ہوں اس دور میں ایک شخص اپنے اثاثے حتیٰ کہ گاڑی اور بیوی کے زیور بیچ کر لائبریری بنا رہا ہو وہ بھی ایک ایسی لائبریری جس کی مثال کم از کم اس شہر میں نہیں ہے حالانکہ بڑے بڑے سرکاری اداروں میں سرکاری اخراجات پر لائبریریاں موجود ہیں لیکن فصیح الدین کی اس لائبریری کے مقابل میں وہ صرف بے ترتیب اور بے مقصد و بے فیض کتابوں کے کباڑ خانے ہیں۔

ہمیں ایک مرتبہ کچھ پرانی کتابوں کی ضرورت پڑ گئی پورے شہر کے ہر تعلیمی ادارے اور عوامی لائبریریوں کی خاک چھانی لیکن اکثر تو صرف رجسٹر میں موجود تھیں مگر نہ جانے کہاں اور کس مقام پر جا کر کھو گئیں سوچا کہ بلدیہ پشاور کی لائبریری تقسیم سے پہلے کی پرانی لائبریری ہے لیکن جا کر دیکھا تو وہ کتابیں صرف فہرستوں میں موجود تھیں لائبریری میں نہیں، بلکہ پاکستان بننے کے بعد تو سلسلہ ہی دوسرا ہو گیا ادارے کے پاس جب مالی سال کے بعد کچھ رقم بچ جاتی تھی یہ بھی پرانی بات ہے ورنہ آج کل تو بجٹ ٹھکانے کے لیے سو طریقے اور بھی مروج ہو گئے ہیں، مطالعاتی دورے، بڑے بڑے ہوٹلوں میں کانفرنسیں اور سیمینار اور اس طرح کی دوسری ’’کلواشربو‘‘ والی سرگرمیاں ۔۔۔ لیکن اگلے زمانے میں اضافی بجٹ کو لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے پر صرف کیا جاتا تھا جس کا طریقہ واردات کسی منظور نظر پبلشر یا دکاندار سے ففٹی ففٹی کر کے وہ کتابیں خریدنا ہوتا جو قطعی از کار رفتہ اور فضول ہوتی تھیں، لیکن حیرت ہے کہ فصیح الدین نے ابتداء ہی سے ایک ایسی لائبریری کی بنیاد ڈال دی ہے ۔

جس میں کتابوں کو ضرورت افادیت اور معیار کے مطابق جمع کیا گیا، خاص طور پر یونیورسٹی کے علمی موضوعات پر تحقیق کرنے والے طالبعلموں کے لیے تو یہ نعمت عظمیٰ ہے، ادب، سائنس، سیاست، مذہب، لسانیات، تاریخ، عمرانیات، نفسیات سارے ضروری علوم پر مواد یہاں دستیاب ہے، پشاور میں بہت بڑے بڑے سرمایہ دار اور اہل ثروت موجود ہیں کاش ان کی سمجھ میں یہ بات آئے کہ ادھر ادھر کے فضول کاموں پر زرکثیر صرف کرنے کے بجائے اگر اس علمی سرچشمے کی تھوڑی سی مدد کی جائے تو بوگس اداروں، اسپتالوں، تنظیموں اور خیراتی ریا کاریوں سے کہیں زیادہ مستقل نیک نامی ان کے ہاتھ آ سکتی ہے کیونکہ عطیہ دینے والوں کے نام یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں کسی اور جذبے کے لیے نہ سہی صرف اپنے نام کو زندہ جاوید بنانے کے لیے بھی یہ ’’راستہ‘‘ سب سے اچھا راستہ ہے کیونکہ یہ لائبریری نہیں روشنی کا سر چشمہ ہے اور روشنی جتنی بڑھتی ہے تشدد، جنگ و جدل، جہالت اور گمراہی کے اندھیرے اتنے ہی چھٹتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔