بھارتی پھنے خانی

نصرت جاوید  جمعـء 10 اکتوبر 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

پنجابی کا ایک محاورہ اس اناڑی سوار کی خفت پر تعجب کا اظہار کرتا ہے جو گرتا تو گدھی پر سے ہے مگر اپنا غصہ بے چارے کمہار پر نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت کی مودی سرکار پاک بھارت سرحد کے چند مخصوص مقامات پر صورتحال کو انتہائی کشیدہ رکھے ہوئے ان دنوں مجھے ایسی ہی خفت بھری کیفیت سے گزرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔

نریندر مودی نے ہندو انتہاء پسند راشٹریہ سیوک سنگھ کا ایک پرچارک بن کر اپنی پبلک لائف کا آغاز کیا تھا۔ تبلیغی رضا کاری کے بعد وہ بھارتیہ جتنا پارٹی کے ایک متحرک کارکن بن گئے اور بالآخر مکمل یکسوئی اور میکیاولی کی سکھائی خود غرض سفاکی کے ساتھ گجرات کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ کئی برسوں تک یہ عہدہ ان کے پاس رہا اور سچی بات یہ بھی ہے کہ اس عہدے کے اختیارات کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے مودی نے گجراتیوں کی روایتی کاروباری صلاحیتوں کو جدید معاشی نظام اور اس کی عالمی ضروریات کا ایک توانا حصہ بنا دیا۔ گجرات میں اپنا جلوہ دکھانے کے بعد انھوں نے پورے بھارت پر حکمرانی کے خواب دیکھنا شروع کر دیے اور بالآخر اس سال کے آغاز میں دلّی فتح کر ہی لیا۔

مودی جب اپنی انتخابی مہم چلارہے تھے تو William Dalrymple جیسے لکھاری بھی بہت تشویش کے ساتھ اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتے رہے کہ بھارت کے انتہائی پڑھے لکھے متوسط طبقات کی اکثریت ان کے اندر چھپے ایک ’’جنونی ہندو‘‘ کو پہچان کیوں نہیں پا رہی۔ اسے کیوں یہ گمان لاحق ہے کہ نئی دلّی پہنچ جانے کے بعد مودی بھی واجپائی اور ایڈوانی جیسے لوگوں کی طرح اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو تج کر Pragmatic ہو جائیں گے اور صرف گڈ گورننس اور معاشی ترقی ہی ان کا مرکزی ہدف بن جائے گی۔ بھارت کی اندرونی سیاست کا ایک پرانا طالب علم ہوتے ہوئے میں ولیم کی پریشانی کو مسلسل سراہتا رہا۔

بھارتی وزیر اعظم منتخب ہو جانے کے بعد مگر مودی نے مجھ ایسے لوگوں کو وقتی طور پر حیران کر دیا۔ اپنے عہدے کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے انھوں نے پاکستانی وزیر اعظم کو سارک ممالک کے دوسرے سربراہان کے ہمراہ بڑے اہتمام سے اپنے ہاں بلوایا۔ ہمارے ہاں حب الوطنی کے ٹھیکے دار بنے لکھاریوں اور اینکرز کے تمام تر شور و غوغا کے باوجود نواز شریف نے اس تقریب میں شامل ہو کر کافی جرأت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اور کئی دلوں میں یہ اُمید جاگ اُٹھی کہ شاید پاکستان اور بھارت کی منتخب حکومتیں ایک بار پھر اس راستے پر چلنے کو تیار ہو گئی ہیں جس کو واجپائی کے دورئہ لاہور کے ذریعے دریافت کیا گیا تھا مگر جنرل مشرف نے اسے کارگل کی طرف موڑ دیا۔

بہت دُکھ کی بات ہے کہ میرے جیسے سادہ لوح افراد کی یہ خوش فہمی بہت ہی عارضی ثابت ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپنی حلف برداری کے بعد 25 اگست 2014ء کو کئی مہینوں سے رُکے ہوئے پاک بھارت مذاکرات کے احیاء کا عندیہ دیا تھا۔ مگر اس دن سے چند ہی گھنٹے پہلے اپنی سیکریٹری خارجہ کو اسلام آباد آنے سے روک دیا۔ عذر یہ تراشا گیا کہ پاکستان کے بھارت میں متعین ہائی کمشنر نے حریت کانفرنس کے رہ نماؤں سے ملاقات کر کے معاملے کو بگاڑ دیا۔ حقیقت اگرچہ یہ تھی کہ اسلام آباد کے ’’گو نواز گو‘‘ والے دھرنوں کی وجہ سے دلّی کے روایتی بابوؤں نے طے کر لیا کہ پاکستان کا ایک اور جمہوری وزیر اعظم چل چلاؤ کے لمحات سے گزر رہا ہے۔ بہتر ہے ’’اصل حکمرانوں‘‘ کے سامنے آنے کا انتظار کر لیا جائے۔ وہ بھارتی بابو جنہوں نے 25 اگست کا دورہ منسوخ کروایا تھا جنرل مشرف کے خلاف برپا عدلیہ بحالی کی تحریک کے دوران بھی ایسی ہی رعونت بھری سوچ کا شکار رہے تھے۔ اپنے تئیں دُنیا کی آبادی کے حوالے سے ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے یہ تنخواہ دار چاکر پاکستان کے عوام میں زندہ اور توانا اس تڑپ کو سمجھ ہی نہیں سکتے جو ریاستی معاملات کو بہت جاندار بحث مباحثے کے بعد عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کی خواہش پر مبنی ہے۔

بھارت میں بھی ہماری طرح ایک تو سوچ کر اور پھر تول کر بات کرنے والے صحافی ہیں اور دوسرے ٹی وی اسکرینوں پر آ کر سیاپا فروشی کرتے ’’اسٹار اینکرز‘‘۔ سنجیدہ صحافیوں کی اکثریت نے بھارتی اخباروں میں تواتر کے ساتھ اس خدشے کا اظہار کیا کہ باہمی مذاکرات کے احیاء کے امکان کو رد کر دینے کے بعد مودی نے پاکستان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو اب Internationalize کر دے۔ گزشتہ مہینے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے ذریعے پاکستانی وزیر اعظم نے بظاہریہ کرنے کی کوشش کی اور جواباََ بھارت نے پاکستان کے ساتھ سرحد کے کچھ مقامات کو چن کر ماحول کو کشیدہ تر بنانا شروع کر دیا۔

بھارت کے مقبوضہ کشمیر سے ملحقہ چند سرحدی مقامات پر ’’اچانک‘‘ گولہ باری شروع ہو جائے تو نئی دلّی میں بیٹھے بابو اپنے عوام اور عالمی برادری کو یہ کہانی سنانا شروع کر دیتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں چند ’’تخریب کاروں‘‘ کو بھیجنے کے لیے سرحد پر مقیم پاکستانی افواج “Cover Firing” شروع کر دیتی ہیں۔ اس بار یہ کہانی مگر بک نہیں رہی۔ نام نہاد عالمی برادری کی ساری توجہ ’’داعش‘‘ پر مرکوز ہے۔ خود بھارت کے اندر سے بھی اب برملا ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ نریندر مودی پاکستان سے معاملات بگاڑتے ہوئے دراصل اپنی اس خفت کو مٹانا چاہ رہے ہیں جس کا سامنا انھیں ان دنوں کرنا پڑا تھا جب چین کے صدر بھارت کے دورے پر آئے تھے۔

بھارت کے لیے یہ دورہ دہری خوشی کی بات اس لیے بھی تھا کہ ہمارے ’’یار جس پہ جان بھی نثار ہے‘‘۔ چین کے صدر اسلام آباد میں دیئے دھرنوں کی وجہ سے اپنے حالیہ دورئہ جنوبی ایشیاء کے دوران پاکستان نہ آ سکے۔ پاکستان کے دورے سے بچے ہوئے ایک دن کو بھارت نے چینی صدر کو مودی کے آبائی شہر ان کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت میں شمولیت کے لیے بھی استعمال کر لیا۔ ان سب باتوں کے باوجود چینی صدر کے دورئہ بھارت سے کوئی Feel Good Factor مگر پیدا نہ ہو پایا۔ بھارتی وزیر اعظم بلکہ بہت زیادہ شرمندہ اس وجہ سے بھی ہوئے کہ چینی صدر کی ان کے ملک میں موجودگی کے دوران چینی فوج نے بہت مہارت سے ہماچل پردیش کے سرحدی علاقوں میں اپنی موجودگی پورے جلوے کے ساتھ دکھا دی۔

مودی کے چاہنے والوں نے چینی فوج کی اس کارروائی کو Under Play کرنے کی بہت کوشش کی۔ کئی ایک نے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ چینی صدر بھی اپنی عسکری قیادت کے سامنے اسی طرح ’’بے بس‘‘ ہیں جیسے کبھی پاکستانی صدر زرداری اپنی عسکری قیادت کے حوالے سے دُنیا کے سامنے نظر آیا کرتے تھے۔ مودی کے متوالوں کی ایجاد کردہ اس بچگانہ Spin  نے کئی ایسے مستند لکھاریوں اور تبصرہ نگاروں کو بھی جو تواتر کے ساتھ چین کو بھارت کا ’’اصل دشمن‘‘ دکھایا کرتے ہیں حیران و پریشان کر دیا۔ بتدریج یہ بات پھر عیاں ہونا شروع ہو گئی کہ جاپان اور ویت نام کے ساتھ مل کر چین کو امریکی سرپرستی میں اس کی ’’اوقات‘‘ میں لانے والی کہانی چل نہیں پا رہی۔ اس ’’فلم‘‘ کے ڈبہ ہو جانے کے بعد مودی سرکار پاک-بھارت سرحد کے چند مخصوص مقامات پر روایتی ’’پھنے خانی‘‘ دکھا رہی ہے۔ ہمیں اس پر ضرورت سے زیادہ چراغ پا یا حواس باختہ ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔