عید قرباں اور دیہی معیشت

ایم آئی خلیل  ہفتہ 11 اکتوبر 2014

ترقی پذیر ممالک کی دیہی معیشت میں نقد آور فصلوں کی بے حد اہمیت ہے۔ اس کے ساتھ ہی مال مویشیوں کا بھی انتہائی اہم کردار ہوتا ہے۔ سیلاب کے باعث دیہی معیشت تباہ ہوئی  کیونکہ سیلاب کی لپیٹ میں آنیوالے کھیتوں اور کھلیانوں نے دریا کی منہ زور موجوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ لہلہاتے ہوئے کھیت اجڑ کر دریا برد ہوتے رہے اور ہاری و کسان حسرت و یاس کی تصویر بنے دیکھتے رہے۔ ایسے میں انھیں پھر سب سے زیادہ فکر اپنے مال مویشیوں کی رہی۔

بہت سے ان کو بچانے کی تگ و دو میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ عید قرباں کا ماہ مبارک بھی قریب آرہا تھا۔ جب ایک طرف دیہی علاقوں کے کھیتوں کو تلپٹ کرنے کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی گاؤں دیہات قصبوں کے گھروں میں داخل ہوکر درو دیوار کے ساتھ بہے چلے جا رہے تھے تو ان غریب کسانوں ،ہاریوں کو اپنے اجڑے کھیتوں کو بسانے کے لیے، اکھڑے ہوئے دروازوں کو لگانے کے لیے ٹوٹی ہوئی دیواروں کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے، مکانوں کی گزارہ لائق تعمیر کے لیے ان کی نظروں میں آخری سہارا اور آسرا یہی مال مویشی تھے۔

ان بچے کچھے مال مویشیوں کی جی جان سے بڑھ کر حفاظت کر رہے تھے، اوپر اللہ تعالیٰ کا سہارا ہے اور نیچے ان ہی مال مویشیوں پر انحصار ہے ناجانے کون کون سے خواب سجا رکھے تھے کہ عیدالاضحی کے قریب ان کے اچھے دام مل جائینگے اور فروخت کرکے شاید اس قابل ہوجائینگے کہ اپنی مدد آپ کے تحت دوبارہ اپنے مکان تعمیر کرلیں گے۔

اپنے کھیت کھلیان آباد کرلیں گے مگر افسوس کہ وہ لوگ جو اونے پونے ان سے فصل خریدنے میں تو آڑھتی کہلاتے ہیں اور جب ان کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے بچے کچھے گائے بیل بچھڑے اور بکروں و بھیڑوں دنبوں کی قیمت اونے پونے لگا رہے ہوتے ہیں جو مویشی منڈیوں میں بیوپاری کہلاتے ہیں پھر یہ بیوپاری دیہی علاقوں سیلاب زدہ علاقوں کی منڈیوں سے شہروں کی منڈی میں لے جاکر ان ہی کے دام دگنے تگنے وصول کرتے ہیں۔ مختلف اطلاعات کے مطابق اس سیلاب زدہ علاقوں کی دیہی منڈیوں سے بیوپاریوں نے کسانوں کاشتکاروں سے اونے پونے دام جانور خریدے ہیں جس کے باعث دیہی معیشت کو خاصا دھچکا پہنچا ہے۔

ہر سال عید قرباں کے موقعے پر جانوروں کی قربانی کے حوالے سے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کی آمدنی میں قابل قدر اضافہ ہوتا ہے۔ عید کے دنوں میں موسمی قصائیوں نے تقریباً 8 ارب روپے بٹور لیے۔ ایک رپورٹ میں سرگودھا شہر اور گردونواح کے حوالے سے کہا گیا کہ 20 ہزار سے زائد افراد نے موسمی قصائیوں کا روپ دھار لیا۔ اس کے علاوہ ان دنوں کھالوں کی خریدوفروخت بھی عروج پر ہوتی ہے۔ اس سال 12 تا 14 ارب روپے کی کھالوں کی خریدوفروخت کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جس میں سے صرف کراچی کا حصہ 6 ارب روپے کے لگ بھگ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ابھی حتمی اعداد و شمار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ ملک بھر میں 26 تا 28 لاکھ سے زائد گائے قربانی کا تخمینہ لگایا گیا ہے جب کہ 36 یا 38 لاکھ تک بکروں کی قربانی کی گئی ہے جب کہ قربان ہونیوالے دنبوں کی تعداد لگ بھگ 10 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں اونٹ بھی قربان کیے جاتے ہیں۔ ملک کی لیدر انڈسٹری اپنی مصنوعات کی تیاری کے لیے ایک تہائی حصہ قربانی کی کھالوں سے ہی حاصل کرتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کھالوں کے ذریعے انتہائی بہترین اعلیٰ کوالٹی کا لیدر اور لیدر مصنوعات تیار کی جاتی ہیں اور بیرون ملک برآمد کی جاتی ہیں اور ان کی مانگ بھی خوب رہتی ہے۔

2013-14 کے دوران 2 کروڑ72 لاکھ مربع میٹر کھالیں برآمد کی گئیں جس کا زیادہ حصہ قربانی کی کھالوں پر مشتمل تھا جس سے تقریباً 56 ارب روپے سے زائد کی آمدنی ہوئی۔ پاکستان اپنی لیدر مصنوعات کے باعث عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے اس کی اصل وجہ قربانی کی کھالوں سے تیار کردہ لیدر مصنوعات بھی ہیں۔ مالی سال 2013-14 کے دوران لیدر مصنوعات کی کل برآمدی مالیت 64 ارب روپے تھی۔ اسی دوران 73 لاکھ 53 ہزار جوڑے فٹ ویئر برآمد کرکے ان سے 10 ارب سے زائد کا زرمبادلہ کمایا گیا۔

اس سال عید قرباں کے موقعے پر جانوروں کی ٹرانسپورٹیشن کے شعبے میں بھی خاصی رونق رہی اور ٹرک سے لے کر سوزوکی والوں حتیٰ کہ بکروں کی نقل وحمل کے لیے ٹیکسی اور رکشے والوں نے بھی منہ مانگے کرایے وصول کیے۔ مختلف جائزوں کے مطابق ٹرانسپورٹرز نے 5 ارب سے زائد بٹور لیے۔ اس طرح ان کی بھی چاندی ہوگئی کیونکہ کسی بھی جانور کی خریداری کے بعد سب سے اہم ترین مسئلہ اسے اپنے گھر تک پہنچانا ہوتا ہے۔

ایسے موقعے پر گائے بیل دیکھ کر ہی ٹرک یا سوزوکی والے منہ مانگے کرایے مانگتے ہیں اور ان لوگوں کا کاروبار تقریباً دو ہفتے تک خوب زوروں پر ہوتا ہے۔ اسی دو تین ہفتوں کے دوران چارہ بیچنے والوں اور اوزار فروخت کرنے والوں کا کاروبار بھی خوب چمک رہا ہوتا ہے کیونکہ لوگ جب گائے بیل بکرا وغیرہ خریدتے ہیں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی خدمت کے لیے تن دہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

گائے بیل بکرے کے اردگرد بچوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ جن کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاتھ سے قربانی کا جانور چارہ کھائے۔ اس کے ہار سنگھار کی خاطر مختلف اشیا خریدی جاتی ہیں تاکہ قربانی کے لیے پیش کیا جانے والا جانور خوبصورت نظر آئے قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں ملک میں ہی تیار کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان اشیا کو تیار کرنیوالوں کا بھی کاروبار ان دنوں چمک جاتا ہے۔

قربانی کے بعد جن جگہوں پر آلائشیں لاکر ڈالی جاتی ہیں وہاں بھی مزدوروں کا ہجوم رہتا ہے۔ کراچی میں ایک مقام پر سروے کے دوران بتایا گیا کہ اوجھڑی کو صاف کرنے اور دیگر اسی قسم کے کام کے لیے مزدور کو دیہاڑی 15 سو روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ ان آلائشوں کو صاف کرکے ان کا بھی کاروبار کیا جاتا ہے۔ جو افراد اس شعبے سے وابستہ ہیں وہ اسے کافی منافع بخش کاروبار قرار دیتے ہیں۔

ملک بھر میں جانوروں کی سجاوٹ کے لیے جو اشیا فروخت کی جاتی ہیں مختلف شہروں میں اس کی مارکیٹ سج جاتی ہیں۔ جہاں ان کی آرائش و سجاوٹ کی خاطر مختلف طرح طرح کی اشیا فروخت ہوتی ہیں۔ لاہور میں دہلی گیٹ کے باہر سجاوٹی اشیا کی مارکیٹ کافی مشہور ہے۔ ان دنوں چھریاں فروخت کرنیوالے چھریاں تیز کرنیوالوں کو بھی ذرا بھر فرصت نہیں ہوتی پھر چٹائیوں اور دیگر قابل استعمال اشیا کی فروخت کے ساتھ ساتھ گھروں میں تکہ بوٹی بنانے سیخ کباب بنانے کے لیے سیخوں مختلف چولہوں اورکوئلوں کی مانگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی قیمت میں بھی اضافہ کردیا جاتا ہے پھر مختلف شہروں اور قصبوں میں ان ہوٹلوں میں رش بڑھ جاتا ہے جہاں گوشت کسٹمر کا، اور بارہ مصالحے ہوٹل والوں کی طرف سے جب ڈش 6-7 گھنٹے بعد تیار ہوجاتی ہے تو متعلقہ لوگوں کی لذت وکام ودہن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

اگرچہ قربانی کے جانوروں کی فروخت کے باعث کسان اورکاشتکاروں کی آمدن میں اضافہ ہوجاتا ہے لیکن بعض اوقات بیوپاری ان کسانوں کی مجبوریوں کو بھانپ کر اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں پھر جو لوگ فیکٹریوں میں کھالیں لے جاکر فروخت کرتے ہیں فیکٹری مالکان اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی قربانی جہاں ایک مقدس فریضہ ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ ملک کی دیہی معیشت کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کی آمدن کا بھی ذریعہ ہے۔ اس کے باعث ملکی معیشت میں جو جمود واقع ہوتا ہے وہ ختم ہوکر ملکی معیشت متحرک ہوجاتی ہے۔ اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں بھی کھربوں روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔