’’نئی گریٹ گیم‘‘ کی اصطلاح کا تازہ منظر نامہ اور پاکستان

غلام محی الدین  اتوار 12 اکتوبر 2014
  2015 میں یہ عظیم کھیل تیسرے اور حتمی مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

2015 میں یہ عظیم کھیل تیسرے اور حتمی مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: موجودہ دنیا کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے جب گذشتہ صدی میں روس کی شکست و ریخت کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے والی طاقتوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ روس کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہونے دیا جائے گا تو اُس کے بعد روس سے الگ ہونے والی ریاستوں کے ساتھ تیزی سے مغرب اور امریکا نے تعلقات بنانے کی کوششیں شروع کردیں مگر دوسری جانب روس نے جس احسن طریقے سے خود کو دوبارہ عالمی دھارے میں شامل کیا، اس سے روس کے بد خواہوں کو سخت دھچکا اور یوں نئی گریٹ گیم کا آغاز ہو گیا۔ اس اصطلاح کا یہ پس منظر اپنے دامن میں بہت کچھ لیے ہوئے ہے۔

یاد رہے انیسویں صدی  میں ایک انگریز مصنف رڈیارڈ کپلنگ نے ’دی گریٹ گیم‘ کی اصطلاح کو اپنے ناول ’کِم‘ میں متعارف کرایا تھا۔ بعد ازاں یہ اصطلاح دنیا بھر میں معروف ہوئی۔ دی گریٹ گیم سے مراد مشرقی ایشیائی ریاستوں پر قبضے جمانے کے لیے ایسے حیلوں اور حربوں کا وہ کھیل تھا، جو سلطنتِ برطانیہ اور روس کے درمیان سیاسی اور سٹریٹجک رقابت کے بعد شروع ہوا تھا۔ اُس وقت برطانیہ کو روس سے یہ خطرہ تھا کہ وہ کہیں اس کے زیر تسلط ہندوستان پر حملہ کرکے قبضہ نہ کر لے۔ آج متعدد دہائیوں کے بعد ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں کی نظریں اسی خطے پر مرکوز ہیں اور اس خطے میں سیاسی اثر و رسوخ اور معاہدوں کا کھیل جاری ہے۔

اسی کو تاریخ دانوں اور تجزیہ نگاروں نے نیو گریٹ گیم کا نام دیا ہے لیکن اب یہ کھیل جغرافیائی وسعت کے بجائے قدرتی وسائل پر قبضے کا کھیل ہے اور اس مرتبہ عالمی طاقتوں کی نظر مشرقی ایشیائی ریاستوں میں پائے جانے والے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے ذخائر پر لگی ہوئی ہے، جن کو ابھی تک استعمال میں لایا نہیں گیا۔ روس اور فرنگیوں کے درمیان یہ آنکھ مچولی برصغیر کی تقسیم تک جاری رہی تھی، جو ایک لحاظ سے ابھی تک جاری ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اس گیم میں کھلاڑیوں نے جہاں اپنا رنگ اور روپ بدل لیا ہے، وہاں اس میں نئے کھلاڑی بھی شامل ہوچکے ہیں۔ سوویت یونین کا جب شیرازہ بکھرا تھا تو کچھ عرصے تک اس نے دھیما پن اپنائے رکھا لیکن اب روس پیوٹن کی قیادت میں ایک بار پھر وسطی ایشیا میں متحرک ہو چکا ہے۔

گو کہ فرنگی اس گیم میں اب زیادہ گرم جوش دکھائی نہیں دیتے اور اُن کی جگہ اب امریکا بہادر نے لے لی ہے لیکن اس کے باوجود فرنگی اپنا حصہ اس گیم میں کسی حد تک ڈال ضرور رہے ہیں۔ دوسری جانب چین اور بھارت بھی اس گیم میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اور تو اور، اس بار اس کھیل میں ایران بھی شرکت کا ارادہ رکھتا  ہے اور یوں روس‘ چین ‘ امریکا‘ بھارت‘ ایران اور افغانستان کے سیاسی مفادات ایک ہی نوع کے نظر آ رہے ہیں۔ وہ اس لیے کہ وسطی ایشیا میں تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں اور یہاں کے معدنی وسائل سے اب سارے کھلاڑی حصہ بہ قدر جُثہ لینے کے متمنی ہیں۔

اس گیم کے لیے ایک فریق نے کرۂ ارض کے جس خطے پراپنی بساط بچھائی ہے، وہ خاصی قابل غور ہے اس خطے میں روس سے آزاد ہونے والی سات ریاستوں کے علاوہ افغانستان، ایران، عراق، ترکی اور پاکستان شامل کیے گئے ہیں۔ گیم کے ابتدائی خاکے کے مطابق افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے قدرتی وسائل کو پاکستان اور ترکی کے راستے دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منڈیوں اور فیکٹریوں تک لایا جائے گا اوراس مقصد کے لیے بین الاقوامی موٹر ویز، لنک روڈز اور ریلوے ٹریک کے لیے نقشے بھی تیار ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب تیل اور گیس کی طویل پائپ لائنوں کو بچھانے کے منصوبہ جات جہاں مکمل ہو رہے ہیں وہیںان پر اٹھائے جانے والے اعتراضات کو جلد از جلد دور کرنے یا ان کی جگہ غیر متنازع اورمتبادل منصوبوں کو شروع کرنے کے لیے لائحۂ عمل بھی تیار ہو رہے ہیں۔

خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنے کے لیے جنگی اڈے بنانا بھی اس گیم کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان اڈوں کو  دراصل اپنے مفادات کو محفوظ بنانے اور دنیا کو بے وقوف بنانے کے لیے دنیا کے مختلف مقامات پر اتحادی افواج رکھنے کا پروگرام بھی طے ہو گیا ہے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک، افواج کا خرچا تقسیم ہو کر کم ہوجائے گا اور دوسرا کسی بھی حملے کے حق میں یا جارحیت کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ کی طاقت بڑھ جائے گی۔ اسی طرح پہلے سے موجود جنگی اڈوں کو کرائے پر حاصل کرنے اور نئے اڈے تعمیر کرنے کے لیے بھی اس جنگ میں دل چسپی لینے والے ممالک کے درمیان عسکری سطح پر خفیہ اور ظاہری معاہدے طے پاچکے ہیں۔

اس گیم کو سات، سات سال کے تین مرحلوں میں تقسیم کرنے کی بھی منصوبہ بندی ہوئی۔ گیم کا تیسرا مرحلہ2021 میں ختم ہوگا اور سال2025 تک مقررہ اہداف تک رسائی کو ممکن بنایا جائے گا۔ گریٹ گیم میں اب تک جو بڑے ممالک شامل ہو چکے ہیں، ان میں سرفہرست امریکا ہے، علاوہ ازیں اس کے مغربی اتحادی ممالک اورامریکی تسلط کے زیراثر ممالک بھی قابل غور ہیں۔

صدیوں پرانا ایک محاورہ، زن، زر اور زمین آج بھی ایک حقیقت کا درجہ رکھتا ہے۔ بر صغیر پاک وہند میں اس محاورے کے دو اہم ستونوں زن اور زمین کو آج بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے مگر باقی دنیا میں شاید یہ دونوں ستون زر کے سامنے ماند پڑ چکے ہیں۔ اب ہر جنگ چاہے وہ سرد ہو یا گرم، زر کے حصول کے لیے ہی ہوتی ہے اور موجودہ صدی کی نئی گریٹ گیم بھی اسی تناظر میں شروع  ہے۔ تاحال یہ ایک سرد جنگ ہے لیکن یہ کس بھی وقت گرم جنگ میں بدل دی جائے گی۔

اس سے متعلق کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ جنگ عن قریب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی ہے اور یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ نئی گریٹ گیم اب کیمونیزم اورسرمایہ داری نظام معیشت کے لبادے کے بجائے، زیادہ سے زیادہ حُصول زر کے نظریے کے لیے لڑی جائے گی، جس کو جدید معاشیات میں وسائل کا نام دیا جاتا ہے۔ اس جنگ میں جو جتنا زیادہ طاقت ور ہو گا اور اپنے اچھے اور برے کو مدنظر رکھ کر بر وقت فیصلے کرے گا، وہ ہی اس جنگ میں کام یاب ٹھہرے گا۔

گو کہ اس جنگ کے ضروری خد و خال کافی حد تک نمایاں ہو چکے ہیں اور فریقین کا بھی تعین ہو چکا ہے۔ اب صرف دیگر ممالک کی گروہ بندیاں ہو رہی ہیںکہ کس نے کیا کھونا ہے اور کیا پاناہے؟  گو کہ اس نئی گریٹ گیم کا ایک فریق تو اب بھی وہی ہے جو سابق سرد جنگ میں کیمونیزم کا علم بردار تھا مگر دوسری جانب اب برطانیہ کے بجائے امریکا نے سربراہی کا پر چم اٹھا لیا ہے۔ کس کے ساتھ کون ہو گا اور وہ کیا ذمہ داری انجام دے گا ؟ اس جنگ میں آج کل جوڑ توڑ عروج پرپہنچ چکا ہے۔

دوسری طرف اب چین، بھارت اورایران نے بھی اس جنگ سے مستفید ہونے کے لیے اپنی اپنی چالوں کو اپنے فائدے اور نقصان کے تناظر میں آگے بڑھانے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں جب کہ خطے میں صرف روس ہی وہ واحد ملک ہے جوپہلے سے موجود کئی ایک فوائد کو قائم رکھنے اور مستقبل کے ممکنہ نقصانات کو روکنے کی حکمت عملی تیار کر رہا ہے۔ روس کے موجودہ صدر ولادی میر پیوٹن، جو اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے سربراہ بھی رہے ہیں، خطے کی تازہ ترین صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اورمحسوس یوں ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی شطرنج کے مہرے آگے بڑھانے شروع کر دیے ہیں۔

نئی گریٹ گیم میں شامل بڑے کھلاڑیوں نے تو شاید اپنی تیاریاں مکمل کرلی ہوں مگر خطے کے متعدد ممالک ایسے بھی ہیں جن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ انہوں نے کرنا کیا ہے اور اگر کچھ کرنا بھی ہے تو کیسے کرنا ہے؟ گومہ گوکی اس کیفیت میں مبتلا ممالک میں سرفہرست ملک پاکستان ہے، جس کی خارجہ پالیسی سمیت دیگر پالیسیوںکی گذشتہ کئی سال سے خود ہمارے اربابِ اختیار کو سمجھ نہیں آرہی اور نہ ہی ہمارے خیر خواہوں اور بد خواہوں کو۔ اس ضمن میں دیگر ممالک کے سفرا سمیت غیر ملکی میڈیا بھی بہت کچھ کہ چکا ہے بل کہ اب تو وہ متواتر لکھ بھی رہا ہے۔

کہاجا رہا ہے کہ پاکستان کو بہت جلد جامع فیصلے کر نے ہوں گے۔ دیر کی صورت میں (اللہ نہ کرے) پاکستان کسی بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں ہو گا۔ اس گریٹ گیم کے پس منظر میں اب تک پاکستا ن کے عوام نے جتنی مار بے وجہ کھائی ہے اور نہ جانے کب تک مزید کھانی ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہمارے فوجی اور سول حکم ران جس منظر نامے کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں، وہ ہی منظر دھندلا نا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اب اس بارے میں باریک بینی سے سوچنا ہوگا۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اب بھی امریکا کی جنگ سمجھتا ہے اورمزے کی بات یہ بھی ہے کہ جب پاکستان، افغانستان میں روس کے خلاف امریکا کی جنگ لڑ رہا تھا تو اس وقت بھی آبادی کا اتنا ہی بڑا حصہ اس کو اسلام کے خلاف جنگ سمجھتا تھا مگر سچ یہ ہے کہ قوم اُس وقت بھی غلطی پر تھی اور آج پھر غلطی پر ڈٹی ہوئی ہے جب کہ دوسری جانب ہمارے حکم رانوں نے قوم کو اعتماد میں نہ لینے اور ان سے مسلسل جھوٹ بولنے کی بنیادی غلطی کا جو عمل جاری رکھا ہوا ہے اُس کا خمیازہ پوری قوم، خوف کے عالم میں مبتلا ہو کر بُھگت رہی ہے۔

اس کی وجہ سے ملک سے ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاری باہر منتقل ہونا شروع ہوگی ہے کیوں کہ آج بھی دہشت گردی، کرپشن اور بے یقینی کے جن  نے اب بوتل میں بند ہونے سے انکار کردیا ہے۔ بعض دانا تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہی نئی گریٹ گیم کے مُہرے بن چکے ہیں، اسی لیے تو جن قابو میں نہیں آ رہا ہے۔

تجزیہ نگارتو یہ بھی کہتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں تشکیل دی جانے والی یہ دوسری سرد جنگ مغربی اور امریکی تھنک ٹینکس کا مشترکہ کا رنامہ ہے کیوںکہ اس گیم سے نئے سرمایہ داری نظام کو ان وسائل تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے، جو آنے والے دنوں میں اس نظام کی بقا کے لیے اشد ضروری ہے۔ ان وسائل کی قدر و قیمت کا اندازہ ایک عام کیلکولیٹر سے لگانا مشکل ہے، اس کے تخمینے کے لیے ایک سپر کمپیوٹر کی ضرورت ہوگی۔

افغانستان میں سونے، تانبے اور لیتھیٔم کے ذخائر ہیں، روس سے آزاد ہونے والی ریاستوں میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں اوربلوچستان میں معدنیات کے ذخائر پر لگی گریٹ گیم کے فریقین کی نظریں اب کوئی پوشیدہ امرنہیں۔ ان ذخائرکو نکالنے، ان سے مصنوعات تیار کرنے، مصنوعات کو فروخت کرنے اور مال کمانے تک کے عمل کو ہی اگر نئی گریٹ گیم کا نام دیا جائے، تو یہ غلط نہ ہوگا۔

اس سے قبل اس جنگ کو تہذیبوں کے ٹکرائو، تیسری عالمی جنگ اور وسائل کی کش مکش جیسے نام دیے گئے تھے مگر میڈیا نے اس کا جو نام اب تجویزکیا ہے وہ اس کی روح کے عین مطابق ہے۔گریٹ گیم میں اسلحہ بارُود سے دور رہنے کی حکمت عملی بھی اپنائی گئی ہے، جس کے بعد پاکستان کا ایٹمی اورایران کا یورینیم افزودگی پروگرام گریٹ گیم کی زد پر آیا۔ ان دونوں ممالک سے گریٹ گیم کے متعدد کھلاڑی، خاص طور پر اسرائیل اور امریکا، سخت خائف ہیں کیوں کہ یہ ہی وہ واحد شے ہے، جو گیم کی راہ میں کسی بھی وقت حائل ہو کر بازی اُلٹ سکتی ہے۔

http://express.pk/wp-content/uploads/2014/10/New-great-game.jpg

گریٹ گیم کا مکمل نفاذ، اس دہائی کے آخر تک ہونا طے پایا ہے اور یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ اسلامی ایٹمی ہتھیاروں سے کس طرح بچنا ہے۔ تجزیہ کرنے والے ماہرین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ مغرب اورامریکا کے حالیہ مالی بحران بھی اس ڈرامے کی ایک کڑی تھے تا کہ اپنے اتحادیوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ آنے والے دنوں میں اگر وسائل حاصل کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو اس بھی زیادہ سخت مالی بحران پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہو گا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیر تسلط معروف عالمی ادارے جو رپورٹیں مرتب کرتے ہیں اور ان میں ماحولیاتی تغیرات اورغذائی کمی سے  ڈراتے ہیں، وہ بھی گریٹ گیم ہی کا کوئی خفیہ حصہ ہو۔

جدید نفسیات کی تحقیق اس امر کی گواہ ہے کہ افراد کو دیکھے اور ان دیکھے خوف میں مبتلا کر کے ان کے عقائد، اعتقاد، اعتماد اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ایک خاص انداز میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اسی طرح این جی اوز اوردیگر اداروں کی جانب سے شائع ہونے والی سروے رپورٹس پر، جو شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں، وہ بھی کسی نہ کسی طرح گریٹ گیم کی اصل حقیقت کی وضاحت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ گریٹ گیم کو کام یاب بنانے اوراس کے اصل فیوض و برکات کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کے لیے انٹرنیٹ کو انفارمیشن تک رسائی کی آڑ میں عہد حاضر کی مقبول ترین مصنوعات بنا کر پیش کیا گیا  اور اس ٹیکنالوجی نے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنا ممکن کردیا۔ انفارمیشن کی اصل حقیقت کیا ہے؟

انٹر نیٹ استعمال کرنے والے زیادہ تر صارفین اس سے لا علم ہیں۔ اب انٹر نیٹ سروسز اور مصنوعات ایک  ایسے نشے کی مانند پھیل چکی ہیِں، جن کو بغیر سوچے سمجھے من وعن تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس سہولت سے جہاں مال کمایا جا رہا ہے وہاں زر (اخراجات) بھی بچایا جاتا ہے۔ لیپ ٹاپ کے بعد موبائل فون کے ذریعے نیٹ سے استفادہ کرنے والے اس سہولت کے مکمل محتاج ہو چکے ہیں بل کہ نئی نسل تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہو چکی ہے۔

گریٹ گیم قوموں کے درمیان تدبر، تحمل، دور اندیشی اور منافقت سے بھر پور ایک ایسا کھیل ہے، جس میں ریفری میچ فکس بھی کرے گا تو کوئی یقین نہیں کرے گا،کھلاڑی مال کمانے کی خاطر ہار جائیں گے مگر شائقین انہیں بے گناہ تصور کریں گے۔ مذہب کی آڑ میں بلا سود کاروبار ہوگا، مگر فتویٰ بھی جاری ہو گا اور اس کاروبار کے خفیہ تانے بانے سود لینے اور دینے والوں سے ملے ہوں گے۔

بہت سے ممالک کی جغرافیائی حدود بدل جائیں گی، ملک سکڑ جائیں گے، بلاک پھیلنے لگیں گے، ہر جانب مال وزر کی حکم رانی ہو گی، جس کے سامنے ہر عمر کے مرد و زن سجدہ ریز ہوں گے لیکن پرچار آفاقی حقیقتوں کا ہی ہو گا۔ ہر آدمی بے جا تشویش میں مبتلا ہوگا، اس سے جان خلاصی کے لیے ادویات بھی کھا رہا ہو گا مگر وہ مانے گا نہیں۔ مصنوعات در مصنوعات ہوںگی، ترقی کا عروج ہوگا، علم ہی علم ہو گا لیکن کوئی صاحب علم نہیں ہوگا۔

گریٹ گیم کو ایسے ہی افراد کا ہجوم چاہیے، جو سارا دن اور ساری رات کمانے کی فکر میں مبتلا ہوں تا کہ وہ سب کچھ خرید سکیں، جو ملٹی نیشنل کمپنیاں تیار کر رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اس سوچ سے سب سے پہلے جس ملک نے نہایت ہوش یاری سے استفادہ کیا، وہ چین ہے۔ اس نے ان افراد کو بھی صارف بنا دیا، جو خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ اس فریق نے نہایت مہارت سے سامنے آئے بغیرملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقابلہ کیا ہے۔ کیا اب وہ اپنے مفادات کی قربانی دے گا؟ ہرگز نہیں۔ چین  اُس فریق کے ساتھ ہوگا، جس کا پلڑا بھاری ہو گا۔ مگر خطے میں اب واحد ملک پاکستان ہے، جس نے یہ سوچنا ہے کہ اس آگ کے دریا سے اُس نے کس طرح گزرنا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔