امپائر کا ہاتھ کھول دو…

انیس منصوری  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
muhammad.anis@expressnews.tv

[email protected]

یہاں کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا ۔ سرکاری بابو کے دروازے پر ہر ایک کو ہاتھ دکھا کر روکنے والے چپراسی سے لے کر تخت پر بیٹھنے والے تک ، سب سچے ہیں ۔ ٹریفک سگنل پر لال بتی کو اپنی بتی دکھا کر جانے والے حکمرانوں کو چور اور خود کو بے قصور کہتے ہیں ۔ دوسروں کو گالی دینے والے اپنی باری پرکانوں کو ہاتھ لگا لگا کر توبہ کرنے لگتے ہیں ۔ جیسے اس دنیا میں جو  پہلی گالی بنی  تھی وہ اُن کے خلاف ہی تھی ۔

معاشرہ جو دیتا ہے وہ آنے والی نسل اپنے سینوں میں جمع کرتی جاتی ہے ۔اگر ہمارے بچے گالی سیکھتے ہیں تو انھوں نے اپنے بڑوں سے ہی سُنی ہوتی ہے ۔ جب اُن بڑوں کے منہ سے نکلی ہوئی گالی بچے دینے لگتے ہیں تو فوراً سارے بڑوں کو تمیز یاد آجاتی ہے اور وہ پھر کہتے ہیں  بیٹا ،کسی کو گالی نہیں دینی چاہیے کیونکہ پھر وہ پلٹ کر آپ کو ہی لگتی ہے ۔ علی بابا اور چالیس چوروں کو لاہور کی گلیوں میں رسی ڈال کر گھمانے کی بات کرتے ہوئے ہمارے کانوں میں کسی نے روئی بھر دی لیکن اب چوروں کو کوڑے پڑ رہے  ہیں تو سب توبہ توبہ کرنے لگے ہیں ۔ ہر جگہ استغفارکا ذکرکر رہے ہیں ۔ کل تک کسی کو جنازے میں روک کر ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگانا ٹھیک تھا تو اگر آج ’’رو عمران رو‘‘ کے نعروں کو بھی برداشت کریں۔

یہ نعرے تو ہوتے ہی ہیں فریب دینے کے لیے ۔تو آپ بھی اسے فریب سمجھ کر بھول جائیں ۔ ویسے میں نے کسی دل جلے سے سُنا ہے کہ ’’گو نواز  گو‘‘ کی شاندار کامیابی کے بعد ’’روٹی کپڑا اور مکان ‘‘جیسا مقبول نعرہ دینے والے جیالے ،اپنے اجلاس میں بار بار سر جوڑ کر بیٹھ رہے ہیں ۔لیکن ابھی تک کوئی نیا کارتوس میدان میں لا نہیں سکے ۔ سُنا ہے کچھ دنوں میں ٹوئیٹر والے صاحب کسی مارکیٹینگ کمپنی سے بھی رابطہ کریں گے جو انھیں ایک نیا نعرہ بنا کر دیں ۔ ’’گو… گو‘‘ کا نعرہ اس قدر مشہور ہو گیا ہے کہ بڑی عید پر کسی کی گائے بھاگ رہی ہوتی تھی تو بچے زور سے آوازیں لگاتے تھے کہ ’’گو…گائے …گو‘‘ بیانات سے تو کراچی کوگرماہٹ دینے کی بہت کوشش کی جارہی ہے لیکن کاش یہ نعروں کی تلاش اور سیاسی بیانیہ شو بازی کی بجائے کوئی حقیقی کام بھی کیا جاتا ۔

نامعلوم افراد کی طرح نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا کراچی کے شہری علاقوں میں نعروں سے گزر نہیں ہو رہا تھا ۔لیکن بلدیاتی نظام میں اُن کی شمولیت نے اُن کو نئی پہچان دی ۔ صرف مصطفی کمال ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے ٹاؤن ناظمین نے اہم کردار ادا کیا ۔ اور نا صرف پورے پاکستان میں بلکہ دنیا میں اُن کی مثالیں دی جانے لگی ۔ لیکن 7 سال پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت کرتے ہوئے ہو گئے ۔ ڈبہ کھولوں تو خالی ہے کوئی کام کا نعرہ …؟ اتنے ہی سال شہباز صاحب کو ہو گئے ۔ ڈبہ کھولوں تو وہی بغیر بجلی کے چلتا لیپ ٹاپ اورکچھ بسیں …بس؟ یہاں بھی ڈبہ خالی۔ ترکی کی مثال کو مثال بنانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہاں مسند پر بیٹھنے والا بھی ایک جگہ کا میئر تھا…جس کے کام کی وجہ سے اُس کو حکمرانی ملی ۔

’’نہیں بھائی یہ نہیں ماننے کے …یہ بس نعروں میں ہی خوش رہیں گے‘‘  کہہ کہہ کر  تھک گئے کہ ہم بلدیاتی انتخاب کرائیں گے ۔سنتے سنتے کان کا میل جم گیا لیکن خیبر پختونخوا میں اب تک  ایسی سلائی نہیں مل رہی جو کانوں کے جمے میل کو نکال دے ۔ لاپتہ لاشوں کے ڈھیر پر آڑے ٹیڑھے چلتے ہوئے بلوچستان میں بلدیاتی انتخاب ہو گیا لیکن عمران خان کنٹینر سے آئیں گے تو کے پی کے میں بھی بہار آئیگی ۔ جب تک وہاں کے لوگ اس نعرے پر گزارا کریں کہ ’’گو ۔۔بلدیہ ۔۔گو۔۔‘‘کوئی تو نعروں کے علاوہ ایسی مثال دے دیجیے جس پر ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ’’ساڈی واری بھی آنے دو‘‘ …لیکن یہ باری دینے والے بھی بے ایمان ہیں ۔

ہر بار کہتے ہیں۔ اس بار تو تمھاری باری ہے ۔اور جیسے ہی بیٹ ہاتھ میں آتا ہے تو اوپر سے پانی گرا کر کہتے ہیں بارش ہو گئی اگلے میچ میں باری ملے گی ۔ مسلسل  16 سالوں سے تو میں دیکھ رہا ہوں اور اس بار بھی لگ رہا ہے کہ باری آنے سے پہلے بارش ہو گئی ۔ ایک اور نعرے کی بات کرنی ہے لیکن پہلے یہ تو سمجھ لے کہ آخر امپائر کی انگلی کیوں نہیں اٹھی تھی ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میں چھوٹا آدمی ، چھوٹے پروں کے ساتھ اڑ نہیں سکتا اس لیے دوسروں کے جہاز پر بیٹھ کر اڑتا ہوں ۔ ایک امپائر کا قصہ سنتا ہوں ۔

ایک صاحب بڑے بدمعاش ہونے کے ساتھ بڑے اداکار بھی ہیں ۔ جناب کا نام انعام ہے اور وہ چاہتے تھے کہ ایک ساتھ نواز شریف اور عمران خان دونوں کو انعام دے ۔ لیکن بدقسمتی کہیے کہ جناب کو اقدام قتل کے مقدمے میں پکڑ لیا گیا مگر جیسے ہی ہتھکڑیوں سمیت اسے  مقامی عدالت میں لایا گیا تو اُس نے منصوبے کے مطابق یہ جاننے کی کوشش کی کہ میڈیا والے کہاں ہیں؟  جیسے ہی اُسے میڈیا کی چند کالی آنکھیں نظر آئیں اُس نے اعلان  کر دیا کہ دنیا کو جس کا انتظارہے وہ شاہکار وہ  ہی ہے۔ اُس نے کہا کہ اصل میں عمران خان جس امپائر کی بات کر رہے ہیں وہ ہی ہے ۔ جسے اسلام آباد جا کر انگلی اٹھانا تھی ۔ مگر پولیس نے سازش کر کے اُس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگا دی ہے ۔

اب وہ میڈیا والوں سے منت کرنے لگے کہ اگر اس ملک میں امن چاہیے تو فورا اُس کے ہاتھ کھول دیے جائے تاکہ وہ انگلی اٹھا سکے اور دھرنے ختم ہو سکیں ۔ لیکن  پولیس  نے اس مددگار کی بات نہیں سنی  اور اُسے گھسیٹتے ہوئے گاڑی میں بٹھا دیا  اور اس طرح ایک بار پھر امپائر کے ہاتھ بندھے ہونے کی وجہ سے انگلی نہیں اٹھ سکی ۔ لیکن کسی کو تو پتہ ہے کہ امپائر کے ہاتھ کس نے باندھے ہیں جس کی وجہ سے انگلی نہیں اُٹھ سکی ؟ہائے ایسا کون سا مقدمہ ہے جس کی وجہ سے امپائر کے ہاتھ بندھے رہ  گئے؟ یہ آصف علی زرداری کیوں کہہ رہے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی اور ہے ۔ اب سارے پروٹوکول کے خلاف لوگوں کو چاہیے کہ وہ گوجرانوالہ میں انعام کی سماعت کے وقت جمع ہوں اور مل کے نعرے لگائیں کہ ’’گو ۔۔ ہتھکڑی ۔۔گو۔‘‘ تاکہ امپائر کی انگلی اٹھ سکے اور آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والی زندگی ختم ہو ۔

کیونکہ اس تحریر کے بعد ایک بار پھر ہمیں سوشل میڈیا پر اچھے اچھے ناموں سے یاد کیا جائے گا ۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ایک اور تاریخی نعرہ آپ کو یاد دلاؤں ۔ جب کراچی میں آپریشن ہو رہا تھا ۔ تو دیواروں پر ایک نعرہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ’’ تم کرو تو سرکاری ہے ۔ہم کریں تو غداری ہے ‘‘ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو آپ کو غداری لگتا ہے اور یہاں لوگوں کو جنازے میں بھی جان بوجھ کر رسوا کیا جاتا ہے تو وہ سب جائز ہوتا ہے ۔ شیشے کے گھروں میں بیٹھنے والوں کو تو چھینک بھی احتیاط سے لینی چاہیے سرکار آپ تو پتھر برسا رہے ہو ۔ اب ایک آدھ پتھر تو پلٹ کر آئے گا نا۔۔؟ تو chill کریں یار ۔۔ اور ہو سکے تو کراچی جا کر مشورہ دیں کہ امپائر نے اگلا نعرہ کون سا سوچا ہے ۔ اور کب تک اُس کے ہاتھ کی ہتھکڑی کھل جائے گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔