نجی ایئرلائن کی کارکردگی؟

رئیس فاطمہ  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جب لوگ سسٹم میں خرابی کے عادی ہو جاتے ہیں تو احتجاج کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ مایوسیوں کی اس گہری دلدل میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں جس سے وہ اس لیے نہیں نکل سکتے کہ ان کے سازشی، لالچی اور خودغرض اور نام نہاد لیڈروں نے ایسے ڈپریشن میں دھکیل دیا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی اس خرابی کی نشاندہی کرنا چاہے تو اکثریت یہ کہتی ہے کہ ’’کیا ہو گا احتجاج کرنے سے کون سا کوئی نوٹس لے گا‘‘ اور اس لاتعلقی اور ’’مٹی ڈالو‘‘ والے رویے اور سوچ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گندے انڈے جمع ہوتے رہتے ہیں۔ اور پھر ان کو ٹھکانے لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔

زندہ قومیں غلط رویوں اور غلط پالیسیوں کو برداشت نہیں کرتیں کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتی ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں انفرادی طور پر بھی ہر غلط بات اور غلط کام کی نفی کرنی چاہیے۔ خاص کر وہاں جہاں بہت سے لوگوں کی زندگی اور صحت کا معاملہ ہو۔ احتجاج ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ یہ حوصلہ اسی میں ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ زندگی محض اس لیے نہیں عطا کی گئی کہ مال بناؤ، اور ہر ناجائز طریقے سے اپنے خزانے بھرو اور بدنامی کی پرواہ کیے بغیر مر جاؤ۔ زندگی خدا کا عطیہ ہے اور اس کا مقصد ہے۔ جب تک زندہ رہو انسانیت کو نہ بھولو۔ آدمی اور انسان میں یہی بنیادی فرق ہے کہ آدمی تو سبھی ہوتے ہیں، لیکن انسان وہ ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ کسی مشکل میں پھنسے لوگوں کا ساتھ دینا اور ان کی خاموشی کو احتجاج میں بدلنا ہی انسانیت ہے۔

لیکن ہم اب بحیثیت مجموعی اتنے بے حس اور لاچار ہو چکے ہیں کہ جہاں ہم ہزاروں روپے خرچ کر کے کوئی سہولت حاصل کرتے ہیں وہاں بھی اگر ہیرا پھیری ہو رہی ہے پوری رقم کے بدلے آپ کو مطلوبہ سہولت نہیں مل رہی تو بھی دبے دبے لفظوں میں آپس میں تو سبھی برا بھلا کہتے ہیں لیکن برملا بلند آواز میں اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے خلاف بولنے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی۔ کیونکہ سب یہی کہیں گے کہ کچھ بھی کر لو کچھ بدلنے والا نہیں۔ پھر اس بے حسی کے بعض اوقات بڑے ہولناک نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں تب لوگ کہتے ہیں کاش! اس وقت ہم نے بھی آواز اٹھائی ہوتی۔ کاش! ہم بھی ایک اکیلے کے احتجاج میں اپنی آواز شامل کر دیتے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور یہ لفظ کاش! کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔

اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ اس تمہید کی نوبت کیوں پیش آئی۔ شاید آپ کی سمجھ میں یہ بات آسانی سے آ جائے کہ ملک آج جن عذابوں میں گھرا ہے اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے انفرادی سوچ اور رویے کی اہمیت کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔

2 اکتوبر کو شام چار بجے ایک نجی ایئرلائن سے ہم دو افراد کو اسلام آباد روانہ ہونا تھا۔ طبیعت خاصے عرصے سے خراب تھی اس لیے فیملی فزیشن اور فزیو تھراپسٹ نے کچھ عرصہ آرام کا مشورہ دیا تھا۔ لہٰذا بقرعید کی چھٹیوں میں بیٹے کے پاس جانے کا پروگرام بنا لیا۔ بدقسمتی سے ہمیشہ ہم جس ایئرلائن سے سفر کرتے ہیں اس کا ٹائم ہمیں سوٹ نہیں کرتا تھا۔ صبح 10 بجے کی فلائٹ کے لیے آٹھ بجے گھر سے نکلنا بوجوہ ممکن نہ تھا۔

لہٰذا ٹریول ایجنٹ کے کہنے پر شام 4 بجے والی فلائٹ میں بکنگ کروا لی۔ ساڑھے تین بجے چیک ان شروع ہوا تو دس منٹ بعد ہم اپنی سیٹوں پر تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی شدید گرمی کا احساس ہوا۔ ان کا کولنگ سسٹم بند تھا۔ اندر حبس اور گرمی بے انتہا۔ کئی بار ایئرہوسٹس کو بلا کر وجہ پوچھی تو وہ نظرانداز کر کے چلی گئی۔ لوگ سب پریشان اور گرمی سے بے حال۔ عملہ غائب اور اگر نظر بھی آیا تو نظریں چرا کر نکل گیا۔ میری طبیعت ویسے ہی ٹھیک نہ تھی۔ گردن کے مہروں (Cervical) کی تکلیف بڑھ گئی اور شدید چکر آنے لگے۔ ہماری صف میں بیٹھے تندرست توانا صاحب بولے۔ جب جہاز ٹیک آف کرے گا ایئرکنڈیشنر اس وقت چلے گا۔ میں نے کہا۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں سنا۔

لگتا ہے کوئی خرابی ہے۔ آخر خدا خدا کر کے سوا چار بجے جہاز نے اڑان بھری۔ مسافروں نے جن میں بچوں اور عمر رسیدہ افراد کی ایک خاصی تعداد شامل تھی، حسرت سے سر اٹھا کے اوپر ہاتھ کر کے ٹھنڈک محسوس کرنے کی کوشش کی لیکن سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ عملہ تو پہلے ہی ندارد تھا۔ ایئرہوسٹس کو غالباً کیٹ واک کے لیے رکھا گیا تھا اسی لیے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی لپ اسٹک اور میک اپ کو تازہ کرتی نظریں چرائے گزر جاتی۔ کیبن کریو کا انچارج بھی غائب تھا۔

اپنے مقررہ وقت کے بعد جب جہاز نے لینڈ کیا تو دروازے کے قریب کھڑی ایئرہوسٹس اور ایک نوجوان افیسر مسافروں کو مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ خداحافظ کہہ رہے تھے۔ میں نے اس نوجوان سے پوچھا کہ کیبن کریو کا انچارج کون ہے؟ وہ اس شائستگی سے بولا جی میں ہوں۔ فرمایئے! تب میں نے اس سے دریافت کیا کہ جو کچھ جہاز کے اندر ہوا جس طرح لوگ گرمی اور حبس سے بے حال تھے۔ کیا آپ مجھے اس کی وجہ بتائیں گے۔ اس نے چپ سادھ لی۔

پھر بولا۔ جی کچھ خرابی تھی۔ میں نے پوچھا کہ ایئرکرافٹ انجینئر جو ڈیوٹی پر ہوتا ہے وہ جہاز کو Ok کرتا ہے۔ اس میں کیا ایئرکنڈیشنگ سسٹم خراب ہونے کے باوجود جہاز کو پرواز کی اجازت دے دی گئی۔ اس سے بہت تفصیل سے بات ہوئی وہ بہت مہذب نوجوان تھا شرمندہ اور پریشان بھی۔ میں نے اس سے کہا کہ صرف ایک بات کا جواب دے دو کہ سسٹم تو بہت پہلے سے خراب تھا۔ اور انتظامیہ بھی آگاہ تھی۔ پھر ایسا کیوں نہ کیا گیا کہ فلائٹ کو کچھ دیر لیٹ کر دیا جاتا اور اگر سسٹم زیادہ خراب تھا تو کسی دوسری فلائٹ سے مسافروں کو بھیج دیا جاتا اور انھیں وجہ بھی بتا دی جاتی۔ وہ ہر بات پہ آمنا و صدقنا کہتا رہا۔ لیکن میں نے بتایا کہ اسلام آباد پہنچ کر میں C.A.A کو ای میل کے ذریعے اس سے آگاہ ضرور کروں گی۔ اور میں نے ایسا کیا بھی۔

اب میں سول ایوی ایشن اتھارٹی اور نجی ایئرلائن کی انتظامیہ سے پوچھتی ہوں کہ اگر شدید گرمی اور حبس سے کچھ مسافر زندگی ہار جاتے، بیمار مر جاتے اور بچے جو رو رو کر احتجاج کر رہے تھے تو اس کا خون کس کی گردن پہ ہوتا؟ کیا C.A.A اس بات کی طرف بھی توجہ دے گی کہ پورا کرایہ وصول کرنے کے باوجود بغیر کولنگ سسٹم چیک کیے بغیر کس طرح پرواز کی اجازت مل گئی؟ کیا نجی کمپنیاں بھی پی آئی اے کی تقلید کریں گی۔ کیا اس ایئرلائن کو مسافروں کو ایک طریقہ کا ہرجانہ ادا نہیں کرنا چاہیے؟ ہاں اگر برطانیہ امریکا ہوتا تو یہ ممکن تھا۔ مگر یہاں تو آئے دن حادثات ہوتے ہیں کبھی مارگلہ کی پہاڑیوں میں گر جانے والی فلائٹ کا بلیک باکس کا راز یوں منظر عام پہ نہیں آتا کہ بات کھل گئی تو کیا ہو گا؟ جب کہ حادثے کی اصل وجہ اب لوگ جان گئے ہیں۔ لیکن چونکہ پائلٹ مر گیا اس لیے وہ حقائق بھی ہمیشہ کے لیے چھپ گئے۔

میں نے C.A.A کو ایک ای میل بھیجی ہے اور تمام واقعہ لکھ دیا ہے یہ ای میل 3 اکتوبر کو بھیجی ہے۔ ایئرکنڈیشنر بند ہونے سے جو تکلیف میں نے سہی ہے اس میں آج جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں تب تھوڑی سی کمی ہوئی ہے۔ لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ایک انسان کا احتجاج بھی لوگوں کو زبان اور حوصلہ دے دیتا ہے۔ بالکل طاہر القادری اور عمران خان کی طرح ۔ ہم سب کی بھی ذمے داری ہے کہ زیادتی کو چپ چاپ نہ سہو ۔ سراپا احتجاج بن جاؤ تا کہ کوئی زیادتی نہ کر سکے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔