سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا

سعد اللہ جان برق  ہفتہ 11 اکتوبر 2014
barq@email.com

[email protected]

اب یہ تو یاد نہیں کہ وہ کس جماعت کی کتاب تھی لیکن اتنا یقین ہے کہ پرائمری کی تیسری یا چوتھی جماعت کے نصاب میں شامل تھی اس میں کسی شاعر نے اپنی قوم کا رونا رویا تھا شاعر کا نام بھی نہیں لکھا تھا لیکن اس نظم کا آخری شعر ذہن میں ایسا چپکا ہوا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے شعر اچھل کر آنکھوں میں دھواں بھر دیتا ہے، پشتو کا شعر تھا جس کا ترجمہ پورے تاثر کے ساتھ کرنا ممکن نہیں ہے کہ پھر بھی بات یہ کہی گئی تھی کہ ’’دوسرے‘‘ کسی شاہین کی طرح نیلے آسمان میں پروازیں کر رہے ہیں اور ’’تم‘‘ پالتو مرغ کی طرح کوڑے کے ڈھیر پر گزارہ کر رہے ہو۔

جس تازہ ترین واقعے سے یہ شعر یاد آیا وہ گزشتہ کچھ دنوں میں ہونے والے وہ واقعات ہیں۔ ایک تو جب انقلاب برپا کرنے اور نیا پاکستان تعمیر کرنے کے لیے اپنی عزت و توقیر بڑھانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے تھے تو چین کے صدر نے تحفے تحائف سے لدپھند کر پڑوسی ملک میں ورود کیا اور سانتا کلاز کی طرح اتنے تحائف دیے کہ پڑوسی لوگ دھینہ ہو گئے اور دھنوان بھی حالانکہ اس سے کچھ پہلے وہ ایک قطعی مخالف ملک جاپان سے بھی لدا پھندا آیا تھا اور اس کے بعد جب امریکا میں پدھارے تو سارا امریکا ان کے گن گا رہا تھا ۔

حالانکہ ہمارے وزیر اعظم بھی وہاں گئے تھے اور انھوں نے کشمیر پر بول کر کچھ نہ کچھ اپنی لاج رکھ لی۔ بولنے سننے کا مظاہرہ اسلام آباد میں ہو رہا تھا وہ تو خوش ہو رہے تھے کہ ہم نے نواز شریف کو کیا بے توقیر کر کے بھیجا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ وہ جو دورے پر گیا تھا وہ پاکستان کا وزیر اعظم تھا، جب کہ نریندر مودی ایک بہت ہی لمبا ’’طرہ‘‘ لہراتے ہوئے گیا تھا، مریخ پر پہنچنے کی پہلی اور ارزاں ترین مہم کی کامیابی کا طرہ ۔۔۔ صرف 74 بلین کے خرچے سے سرانجام دیا نتیجہ میں اسے سب سے اونچے سنگھاسن پر جگہ بھی ملی اور دوسرے ناکام ممالک اب اس کے سامنے زانوئے ادب تہہ کر کے گرو کھشنا دینے میں بخل سے کام نہیں لیں گے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے مقامات تک ہماری پہنچ نہیں ہے ورنہ ہم متذکرہ بالا شعر پڑھتے بلکہ نیویارک میں نواز شریف کو بھی سناتے کہ ’’دوسرے شاہین بن بن کر نیلے آسمان میں پرواز کر رہے ہیں اور تم ۔۔۔۔۔۔‘‘ آگے خود ہی سمجھ لیجیے ۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ اس سے کوئی فرق پڑھنے والا نہیں کیونکہ پاکستانی قوم اب نرگسیت کے اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں علاج ممکن نہیں رہتا، چنانچہ اس صورت حال کی توضیح و تشریح بلکہ تاویل کے لیے ایک سے ایک بڑا دانشور اور علامہ پڑا ہوا ہے اس لیے اپنے کسی قصور یا کوتاہی کی بجائے وہ محض مخصوص قسم کے اقوال زرین اور ڈائیلاگ سنائی دینے لگیں گے کہ یہ چین والے جاپان والے امریکا والے سب کے سب ’’مسلمانوں‘‘ کے دشمن ہوتے ہیں، اٹھاسٹھ سال سے چلتا ہوا مقبول عام ڈائیلاگ تو بہرحال دہرایا جائے گا کہ یہ کافر لوگ… ہم خدا کے لاڈلے مسلمانوں کے ازلی و ابدی دشمن ہیں اور دنیا بھر کے سارے کفار اور یہود و ہنود مسلمانوں اور پھر خصوصاً مسلمانوں کے ’’قلعہ خاص‘‘ پاکستان کے خلاف ایک ہیں بظاہر جو دوست نظر آتے ہیں وہ بھی اصل میں دشمن ہیں کیونکہ خدا نے مسلمانوں کو اس دنیا کا وارث بنایا ہوا ہے اور اس کرہ ارض بلکہ پوری کائنات پر حکمرانی کے لیے چنا ہے اس لیے یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ایکا کیے ہوئے ہیں

عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب لولاک نہیں ہے

چنانچہ ان کفار اور یہود و ہنود لوگوں کو مسلمان اور پھر خاص طور پر مسلمانوں میں بھی خاص الخاص پاکستانی ایک آنکھ نہیں بھاتے اور ان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کے تحت سازشیں کرتے رہتے ہیں، لیکن کوئی بات نہیں، خدا نے اس دنیا کو ’’سیدھا‘‘ کرنے کا کام مسلمانوں کو یونہی تفویض نہیں کیا ہوا ہے ان میں ’’گن‘‘ ہی اتنے ہیں کہ دنیا بلکہ کائنات پر حکمرانی کرنے کے حق دار ہیں مثلاً مسلمان نیک ہوتے ہیں پرہیز گار ہوتے ہیں حرام کو ہاتھ تک نہیں لگاتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ اتنی محبت اور اخوت رکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو بروقت جنت کا راستہ دکھاتے ہیں بلکہ جب بھی موقع ملتا ہے جنت کو روانہ بھی کرتے رہتے ہیں، ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ خود بھلے ہی پیچھے رہ جائے لیکن دوسرے بھائی کو جلد از جلد جنت نشین کر دے، پہلے آپ پہلے آپ کی اس کوشش کو آپ پاکستان کے ہر گلی کوچے میں بچشم خود مشاہدہ کر سکتے ہیں

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
بزم حق باطل ہو تو فولاد ہے مومن

بلکہ اگر بات کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھنا ہو تو اسکولوں کی کاپیوں تک پر ان کا منشور لکھا ہوا ہے کہ

لب پہ آتی ہے دنیا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ہو میرا کام غریبوں کی مرمت کرنا

اور پھر بھی کچھ کمی رہ گئی تو محترمہ ملکہ ترنم کی زبان سے اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا ۔۔۔۔ بھی سن سکتے ہیں، کہ

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
قاری نظر آتاہے حقیقت میں ہے قرآن
ثبوت کے لیے اسلام آباد کی سیر کر سکتے ہیں

اور پھر مریخ پر پہنچنا کیا مشکل ہے جس پر یہ بنیے لوگ اتنا اترا رہے ہیں اور دنیا بھر کے یہود و ہنود واہ وا کر رہے ہیں اس قسم کے فضول کام تو ہم کرنا نہیں چاہتے، ورنہ ستاروں پر کمند ڈالنا تو ہمارا خاندانی پیشہ ہے، یہ کافر اور یہود و ہنود جو رقومات ایسے فضول کاموں پر ضایع کرتے ہیں وہ ہم اپنے یہاں انتہائی اہم کاموں پر صرف کرتے ہیں، انکم سپورٹ اور زکوٰۃ وغیرہ کے مد میں ہم نے جتنی رقومات صرف کی ہیں ان سے ہم مریخ تو کیا ’’تاریخ‘‘ میں بھی پہنچ سکتے ہیں لیکن فضولیات میں ہم پڑتے ہی نہیں ۔۔۔ اور یہ کافر لوگ ایسے ہی فضول کاموں کو پسند کرتے ہیں اور فضول کام کرنے والوں کو بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔