پاکستان براستہ افغانستان بجلی لے گا

ایڈیٹوریل  اتوار 12 اکتوبر 2014
افغانستان ایسا ہمسایہ ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فوٹو فائل

افغانستان ایسا ہمسایہ ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فوٹو فائل

پاکستان اور افغانستان نے ہفتے کو ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت وسطی ایشیا سے جنوبی ایشیا تک پہنچائی جانے والی بجلی کی راہداری فیس طے کر لی گئی ہے۔ دونوں فریقین نے 1.25 سینٹ فی کلوواٹ کے نرخ پر اتفاق کر لیا ہے حالانکہ افغانستان نے ابتدائی طور پر 2.5 سینٹ فی فیس کا تقاضا کیا تھا۔ اس سمجھوتے میں کرغیزستان، تاجکستان، افغانستان اور پاکستان 1,300 میگاواٹ بجلی کی قابل بھروسہ علاقائی تجارت کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جو وسطی ایشیا جنوبی ایشیا بجلی کی ترسیل اور تجارتی منصوبے کے تحت فراہم کی جائے گی۔

واضح رہے یہ وہی منصوبہ ہے جو امریکا نے پاکستان کے ایران سے قدرتی گیس اور بجلی خریدنے کے ارادے کے پیش نظر متبادل کے طور پر تجویز کیا تھا۔ امریکا ایران کو بین الاقوامی تجارت سے باہر رکھنے کی کوشش کی وجہ سے پاک ایران تجارتی تعاون کے خلاف تھا حالانکہ ایران کے ترکی کے ساتھ تجارتی تعلق میں امریکا کوئی رخنہ پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ امریکا نے پاکستان کے لیے وسطی ایشیا کے انتہائی طویل اور دشوار گزار متبادل کی جو تجویز پیش کی تھی وہ بظاہر قابل عمل نہیں لگتی تھی تاہم اب پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پاک افغان سمجھوتے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی ٹرانزٹ فیس پر اتفاق کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ اس منصوبے پر تیز رفتاری کے ساتھ پیشرفت ممکن ہوسکے گی۔

افغانستان کے وزیر خزانہ عمر زخیل وال نے کہا کہ ہم ’’سی اے ایس اے 1000 ویژن‘‘ کے منصوبے پر پیشرفت کے لیے تیار ہیں اور اپنے ملکوں اور خطے کے لیے توانائی اور تجارت کے منصوبوں کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے کام کا آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خزانہ نے واشنگٹن میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مذکورہ سمجھوتے پر دستخط کیے۔ سی اے ایس اے (یعنی سینٹرل ایشیا ساوتھ ایشیا) 1000 منصوبے کے تحت 1200 کلو میٹر سے زاید فاصلے کے لیے بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں بچھائی جائیں گی تا کہ تاجکستان اور کرغیز ری پبلک سے افغانستان اور پاکستان کے لیے بجلی حاصل کی جاسکے۔

گزشتہ جون میں پاکستان اور تاجکستان میں اس معاملے پر بات ہوئی تھی جس میں بعض بنیادی رکاوٹوں کو دور کر لیا گیا تھا اور فی یونٹ پانچ فیصد قیمت پر اتفاق ہو گیا تھا۔ چار ممالک کو شریک کرنے والا یہ منصوبہ یقیناً بے حد پیچیدہ ہے جس کی نگرانی کے لیے ایک بین الحکومتی کونسل قائم کی جائے گی۔ مارچ 2014ء میں ورلڈ بینک گروپ نے اس منصوبے کے لیے سرمایہ کاری کرنے اور انجینئرنگ ڈیزائن کی منظوری دیدی تھی۔ یہ منصوبہ موجودہ پاور جنریشن اسٹیشنوں کی توسیع کر کے مکمل کیا جائے گا۔ ورلڈ بینک پچپن کروڑ ڈالر کے اس منصوبے کے لیے بارہ کروڑ ڈالر کا قرضہ دیگا جس سے ٹرانسمیشن لائنیں نصب کی جائیں گی۔

یہ منصوبہ اس اعتبار سے اچھا لگتا ہے کہ پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے بجلی خرید سکے گا لیکن عملاً یہ خاصا مشکل منصوبہ ہے کہ افغانستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے، اس ملک کے پاکستان کے ساتھ کبھی اچھے اور دوستانہ تعلقات نہیں رہے۔ افغانستان ایسا ہمسایہ ہے جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ادھر تاجکستان کی صورت حال بھی کوئی مثال نہیں ہے، اتنی طویل ٹرانسمیشن لائنوں کی حفاظت اور مرمت بھی خاصا جان جوکھم کا کام ہو گا‘ دوسرا یہ ٹرانسمیشن لائن ہمارے قبائلی علاقوں سے گزرے گی جہاں امن و امان کی صورت حال زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔

یہ مشکلات بھی یقیناً چاروں ملکوں کی حکومتوں کے پیش نظر ہوں گی لیکن پاکستان کو اپنے مفادات کو سامنے رکھنا ہوگا، توانائی کے اس بڑے ذریعے سے وطن عزیز افغانستان، تاجکستان اور کرغیزستان کا مرہون منت ہوگا، اصولی طور پر توانائی جیسے اہم شعبے میں وطن عزیز کو خود کفیل ہونا چاہیے۔ بہرحال حکومت نے اگر توانائی کے لیے وسط ایشیا اور افغانستان سے رجوع کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر جلد از جلد کام شروع ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں تا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اس شعبے میں خود کفیل ہو سکے اور اسے دوسرے ملکوں کا مرہون منت نہ ہونا پڑے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔