مسئلہ کشمیر اور بھارت

تنویر قیصر شاہد  پير 13 اکتوبر 2014
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران بھارتی فوجوں نے پاک بھارت عالمی سرحد اور ایل او سی کے اِس پار گولہ باری کر کے ایک درجن سے زائد پاکستانی شہریوں کو شہید کر دیا ہے۔ بھارتی افواج نے اس بہیمانہ اقدام اور خونریزی کا آغاز عین اس وقت کیا جب پورا پاکستان عیدالاضحی کی نماز اور سنت ابراہیمی ادا کرنے کے لیے تیاریاں کر رہا تھا۔ گویا نریندر مودی کی قیادت میں بروئے کار آنے والا آج کا بھارت اور اس کی فوجیں عالمی اخلاقی اقدار بھی کھو چکی ہیں۔

کیا بھارت کو اس جارحیت کی اشیرواد امریکا سے ملی ہے کہ جونہی نریندر مودی امریکی صدر سے جپھیاں ڈال کر واپس بھارت پہنچے، پاکستان کے خلاف اُن کی زبان بھی تلخ تر ہو گئی اور پاک بھارت بارڈر پر اُس نے پاکستان کے خلاف اپنی توپوں کے منہ بھی کھول دیے۔ پاکستان کے خلاف ان حملوں کے دو رخ ہیں: ایک یہ کہ ان کا آغاز اس وقت ہوا ہے جب شمالی وزیرستان میں افواجِ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف 90 فیصد کامیاب ہو رہی ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ امریکا نے بھی شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔

یہ صورتحال ہماری سیکیورٹی فورسز اور فاٹا عوام کو کسی بھی طرح قابلِ قبول نہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ آزما ہماری سیکیورٹی فورسز کی کامیابیاں بھارت اور امریکا کو پسند نہیں؟ بھارت نے غالباً اسی لیے پاکستان کے خلاف دوسرا محاذ کھول کر افواجِ پاکستان کی توجہ تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے خلاف کوئی اشتعال انگیزی بھی نہ کی گئی تھی۔ گویا وہ امریکی وعدہ بھی کھوکھلا اور دھوکہ ثابت ہوا ہے جس میں پاکستان سے بار بار کہا جاتا رہا ہے کہ آپ مغربی سرحدوں پر چھپے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں، ہم پاکستان کی مشرقی سرحدوں کے تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے 26 ستمبر 2014ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس خوش اسلوبی سے مسئلہ کشمیر بیان کیا، یہ بیان بھارت کے سینے میں خنجر کی طرح لگا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم کا مقبوضہ کشمیر کے بارے میں یہ بیان صرف 19 سطروں پر مشتمل تھا لیکن یہ اُنیس سطریں بھی بھارتی وزیر اعظم، بھارتی میڈیا اور بھارتی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہو رہیں۔ ایک معروف بھارتی اخبار نویس، جن کے کالم پاکستانی اخبارات میں بھی شایع ہوتے رہتے ہیں، نے طنز کرتے ہوئے اپنے حالیہ آرٹیکل میں لکھا کہ نواز شریف نے جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کے بارے میں جو انیس سطری بیان دیا، یہ دراصل پاکستانی فوج کے دباؤ کا اثر تھا۔

چہ خوب!! واقعہ یہ ہے کہ بھارت کی نئی حکومت مسئلہ کشمیر کو دبانے اور سرد خانے میں ڈالنے کی دانستہ کوششیں کر رہی ہے۔ اسی مقصد کے تحت بھارتی وزیر اعظم کے اشارے پر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اگست 2014ء میں پاک بھارت سیکریٹری خارجہ لیول پر ہونے والے مذاکرات منسوخ کر دیے۔ اس کے لیے یہ عذر لنگ تراشا گیا کہ دلّی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے کشمیری رہنمائوں سے ملاقاتیں کیوں کی ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ ان واقعات و سانحات پر نہ ہمارے حکمرانوں نے کوئی آواز بلند کی اور نہ ہی پاک بھارت سرحد پر بھارتی فوجوں کی گولہ باری سے شہید ہونے والے پاکستانیوں کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم کے خلاف احتجاج کیا۔ ادھر وزیر اعظم کے مشیرِ امورِ خارجہ جناب سرتاج عزیز نے بھارتی صحافی برکھادت سے گفتگو کرتے ہوئے مبینہ طور پر کہہ دیا کہ دلی میں ہمارے سفیر کو کشمیری حریت پسند قیادت سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی، ملاقات کا یہ وقت مناسب نہیں تھا۔ سب حیران ہیں کہ سرتاج عزیز ایسا ہمہ کار سیاستدان ایسا کیسے کہہ گئے۔

بھارتی الیکٹرانک میڈیا کے وہ اینکر پرسنز جو پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں شہرت رکھتے ہیں، ان میں ایک 43 سالہ ’’محترمہ‘‘ سرِ فہرست قرار دی جا سکتی ہے۔  1999ء میں اسے اس وقت شہرت ملنا شروع ہوئی جب اس نے کارگل جنگ کے حوالے سے افواجِ پاکستان کے خلاف نہایت غلیظ اور قابلِ اعتراض اسلوب میں منفی پروپیگنڈے کا آغاز کیا۔ ظاہر ہے اس کی بیان کردہ بے بنیاد داستانوں میں بھارتی افواج، را اور بھارتی حکومت کا مرکزی کردار تھا۔ اور جب 2008ء میں ممبئی کا سانحہ پیش آیا تھا، تو بھی پاکستان کے خلاف اس ’’محترمہ‘‘ کی زبان خاصی غیر محتاط ہو گئی تھی۔

ممبئی سانحہ کے حوالے سے پاکستان کے خلاف اس نے اتنی شرانگیزی پھیلائی کہ خود بھارتی تبصرہ نگاروں نے کہا کہ اس کی وجہ سے آگ و اسلحہ میں گھرے تاج محل ہوٹل میں مقیم بہت سے غیر ملکیوں کی جانیں خطرے میں پڑ گئیں۔ کہتے ہیں کہ کسی کی کردار کشی کرتے کرتے بعض اوقات انسان خود بھی اپنے ہی بچھائے گئے جال میں پھنس جاتا ہے۔ ان محترمہ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ 2010ء میں وہ ایک زبردست سکینڈل میں پھنس گئی۔ اگرچہ اس نے اس سکینڈل کو بے بنیاد اور لایعنی قرار دیا اور کسی قسم کی ڈیل کروانے سے بھی انکار کیا۔

ٹی وی کی اسکرین پر لوگوں کو شرمندہ کرنے والی یہ خاتون خود ہی سارے بھارت میں شرمندہ ہو گئی۔ بعد ازاں اس نے خفیہ ٹیپوں کی ریلیز کے پس منظر میں یہ بھی کہا کہ مجھے احتیاط کرنی چاہیے تھی۔ صحافت کی دنیا میں وہ اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ اس کی ماں بھی اخبار نویس تھی جس نے 65ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران محاذِ جنگ پر جا کر رپورٹنگ کی اور پاک فوج کے خلاف جعلی جنگی کہانیاں گھڑ کر کذب و ریا کا ایک طومار کھڑا کیا۔ ان محترمہ نے دو بار شادیاں کیں۔ دونوں شوہر مبینہ طور پر کشمیری مسلمان تھے۔ مگر اس نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ان دونوں شادیوں سے انکار کرتی ہے۔

ایک بھارتی صحافی، اجے سنگھ، نے اس کی دونوں شادیوں کے بارے میں دلچسپ اور انکشاف خیز کہانیاں لکھی ہیں۔ یہ پاکستان مخالف بھارتی صحافی اور اینکر پرسن ہمارے وزیر اعظم محمد نواز شریف کا دفاع کرتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر ستمبر 2013ء میں میاں صاحب جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے گئے تو ان سے ایک جملہ یوں منسوب کر دیا گیا: ’’بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ایک دیہاتی عورت کی طرح ہیں۔‘‘ اس جملے سے ظاہر ہے بھارت ناراض ہوا، حالانکہ میاں صاحب نے بھی تردید کر دی تھی لیکن بھارت بھر میں میاں صاحب کا اصل دفاع انھی محترمہ نے کیا۔ اس نے قطعی الفاظ میں کہا: ’’نہیں، نواز شریف نے یہ جملہ نہیں کہا۔‘‘ اور پھر اس نے بھارتی NDTV کی ویب سائیٹ کے لیے بھی ایک آرٹیکل لکھا جس کے چند الفاظ یوں تھے: ’’میں نے خود پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے نیویارک میں ملاقات کی تو انھوں نے آن دی ریکارڈ من موہن سنگھ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھے انسان ہیں۔‘‘

پاک بھارت عالمی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے اِس پار بھارتی آتش و آہن کی بارش میں پاکستان کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ ہمارے لاتعداد مویشی بھی اس کا ہدف بنے ہیں۔ عالمی برادری بھی مشوّش ہے لیکن ہماری اعلیٰ ترین سیاسی قیادت اسے نظر انداز کر رہی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم کی قیادت میں ایک اجلاس تو ہوا ہے لیکن جاری کیے جانے والے احتجاجی بیان میں دم خم محسوس نہیں ہوا۔

بھیڑیے کے سامنے ایک منمناتی ہوئی آواز کے مانند۔ ایسے پیش منظر میں ایک بھارتی صحافی نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے ایک ذمے دار کے منہ سے الفاظ نکلوا کر پاکستان کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ طُرفہ یہ کہ رواں لمحوں میں جب ہمارے دشمن ہمیں سفارتی محاذ پر چاروں اطراف سے گھیرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، ان کا دندان شکن جواب دینے کے لیے ہمارا کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔