اندھیر نگری

وجاہت علی عباسی  پير 13 اکتوبر 2014
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پچھلے کچھ سال سے دنیا بھر میں سوشل نیٹ ورکنگ کا رجحان بڑھ گیا ہے یعنی آپ فیس بک، ٹوئیٹر جیسی ویب سائٹس پر اپنا پروفائل بناتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے دوستوں، رشتے داروں اور جاننے والوں سے بات چیت کرتے ہیں۔

آپ کا پروفائل دنیا میں کہیں سے بھی صرف آپ کے نام سے سرچ کیا جاسکتا ہے۔ وہ سرچ جو اب دنیا بھر کے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔

فیس بک کمال کی جگہ ہے، آپ اپنوں سے دور رہ کر بھی ان سے رابطے میں رہتے ہیں، وہ دوست جو برسوں پہلے بچھڑ گئے تھے آج فیس بک کی وجہ سے مل جاتے ہیں، ’’وہ میرا دوست جو اسکول میں میرے ساتھ تھا۔ اس کا نام سرچ کرتا ہوں شاید فیس بک پر مل جائے‘‘ اس سوچ سے ہم میں سے بیشتر لوگ کبھی نہ کبھی گزر رہے ہیں، یہ کمال ہے فیس بک کا کہ وہ دوست اکثر مل بھی جاتے ہیں، وہ فیس بک جس پر اس وقت ایک بلین سے زیادہ Users موجود ہیں لیکن یہی فیس بک جب غلط قسم کے لوگ اپنے استعمال میں لاتے ہیں تو یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔دنیا بھر میں جرائم پیشہ افراد، لوگوں کو سرچ کرکے ہراساں کر رہے ہیں، اگر آپ کو کسی کا پورا نام معلوم ہے تو اس کو فیس بک پر نہایت آسانی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے اور ان کے بارے میں بہت کچھ معلوم بھی کیا جاسکتا ہے۔

لوگ ویسے تو عام حالات میں اپنے گھر، دروازے، کھڑکیاں بند رکھتے ہیں، راتوں کو دو تین دفعہ دروازوں کے لاک چیک کرکے سوتے ہیں لیکن جب فیس بک کی بات آتی ہے تو ہم اپنی ساری انفارمیشن دنیا بھر کے سامنے کھول کر رکھ دینے سے نہیں ڈرتے۔

لوگوں کو لگتا ہے کہ فیس بک پر اپنے بارے میں پوسٹ کرنے سے کوئی نقصان نہیں اور یہیں لوگ غلطی کرتے ہیں۔ آج کے زمانے میں کسی کا پیچھا کرکے اس کے بارے میں معلوم کرنے کے بجائے کرمنل لوگ فیس بک جیسی ویب سائٹس کا سہارا لے رہے ہیں۔ ذرا سوچیے فیس بک پروفائل بناتے وقت آپ سے آپ کی عمر سے لے کر اسکول اور دفتر کے ایڈریس تک سب کچھ معلوم کیا جاتا ہے، ساتھ ہی آپ کے دوستوں اور جاننے والوں کے ناموں کی لسٹ دنیا بھر کے سامنے ہوتی ہے، اپنے گھر کے اندر سے لی گئی تصویروں سے لے کر شہر کے باہر سے تفریح کی پل پل کی خبریں اور تصویریں پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔

فیس بک پر پچھلے کچھ سال سے اپنی لوکیشن بھی ٹیگ کرنے کا رجحان ہوگیا ہے، کوئی قربانی کے لیے بکرا لینے گیا ہو یا مری گھومنے، ہر کچھ دیر بعد آپ کو معلوم ہوسکتا ہے، وہ انفارمیشن جو فیس بک پر موجود کوئی بھی شخص دیکھ سکتا ہے۔پرائیویسی کے مسئلے کو لے کر فیس بک پر کئی انگلیاں بھی اٹھی ہیں، جس کے بعد انھوں نے اپنی کئی سیکیورٹیز بڑھا دی ہیں جیسے آپ اپنے اکاؤنٹ میں ہر چیز پر سیکیورٹی ڈال سکتے ہیں یعنی کون آپ کا اسٹیٹس پڑھ سکتا ہے یا آپ کی تصویر دیکھ سکتا ہے لیکن ان احتیاط کے باوجود لوگوں نے طریقے نکال لیے ہیں جنھیں استعمال کرکے وہ جو انفارمیشن چاہتے ہیں، حاصل کرلیتے ہیں۔

فیس بک سے متعلق جرائم کو بڑھتا دیکھ کر کئی بڑے ملکوں میں قوانین بنائے گئے ہیں جہاں کوئی کسی کو فیس بک پر ہراساں نہیں کرسکتا، 2007 میں امریکا میں Dylan’s کو اپنی ایکس وائف کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے پر جیل ہوگئی تھی۔Phobe Princess نامی آئرلینڈ کی لڑکی نے فیس بک پر کئی کلاس فیلوز کے مستقل تنگ کرنے پر خودکشی کرلی تھی اور پھر اس کی کلاس کے سات طلبا کو جیل بھی ہوئی تھی جس کے بعد یورپین سائبر کرائم یونٹ فیس بک پر باقاعدہ Bullying کی مانیٹرنگ کرتی ہے۔

فیس بک پر فرینڈ بناکر پہلے لوگ سامنے والے کو Comfortable کرتے ہیں اس کے بعد ان سے ملنے کو کہتے ہیں اور زبردستی کرتے ہیں۔ اس وقت امریکا میں سیکڑوں ایسے کیسز ہیں جن میں پولیس ان مجرموں کو ڈھونڈ رہی ہے جو فیس بک پر لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں، انھیں کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچاتے ہیں یا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں 32 ملین سے زیادہ انٹرنیٹ یوزرز ہیں جن میں سے 14 ملین فیس بک اور دو ملین ٹوئیٹر پر ایکٹیو ہیں، جن میں سے آدھی تعداد خواتین کی ہے اور ان خواتین پر Abuse کا سلسلہ مغرب سے زیادہ نظر آتا ہے۔

پاکستان میں فیس بک، ٹوئیٹر جیسی سائٹس پر ان چیزوں کو روکنے کا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے اسی لیے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے، پاکستان میں سائبر کرائم یونٹ موجود تو ہے مگر صرف نام کا۔

کچھ دن پہلے ایک آرگنائزیشن Bytes فار آل نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ پاکستان میں کئی جرائم ایسے ہوئے جو انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں تھے اس سال صرف صوبہ پنجاب میں 170 ایسی شکایات درج ہوئی ہیں جو سائبر کرائم سے متعلق تھیں لیکن ایک بھی کیس ایسا نہیں تھا جس میں کسی کو سزا ہوئی ہو، کیس فائل کرنیوالوں کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنا کیس ہی واپس لے لیتے ہیں۔

رپورٹ میں ایک کیس کا ذکر کیا گیا ہے جس میں ایک جانی پہچانی ہیومن رائٹ ڈیفنڈر اور ان کے شوہر پر فائرنگ کی گئی، اس سے پہلے ان کو باقاعدہ انٹرنیٹ کے ذریعے دھمکیاں دی جارہی تھیں ساتھ ہی ان کی اور ان کی بیٹی کی تصاویر، فون نمبرز، فیس بک پیج بناکر ڈالے گئے تھے، شکایت کرنے پر ایک پیج تو ہٹالیا گیا لیکن اس کے بعد اس طرح کے مزید کئی پیج سامنے آگئے۔رپورٹ کے مطابق ایک پاکستانی خاتون کو اگر فیس بک پر Abuse کیا جاتا ہے تو شکایت کرنے پر اسے انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

رپورٹ میں ایسے بھی کیسز کے بارے میں لکھا ہے جس میں ایک لڑکی کو کچھ لڑکوں نے کئی مہینوں تک دھمکیاں دے کر ملنے پر مجبور کیا اور بار بار یہ کہتے رہے کہ اس کی چھپ چھپ کر کھینچی گئی تصاویر کو فیس بک پر پوسٹ کردیں گے۔فیس بک استعمال کریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ یہ اندھیر نگری ہے جہاں کوئی بھی شخص آپ کی کوئی بھی انفارمیشن دیکھ سکتا ہے اور جیسے چاہے استعمال کرسکتا ہے، کوئی بھی ایسی چیز فیس بک پر نہ ڈالیں جس کو آپ سڑک پر موجود ہزاروں انجان لوگوں سے شیئر کرنے میں Comfortable محسوس نہ کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔