ورلڈ کپ میں قیادت کے لئے بورڈ نے فیصلہ مصباح پر چھوڑدیا

اے ایف پی / اسپورٹس ڈیسک  پير 13 اکتوبر 2014
آسٹریلیا کیخلاف تیسرے ون ڈے میں باہر بیٹھنے کا فیصلہ ٹیسٹ کپتان نے خود کیا، شہر یار۔ فوٹو: محمد ثاقب/یکسپریس/فائل

آسٹریلیا کیخلاف تیسرے ون ڈے میں باہر بیٹھنے کا فیصلہ ٹیسٹ کپتان نے خود کیا، شہر یار۔ فوٹو: محمد ثاقب/یکسپریس/فائل

ابوظبی: پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان نے آئندہ برس ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ مصباح پر ہی چھوڑ دیا۔

میڈیا سے بات کرتے ہوئے تجربہ کار سفارتکار شہریارخان نے کہا کہ ہم میگا ایونٹ میں بدستورمصباح کو کپتان برقرار رکھے جانے کے حامی ہیں، میں نے مصباح کو بتایا ہے کہ ہم نے آپ کو آئندہ برس ورلڈ کپ تک کیلیے قومی ٹیم کا کپتان مقرر کیا ہے، لیکن اب فیصلے پر ہم پر تنقید ہورہی ہے اور جب وہ رنز نہیں کر پارہے تو اس میں شدت آگئی ہے، لیکن ہم بدستور ان کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہی ٹیم کی قیادت کریں گے، لیکن اگر وہ سمجھتے ہیں کہ قیادت مطلوبہ نتائج نہیں دے پارہی تو پھر فیصلہ ان پر ہے، ہم نے انھیں بتایا ہے کہ ہم انھیں اس کیلیے دبائو نہیں دے رہے، لیکن کوچ وقار یونس ، منیجر اور چیف سلیکٹر معین اور میری بھی رائے یہی ہے۔

شہریار خان نے مزید کہا کہ مصباح حالات کو بہترکرنے کیلیے پرعزم ہیں، اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو واپس آجائیں گے لیکن ہمیں ہنگامی پلان کے تحت متبادل کپتان کے نام پر بھی غور کرنا ہوگا، اتوار کو کینگروز کیخلاف تیسرے ون ڈے میں قومی ٹیم کی باگ ڈور سنبھالنے والے شاہد آفریدی ورلڈ کپ میں قیادت کیلیے ٹاپ امیدوار ہیں، شہریار خان نے یہ بھی واضح کیا کہ اتوار کے میچ میں باہر بیٹھنے کا فیصلہ خالصتاً مصباح کا اپنا ہے۔

انھوں نے موجودہ صورتحال میں خود کو دبائو سے باہر لانے کیلیے آرام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ٹیم مینجمنٹ نے ان کے فیصلے سے اتفاق کیا ہے، کسی نے ان پر جبر نہیں کیا ہے، وہ خود سمجھتے ہیں کہ یہ ان کیلیے باہر بیٹھنا کا مناسب وقت ہے، تاکہ وہ ٹیسٹ کیلیے اپنا اعتماد بحال کرسکیں، مصباح نے کہا کہ اگر ان کی فارم واپس آگئی تو وہ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی قیادت کریں گے،مصباح نے مسلسل 75 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی، یہ پہلا موقع ہے وہ کسی ون ڈے انٹرنیشنل میں شریک نہیں ہیں، اس عرصے میں پاکستانی ٹیم نے 40 ون ڈے مقابلوںمیں کامیابیاں حاصل کیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔