بین الاقوامی سینما اور پاکستانی اداکار، متفرق ممالک(آخری حصہ)

خرم سہیل  پير 13 اکتوبر 2014
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

گزشتہ اقساط میں آپ نے پڑھا، کس طرح پاکستانی فنکار کئی دہائیوں سے بین الاقوامی سینما پر چھائے رہے ہیں ، مگر دنیا کے کئی ممالک ایسے بھی ہیں، جن کی فلمی صنعت سے ہم لوگ ذرا کم واقف ہیں، ان کی فلموں میں بھی پاکستانی فنکاروں نے کام کیا ۔ پاکستانی اداکاروں کے اس پہلو پر پہلے کبھی لکھا نہیں گیا۔ ہمارے ہاں ساری توجہ بھارت تک رہتی ہے ، بہت تیر ماریں تو ہالی ووڈ تک بات چلی جاتی ہے، آگے کی کہانی ادھوری ہے ۔

میں نے اس تحقیق کو 4 اقساط میں پیش کیا، آج اس سلسلے کی آخری قسط ہے۔ یہاں جن فلموں کا تذکرہ مقصود ہے، وہ دنیا کی مختلف زبانوں میں بنائی گئیں، پھر انھیں ڈب کرکے مزید کئی ممالک میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا، ان ممالک میں جرمنی، اٹلی، فرانس، سوئیڈن، اسپین، فن لینڈ، ارجنٹائن، برازیل، یونا، ہنگری، ڈنمارک، پرتگال، ترکی، جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا، افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک شامل ہیں ۔

یہاں جس پہلی فلم کا تذکرہ کررہا ہوں ، اس کے متعلق جان کر حیرت ہوئی اس سے پہلے اس پر پاکستان میں کیوں بات نہیں کی گئی ؟ یہ جرمن زبان میں بنائی گئی ایک فلم تھی، جس کا جرمن میں ٹائٹل ’’Kommissar X jagt die roten Tiger‘‘ اور انگریزی میں ’’FBI Operation Pakistan ‘‘ تھا ۔ اردو میں اس کا نام ’’ٹائیگر گینگ‘‘ رکھا گیا۔ اس کے ہدایت کار ’’ہیرالڈ رینل Harald Reinl‘‘ تھے ۔ انھوں نے اس فلم کو یورپ کے 6 ممالک میں ریلیز کیا ۔ 1971 میں مغربی جرمنی، 1972 میں اٹلی، 1973 میں فرانس اور سوئیڈن، 1974 میں اسپین اور فن لینڈ میں اسے ریلیز کیا گیا ۔ پاکستان میں اس فلم کو 1974 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ۔

فلم کا مرکزی خیال ’’ایم ویگنرMWegener‘‘ کے ناول سے اخذ کیا گیا ، اسکرین پلے لکھنے والوں میں 3 جرمن فلم نگار شامل تھے۔ کاسٹ میں پاکستانی، اطالوی اور جرمن اداکار شامل تھے ۔ پاکستان سے محمد علی، زیبا، نشو، علی اعجاز، قوی خان اور ساقی شامل تھے۔ اٹلی سے ٹونی کینڈل اور جرمنی سے بریڈ حریث ، گیسیلہ ہان ، ارنسٹ فرٹیز فوربرینگر ، رائنر بیسیڈو ، نینوکوردا ، روبریٹومیثینا ، چارلس وکی فیلڈ ، میک جارجر فلینڈرز اور دیگر اداکار شریک تھے ۔ اگر اس فلم کو بنیاد بنایا جاتا تو پاکستانی یورپی ممالک کی فلمی صنعت تک بھی سہولت سے رسائی حاصل کرسکتے تھے ، مگر اس پہلو پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی، بلکہ اس فلم کو اس طرح بھلادیا گیا ، صرف اوکسفورڈ کی شایع کردہ مشتاق گزدر کی کتاب ’’پاکستانی فلمی صنعت کے 50 سال‘‘ میں 1974 میں ریلیز فلموں میں اس کا نام ایک اردو فلم کے طور پر شامل ہے، اس کے علاوہ کوئی احوال درج نہیں ہے۔

عالمی سطح کی اس فلم کی شوٹنگ تین ممالک میں کی گئی، جن میں افغانستان، پاکستان اور امریکا شامل ہیں۔ افغانستان میں اس کی شوٹنگ سرحدی علاقے کے پہاڑوں پر ہوئی، پاکستان میں پشاور اور لاہور میں مختلف مقامات اور امریکا میں اس کی عکس بندی نیویارک میں کی گئی ۔ یہ اتنے بڑے بینرکی فلم تھی کہ بیک وقت 4 پروڈکشن کمپنیاں مشترکہ طور پر اس میں کام کررہی تھیں ۔ اپنے وقت کی یہ ایک بڑے بینر کی ایسی فلم، جسے یورپ اور ایشیا سمیت پوری دنیا میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ۔

’’ٹائیگر گینگ‘‘ پاکستانی فلمی صنعت کا وہ پہلو ہے ، جو گمنامی کے ملبے تلے دب گیا ۔ شاید آج کے بعد اس کو یاد رکھا جاسکے ، راحت کاظمی ، انور مقصود اور راقم نے اس فلم پر آپس میں بات کی اور یہ تہیہ کیا ہے کہ ہم پاکستانی فلمی صنعت کے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر اس کا اصل پرنٹ تلاش کرکے پاکستان میں اس کی دوبارہ نمائش کو ممکن بنائیں گے ۔

راحت کاظمی کا کہنا ہے کہ ’’میری محمد علی صاحب سے اتنی ملاقاتیں رہیں، مگر انھوں نے بھی کبھی اس فلم کا ذکر نہیں کیا، ہم سب کے لیے یہ بہت بڑی خبر ہے۔‘‘ انور مقصود کے پاس یورپین فلموں کا بہت بڑا کلیکشن ہے، انھوں نے بھی اس فلم کے بارے میں حیرت کا اظہار کیا، لیکن میرے پاس شواہد دیکھ کر وہ یہ مان گئے اور کہنے لگے ’’یہ ایک ایسی فلم ہے، جس کی گمشدگی کا ہمیں پتا بھی نہ چل سکا۔‘‘

پاکستان کے مایہ ناز اداکار طلعت حسین نے بھی بین الاقوامی سینما میں کام کیا، مگر ان فلموں کے بارے میں بھی پاکستانی فلم بین بہت زیادہ نہیں جانتے ۔ یورپ میں ان کی سب سے مقبول نارویجن فلم ’’امپورٹ ایکسپورٹ Import-Export‘‘ ہے۔ 2005 کو ناروے میں بننے والی اس فلم میں طلعت حسین کے علاوہ آسیہ بیگم نے بھی کام کیا ۔ یہ فلم پاکستان اور ناروے کی ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں بنائی گئی ۔ یہ فلم ناروے کی زبان میں ہی بنائی گئی ۔ اسے یورپ میں ایک اور ملک ’’فن لینڈ‘‘ میں بھی ریلیز کیا گیا ، اس کے علاوہ انگریزی میں ڈب کرکے اسے عالمی سطح پر بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا ۔ اس فلم میں بہترین اداکاری کرنے پر طلعت حسین کو ناروے میں ’’بہترین معاون اداکار‘‘ کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔

1991 میں ایک فلم ’’کے ٹو K2‘‘ بنائی گئی ۔ برطانوی ہدایت کار کی بنائی گئی اس فلم میں تین ممالک امریکا، برطانیہ اور جاپان کا اشتراک تھا، ان ممالک کے اداکاروں نے بھی اس میں اداکاری کی ۔ دنیا کی دوسری عظیم چوٹی کو سر کرنے کی جدوجہد پر بنائی گئی اس فلم کو 11 ممالک میں ریلیز کیا گیا ۔ اس فلم میں پاکستان سے بھی کئی اداکاروں نے کام کیا ، جن میں سرفہرست اداکار جمال شاہ تھے ، جب کہ دیگر پاکستانی اداکاروں نے مختصر کردار ادا کیے ، ان میں بدیع الزماں، رجب شاہ، ابراہیم زاہد، علی خان، عبدالکریم، غلام عباس، اصغر خان، شبان، نذیر صابر اور شاہ جہاں شامل تھے ۔ دنیا بھر کے اخبارات میں اس فلم پر شاندار تبصرے ہوئے مگر باکس آفس پر اس فلم کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔

بین الاقوامی سینما میں فیچر فلموں کے علاوہ کچھ دستاویزی فلمیں بھی ہیں ، جن میں پاکستانی اداکاروں نے کام کیا یا پھر ان کا موضوع پاکستان تھا ۔ اس طرح کی فلمیں عموماً ٹیلی ویژن یا فلم فیسٹیولز میں ریلیز کی جاتی ہیں ۔ 2007 میں فرانسیسی ہدایت کار ’’پاسکل لمچے Pascale Lamche‘‘ کی بنائی ہوئی فلم ’’پاکستان زندہ باد‘‘ بھی ایسی ہی ایک فلم تھی ، جسے فرانسیسی زبان میں بناکر وہاں کے ٹی وی پر پیش کیا گیا ۔ یہ فلم نیدرلینڈ میں بھی ریلیز ہوئی ۔

2008 میں ہانگ کانگ میں بنائی گئی دستاویزی فلم ’’پاکستانی کی زونا‘‘ میں پاکستانی اداکار ناصر محمود نے کام کیا، جسے ہانگ کانگ میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا ، جہاں شاذ و نادر ہی کوئی پاکستانی فلم دکھائی جاتی ہے ۔ 2008 میں 2 جرمن ہدایت کاروں کی مشترکہ طور پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’’پاکستان، سپراینسیچی آئی ایم فیلس Pakistan-Spurensuche im Fels‘‘ کو جرمنی میں ہی نمائش کے لیے پیش کیا گیا ۔ جرمنی کی ایک اور ہدایت کارہ ’’مارٹن ون ہارٹ‘‘ نے ایک دستاویزی فلم ’’دی ریڈ صوفی The Red Sufi‘‘ بنائی، جسے انگریزی اور اردو زبانوں میں بنایا گیا ۔ کینیڈین ہدایت کار ’’گورڈن بورواش‘‘ کی بنائی ہوئی دستاویزی فلم ’’آئی وٹنس نمبر چھیاسٹھ Eye Witness No 66‘‘ کو کینیڈا کے سرکاری پروڈکشن ہاؤس نے بنایا ۔

بین الاقوامی سینما میں کئی دہائیوں سے پاکستانی اداکار اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کررہے ہیں ، اس کالم سیریز کے ذریعے ان کو خراج تحسین پیش کرنے کی ایک کوشش کی گئی ۔ اس کالم سیریز میں بہت سارے لوگوں کے نام مختصر جگہ کی وجہ سے شامل نہیں کیے گئے ، کیونکہ فی الحال میں اس سے زیادہ اس سلسلے کو طول دینا نہیں چاہتا تھا، لیکن فیس بک پر ایک دانشور نے اس بات کو تنازع بنالیا کہ انگریزی فلموں میں کام کرنے والے ایک اداکار کا ذکر میں نے کیوں نہیں کیا، جب کہ آپ اگر اس کالم سیریز کی پہلی قسط پڑھیں، تو اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ سیریز مختصر جائزہ ہے، نہ کہ ہر فرد کے بارے میں لکھا جائے، کالم کا فارمیٹ اس کا متقاضی بھی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔