نجات دہندہ

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  پير 13 اکتوبر 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

مسلم لیگ (ن) اپنے پانچ سالہ دور حکومت کی مدت کے دوسرے سال سے گزر رہی ہے، اس کے گزشتہ ڈیڑھ سال اپنی کارکردگی کے اعتبار سے بڑی تنقید کا شکار رہے ہیں، اور آج کل قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گی اور قبل از وقت انتخابات ہوجائیں گے اور وطن عزیز کی سیاست کا تاریخی پس منظر بھی یہی بتاتا ہے کہ ہمارے ملک میں (علاوہ سابقہ حکومت) اکثر منتخب جمہوری حکومتیں اپنا دور مکمل نہ کر پائیں اور کبھی کوئی ڈکٹیٹر قابض ہوگیا تو کبھی قبل از وقت انتخابات عمل میں آئے۔

تاہم یہ ایک جمہوری طرز عمل نہ تھا، ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر وہ حکومت جسے انتخابات کے ذریعے عوام خود منتخب کرے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرے تاکہ اس کی پوری مدت کی تمام تر کارکردگی عوام کے سامنے ہو اور پھر عوام اس کارکردگی کی روشنی میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔ ہر وہ حکومت جسے درمیان میں اپنی مدت سے قبل گرا دیا جاتا ہے وہ عوام کی نظر میں مظلوم بن جاتی ہے، چاہے وہ کتنی ہی بدعنوان یا کرپٹ کیوں نہ ہو۔ اور اس طرح اس پارٹی کو بھی جس کی حکومت گرادی جائے جواز فراہم ہوجاتا ہے کہ ہمیں پوری مدت نہیں ملی۔

اصل ترقیاتی و تعمیراتی کام تو ہمیں اپنی حکومت کے ان ہی برسوں میں کرنے تھے، ابتدائی برس تو ہمارے ان مسائل اور چیلنجز پر قابو پانے ہی میں کھپ گئے جو ہمیں سابقہ حکومت سے ورثے میں ملے تھے وغیرہ وغیرہ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ غیر جمہوری و آمریت سے بھرپور طاقت کے بل بوتے پر قائم کردہ ادوار اقتدار کو اگر درمیان سے ہٹا دیا جائے تو ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ دو ہی سیاسی جماعتیں یعنی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) باری باری ہمیں پاکستان کے سیاسی و حکومتی افق پر براجمان نظر آئیں۔

میرا ذاتی طور پر کبھی کسی سیاسی جماعت سے تعلق رہا اور نہ ہی میں مستقبل میں بھی کسی جماعت میں شامل ہوکر پاکستانی سیاست کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ مجھے وطن عزیز کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کا طرز عمل کبھی سمجھ ہی نہ آسکا۔ دیگر ممالک میں سیاست کا مقصد عوام کی بے لوث خدمت رہا ہے اور سیاست کا حقیقی مفہوم بھی عوام الناس کی خدمت اور ان کے مسائل کا حل ہی ہے تاہم ہمارے ملک میں شاید سیاست کی تعریف اس سے مختلف ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ملک و قوم درست سمت میں ترقی نہ کرسکے اور کبھی عوام اور کبھی سیاسی رہنماؤں و کارکنان کا خون ناحق بہتا رہا۔

مجھے کبھی سمجھ نہ آیا کہ وہ حکومت جسے خود پاکستانی عوام نے خود جمہوری طریقے سے منتخب کیا اور حکومت کا موقع دیا آخر کیوں اسے قبل از وقت ختم کرکے عوام کی نظر میں مظلوم بنایا جاتا رہا؟ اکثر مختلف ادوار میں سابقہ حکومتوں کو بھی کرپشن کرنے اور کرپٹ ہونے یا دیگر سنگین الزامات کے سبب اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تاہم شاید اسی مظلومیت کے باعث عوام انھیں پھر موقع دیتے رہے اور اقتدار ان کی باندی بنی رہی۔ اگر موجودہ حکومت کو بھی وقت سے پہلے ختم کیا گیا تو شاید ایک اور غلطی ہو جسے دہرایا جائے۔ آج ملک و قوم کی جو حالت زار ہے ان کی ذمے دار جتنی یہ مظلوم جماعتیں ہیں اتنی ہی وہ طاقتیں بھی ہیں جنھوں نے مختلف ادوار میں ان جماعتوں کو مظلومیت کا جواز فراہم کرکے ہمیشہ عوام میں مقبول ہونے کا موقع دیا، البتہ اس سے اختلاف ممکن نہیں کہ آئینی و قانونی طریقہ کار ولائحہ عمل ہی تمام حکومتی امراض کا موثر ترین جمہوری و شافی علاج رہا ہے۔

بہرحال موجودہ حالات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز کا سیاسی منظرنامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، سیاسی افق پر جو بادل ایک طویل عرصے سے چھائے ہوئے تھے اب چھٹنا شروع ہوگئے ہیں، موجودہ نامساعد حالات میں ویسے تو ہر پارٹی ہی انقلاب کا نعرہ لگاتے اور انقلابی ہونے کی دعوے دار نظر آتی ہے تاہم انقلاب کون لائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا، ان ہی حالات میں پاکستان تحریک انصاف بھی بہت تیزی سے سیاسی افق پر ایک بڑی اور طاقتور جماعت کے روپ میں سامنے آچکی ہے تاہم تحریک انصاف درحقیقت کتنی بڑی سیاسی جماعت ثابت ہوگی اس بات کا اصل فیصلہ تو آیندہ انتخابات ہی کریں گے۔

اکثر بڑے بڑے جلسے و جلوس کرنے والی جماعتیں انتخابات میں اس کے برعکس ثابت ہوتی رہی ہیں۔ جیساکہ سابقہ انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے بڑے بڑے جلسے جلوس ہوئے لیکن تحریک انصاف کے بڑے بڑے جلسے، انتخابی مہمات، ووٹرز سپورٹرز سب اکارت گئے اور انتخابی نتائج نے تحریک انصاف اور دیگر حقیقی مستحق جماعتوں کے مینڈیٹ پر جھاڑو پھیر دی۔ مینڈیٹ کیا چوری ہوا گویا اس ملک کی روایتی سیاست کے مطابق PML-N نے میدان مار لیا، جس کے مبینہ انکشاف کے بعد آج تحریک انصاف سراپا احتجاج ہے اور دھرنوں کے ساتھ ساتھ جلسوں میں مصروف عمل اور حکومت کے خاتمے پر بضد ہے کیونکہ تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ مینڈیٹ چرا کے وجود میں آنے والی حکومت، درحقیقت جعلی حکومت ہے۔ احتجاج کے اس میدان میں ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی جماعت PAT بھی خان صاحب کے ہمنوا ہیں اور یہ دھرنے اب ایک ریکارڈ کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔

بہرحال حکومت کا خاتمہ ہی تمام مسائل کا حل نہیں ہے، نظام کی درستگی سب سے زیادہ اہم ہے، بالخصوص انتخابی سسٹم کی اصلاح اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ہم سے کہیں بڑا ہے لیکن وہاں عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق انتخابی سسٹم قائم ہے اور بائیومیٹرک سسٹم کے تحت ایسا شفاف نظام قائم ہے جس سے ہم آج اپنے قیام کے 67 برس بعد بھی محروم ہیں اور بطور خمیازہ جعلی حکومتیں قائم ہوتی ہیں، عوام کے حقیقی نمایندوں کے بجائے جعلی نمایندے ان کے سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں، جن کے فیصلے بھی پھر عوامی امنگوں کے مطابق ہونے کے بجائے متصادم ہوتے ہیں اور عوام جوکہ جمہوریت کی تعریف کے مطابق طاقت کا اصل سرچشمہ ہوتے ہیں، انتخابی دھاندلی اور اپنے درست نمایندوں کے عدم انتخاب کے باعث اپنے مقدر کو روتے رہتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ سال رواں کے 14 اگست سے تاحال عوامی شعور و آگہی میں بدرجہ اتم اضافہ ہوا ہے اور بیداری کی برق رفتار نئی لہر دوڑ گئی ہے جو اس بوسیدہ نظام کے لیے حقیقی چیلنج کے روپ میں جلوہ گر ہو رہی ہے، اگر ملک میں حقیقی معنوں میں انتخابی اصلاحات وقوع پذیر ہوجائیں تو بالخصوص ملک کی سیاست کا منظرنامہ حیران کن طور پر قطعی مختلف ہوگا جوکہ حقیقی معنوں میں انقلابی پیش رفت اور عظیم سنگ میل ہوگا۔ یاد رہے کہ حقیقی جمہوری نظام اور قائداعظم کے پاکستان کے لیے تبدیلی ناگزیر ہے اور اب اس تبدیلی کے آثار نمایاں ہیں۔ پاکستانی قوم کے گزشتہ 67 برس حق تلفیوں، ناانصافیوں اور مظالم کی عبرت ناک تاریخ ہیں اور اس تاریخ کو اب نیا موڑ دینے کا اس سے مناسب وقت شاید کوئی اور نہیں۔

جس نظام کے قیام کی بات عمران خان کر رہے ہیں یہ وہی نظام ہے جس کے لیے پاکستانی عوام 67 برس سے ترس رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے ہی ملے جلے نعرے ہم نے قیام پاکستان کے لیے تحریک پاکستان میں بھی لگائے تھے جن کی بدولت پاکستان دنیا کے نقشے میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا لیکن اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی تاریخ تمام حالات کی گواہ ہے، تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور ایک خاص سیکولر سوچ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر راج کرتی رہی ہے، جس کا اسلام یا نظام اسلام یا فلاحی ریاست کے تصور یا خلافت راشدہؓ کے نمونے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ نام نہاد مذہبی جماعتیں عوام میں اپنا اعتماد کھو چکی ہیں اور سیکولر جماعتوں سے اسلامی نظام یا اسلامی فلاحی ریاست کے عمل میں لانے کی امید دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہے۔

شاید کہ عمران خان اپنے دعوے میں سچے ثابت ہوجائیں تو بلاشبہ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام وطن عزیز کی تاریخ میں ایک انقلابی عمل ہوگا اور وہ بجا طور پر انقلابی کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ یہ کام مشکل ہونے کے باوجود ناممکن نہیں ہے بس اخلاص اور عزم مصمم کی ضرورت ہے جو کسی ایسے حقیقی انقلابی میں ہی مل سکتا ہے جو مکمل سچائی کے ساتھ اپنے خون جگر سے سیج کر اس ملک میں پورے عدل و انصاف کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کی آبیاری کرے۔ شاید آنے والے وقت میں کوئی ایسا حقیقی انقلابی سامنے آئے جو حقیقی معنوں میں نجات دہندہ ثابت ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔