اسکاٹش ریفرنڈم، مسئلہ کشمیر فلیش پوائنٹ مگر!

عبدالقیوم فہمید  بدھ 15 اکتوبر 2014
بھارتی غنڈہ گردی جمہوری دنیا کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ۔ فوٹو: فائل

بھارتی غنڈہ گردی جمہوری دنیا کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ۔ فوٹو: فائل

’’بات چل نکلی تو دورتک جائے گی، اس لیے اسے فی الحال یہیں پر روک دیں کیونکہ اسکاٹ لینڈ کی مثال کشمیر میں اپنانا فی الحال ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہے‘‘۔

یہ الفاظ بھارت کے ایک سابق وزیر بلکہ باربار مختلف قلم دان وزارت سنبھالنے والے پرنب مکھرجی کے ہیں جو انہوں نے چند روز پیشتر ایک غیرملکی صحافی کے سوال کے جواب میں بیان کیے۔ مکھرجی نے گوکہ مختصر بات کہہ دی مگر جو کچھ انہوں نے کہا وہ بھارت کا ماضی اور حال ہے اور شاید مستقبل بھی یہی ہو، کیونکہ کم از کم اب تک بھارت کی کوئی ایسی حکومت نہیں آئی جس نے دل و جان سے کشمیر کے مسئلے کوکوئی متنازعہ حیثیت دے کر اس کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔ ہرایک کی اولین ترجیح یہی رہی کہ فی الحال کشمیر ان کی ترجیح نہیں ہے۔

چونکہ ان دنوں اسکاٹ لینڈ کے چھ ملین لوگوں کو برطانیہ کے ساتھ رہنے یا اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کے لیے رائے شماری کا حق دیاگیا۔آج نہیں تو کل برطانیہ کو یہ حق اسکاٹش عوام کو دینا تھا، لیکن یہ واقعہ قدرے خلاف روایت رہا۔ اسکاٹ لینڈ سے لاکھوں باشندے پچھلی کئی دہائیوں سے اپنی الگ ریاست اور تشخص کا مطالبہ کررہے تھے۔ ان کے بہت سے مطالبات ایسے بھی تھے جن میں زور بیان زیادہ اور دلیل کی طاقت کم تھی۔

اس کے باوجود برطانیہ نے کھلے دل سے اسکاٹش عوام کو حق رائے دہی کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ آج تک جہاں کہیں بھی کسی ریاست یا خطے کو کسی دوسرے ملک کے استبداد سے آزادی ملی تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی طویل خونی تحریک بھی رہی جس میں لاکھوں لوگوں کی جانوں کی قربانی کا دخل رہا۔ ظاہر ہے آزادی جیسے فطری حق کے حصول کے لیے بہایا جانے والا خون رنگ لاتا ہے اور قوموں کو بالآخر آزادی کی منزل سے ہمکنار کرتا ہے۔

اکیسویں صدی جسے انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور انسانی آزادی کی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ اس صدی کے اوائل پندرہ برسوںمیں مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم اقوام کی آزادی اور ان کی منشاء کے مطابق فیصلوں کے تین بڑے واقعات ہیں۔ پہلے دونوں واقعات کے پیچھے کشت وخون اور بربادی کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں لاکھوں افراد اپنی جانوں سے گئے۔ اس سے کہیں زیادہ اپنے گھر بار سے محروم ہوئے اور ہزاروں اپاہج اور معذور ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوسروں کے سہاروں کے محتاج ہوگئے۔

مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے آزادی اور شمالی سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی یا آزادی کی منزل تک پہنچنے کے لیے بڑی طاقتوں اور اسلحہ کے سودا گروں کو ’’کمائی‘‘ کا خوب موقع ملا۔ کشمیر اور فلسطین جیسی تحریکیں آج بھی اسلحے کی عالمی تجارت کو پھلنے پھولنے میں بھرپور مدد کررہی ہیں۔ جب تک ان دونوں تنازعات کا منصفانہ اور دیرپا حل نہیں نکالا جائے گا تب تک بھارت اور اسرائیل اسلحہ کے انبار لگاتے رہیں گے۔

جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کے برعکس اسکاٹش عوام اور برطانیہ دونوں خوش قسمت نکلے کہ انہوں نے مسلح ماردھاڑ کے بجائے حقیقی معنوں میں جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ اس باب میں اسکاٹش عوام اور برطانیہ دونوں داد کے مستحق ہیں۔ اسکاٹ لینڈ نے آزادی کے لیے(گوکہ فی الحال نہیں ملی) بندوق کی زبان کے بجائے زبان کو بطور بندوق استعمال کیا۔

برطانیہ نے اس کے جواب میں بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکاٹ لینڈ میں گمنام قبرستان آباد کرنے،سوتے میں لوگوں کو اٹھا کر لے جانے، ان کی بوری  بند لاشیں پھینکنے،عقوبت خانوں میں اذیت کے تجربات سے گزارنے کی ریت نہیں ڈالی۔ ورنہ ڈیوڈ کیمرون اور ٹونی بلیر جیسے عالمی امن کے ٹھیکیداراسکاٹش عوام کو کچلنے کے لیے کچھ بھی کرسکتے تھے ۔

اسکاٹ لینڈمیں علیحدگی یابرطانیہ کے ساتھ شامل رہنے کے حوالے سے ہونے والے استصواب رائے نے مسئلہ کشمیر کو ایک مرتبہ پھر ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بنا دیا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت(بھارت) اسکاٹ لینڈ ریفرنڈم کے بعداپنا دامن بچانے کی کوشش میں ہے مبادیٰ رائے شماری، کشمیریوں کے بنیادی حقوق، آزادی اور استصواب جیسے مطالبات اور الفاظ کے چھینٹے اس پرنہ پڑسکیں۔ پرناب مکھر جی کے الفاظ سے تو کم سے کم ایسے ہی لگتا ہے۔

بھارتی سورماؤں کے لاکھ انکار کے باوجود اس زمینی حقیقت سے مفرکسی فریق کے لیے بھی ممکن نہیں کہ وہ کشمیری عوام کو ان کے حق خو د ارادیت سے محروم کر سکے۔ میرے خیال میں جس عالمی برادری نے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا ہے وہ باضابطہ ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔ گوکہ مدعی سست گواہ چست کے مصداق مسئلہ کشمیر کا دیرینہ فریق پاکستان بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں  ناکام رہا ہے۔ جب بھارت خود سلامتی کونسل میں دو سے زائد قرار دادوں کے ذریعے تحریری طورپر کشمیر کوایک متنازعہ علاقہ تسلیم کرچکا ہے اس کے بعد پاکستان کے لیے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھانے اور سفارتی اور سیاسی میدان میں جنگ لڑنے کا بھرپورموقع تھا، جسے ضائع کردیا گیا۔ جب ہم بار بار اسکاٹ لینڈ کی مثال دیتے ہیں تو وہاں ہمیں کوئی تیسرا فریق دکھائی نہیں دیتا۔

ایک طرف اسکاٹش عوام ہیں اور دوسری طرف تاج برطانیہ ہے، لیکن کشمیر کا مسئلہ اس سے مختلف نوعیت کا ہے۔ اگرچہ اسکاٹش عوام نے بھی اپنے حق خود ارادیت کے لیے عالمی سفارت کاری کے میدان کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا لیکن برطانیہ نے انہیں استصواب کا حق کسی دوسری طاقت کے دبائو یا مطالبے پر نہیں دیا ۔ یہاں تو پوری دنیا پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔ ایسے میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کو بچھاڑنے میں ناکامی پاکستان کی سفارتی محاذ پرناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ اتفاق ہے کہ اسکاٹ لینڈ میں وہاں کے عوام کی منشاء معلوم کرنے کے لیے رائے شماری ایک ایسے وقت میں کرائی گئی جب اس کے چند روز بعد جنرل اسمبلی کا گرما گرم اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں اگرچہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایک رسمی سہی کم سے کم کشمیر کا ذکر ضرور کیا۔ میرے خیال میں اس فورم پرذوالفقار علی بھٹو جیسا انداز تخاطب اختیار کرنے کی ضرورت تھی تاکہ  اس عالمی اجتماعی فورم پرعالمی قیادت کے کانوں تک کشمیر کا نام ضرور پہنچتا۔ ایک ہلکی سی گونج کوئی بڑی کامیابی ہرگز نہیں۔

جنرل اسمبلی کے اجلاس میںبھارت نے حسب معمول خواہ مخواہ کا وا ویلا کیا لیکن یہ واویلا بھی کشمیریوں کے حق ہی میں جائے گا کیونکہ ایک تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی’’جمہوریت پسندی‘‘ کا بھانڈہ پھوٹ گیا جو چھ دہائیوں سے کشمیریوں کے حق خود اردایت کو دبائے ہوئے ہے اور دوسرا کشمیری عوام کو اندازہ ہوگیا کہ  وہ بھارت کے واویلے کو پرکاہ کی حیثیت نہیں دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ نئی ابھرتی عالمی قیادت کو بھی معلوم ہوگیا کہ ’’ہو نہ ہو‘‘ کشمیر بھی کوئی متنازعہ مسئلہ اور کروڑوں لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے۔

جنرل اسمبلی سے کئی روز قبل اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم ہو اور اس کے نتائج بھی سامنے آ گئے۔ توقع تھی کہ اس کے بعد جنرل اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرے گا، لیکن یہ توقع محض خیال خام ہی رہی ۔ پاکستان کی کامیابی تب ہوتی جب کم سے کم جنرل اسمبلی سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں کوئی قرارداد پیش ہی کردی جاتی۔ ایسی کسی قرارداد ہی سے عالمی برادری کے موڈ کا بھی اندازہ  ہوتا ورنہ اجلاس میں ہرملک اپنے بکھیڑے ہی لے کران پرخامہ فرسائی کو اپنی سب سے بڑی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ یا کم سے کم پاکستان مسلم دنیا اور اپنے ہم خیال مسلمان سربراہان مملکت کے کان میں کشمیر کے تذکرے کی یاددہانی کرادیتا۔

مسئلہ کشمیر، سموک اسکرین

کشمیر کے مسئلے کا وہاں کے عوام کی منشاء کے مطابق دیرپا حل ہی نہ صرف پاکستان اور بھارت  بلکہ پورے خطے کے امن واستحکام اور ترقی کا ضامن ہے اور اس کا حل نہ ہونا دونوں ملکوں کی تباہی اور بربادی کا بھی موجب بن سکتا ہے۔ مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے منصفانہ حل قبول نہ کرکے بھارت خود ہی خطے کو آگ میں جھونکے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی تاریخ کی دشمنی اور دوستی اسی دیرینہ مسئلے کے گرد گھومتی ہے۔

سنہ1948 کا جہاد کشمیر، معرکہ رن آف کچھ، آپریشن جبرالٹر، 1965ء کی پاک بھارت جنگ اور 1998ء میں کارگل کا محاذ یہ تمام معرکے مسئلہ کشمیر کے اردگرد گھومتے ہیں۔پاکستان نے کشمیر کے لیے دفاعی، معاشی، سیاسی اور جغرافیائی قیمت ادا کی ہے ۔ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے موقف میں لچک موجود ہے لیکن تان بھارت کی ہٹ دھرمی پرٹوٹتی ہے ورنہ کشمیر کا مسئلہ ایسا بھی نہیں کہ وہ حل نہ ہوپائے۔

سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے تو اس  باب میں حد ہی کردی تھی او ر وہ اپنی پٹاری میں  ہروقت کشمیر کے سترہ سترہ حل لیے پھرتے تھے۔ ان کی کسی بھی تجویز سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ مگر اس سے بھارت کی ہٹ دھرمی کھل کرسامنے آگئی۔ چونکہ دونوں ملک کشمیر کی بنیاد پر کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اس لیے بعید نہیں کہ ایک مرتبہ پھر دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف طاقت آزمائی کا مظاہرہ کریں۔ خدا نخواستہ ایسا ہوا تو کشمیر کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر رہے گا دونوں ملکوں کو اپنی اپنی بقاء کے لالے پڑ جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں بھی ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے ساتھ حقیقی معنوں میں دوستانہ اور ایک اچھے ہمسائے جیسے تعلقات کے دلی طورپر متمنی ہیں مگرملک کی تمام بڑی  اور نمائندہ سیاسی جماعتیں امن کے خواب کوشرمندہ تعبیر نہیں ہونے دے رہی ہیں۔ اس سوچ کا بھیانک مظاہرہ ہمیں حالیہ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے سربراہ ارویند کجریوال نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آکر کشمیر کا مسئلہ حل کرائے گی۔

اس بیان پر ٹھنڈے دل سے سوچنے کے بجائے بھارت بھر میں ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ایسا لگ رہا تھا کہ تمام سیاسی قوتوں کا مقابلہ کجریوا ل سے اور وہ کوئی بہت بڑی فتح سے ہمکنار ہونے جا رہے ہیں۔ انہیں روکنے کے لیے بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے عام آدمی پارٹی کے سربراہ کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا اور مجبوراً اسے بھی اپنے بیان میں رد و بدل کرنا پڑا۔

بھارتی میڈیا کا منفی پروپیگنڈہ

بھارتی سیاست اور حکومت کی جانب سے تنازعہ کشمیر کے حل میں دانستہ غفلت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے لیکن جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام بھارتی میڈیا نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کسی گلی محلے کے اخبار سے لے کرقومی سطح کے روزناموں ، ٹی وی کے خبرناموں اور ٹاک شوز میں مسئلہ کشمیر کے حقائق کو جس بے رحمی کے ساتھ غلط پیش کیا جاتا ہے، اس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

اس میں کوئی شک نہیں ہرملک کے ذرائع ابلاغ اس کی دفاع اور خارجہ پالیسیوں کی ترجمانی اپنا پیشہ وارانہ فریضہ سمجھتے ہیں اور مخالفین کو زچ کرنے کا کوئی ادنیٰ سا موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن بھارتی میڈیا کی ساخت و پرداخت سے تو یہ لگ رہا ہے کہ اس کا اصل مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ، سفید جھوٹ کو سچ اور سچ کو کھلا جھوٹ ثابت کرنا بھارتی میڈیا کی پہلی اور آخری کاوش ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا جلسے میں ایک جذباتی سا بیان بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جس پر پورے بھارت میں ’’چائے  کی پیالی میں اٹھ کھڑا ہوا‘‘۔ اگرچہ انہوں نے  کوئی نئی بات نہیں کی۔

کشمیر کے بارے میں ہمارادیرینہ موقف ہی یہ ہے کہ یہ ہرلحاظ سے پاکستان کا حصہ  ہے بھارت عالمی قراردادوں کے ذریعے خود بھی اسے تسلیم کرچکا ہے۔ اس کے باوجود ارنب گوسوامی جیسے بھارتی صحافی کبھی بھی اس مسلمہ مسئلے کی پرامن راہ تلاش کرنے میں رکاوٹ رہیں گے۔بھارت کایہ مطالبہ مذاکرات کے لیے پاکستان ماحول ساز گار کرے، خود بھارتی تو’’پاکستان پے واری جانواں‘‘ کے منتر پڑھ پڑ ھ کر تھک چکے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔