عالمی معیشت پر امریکا کی 142 سالہ حکمرانی کا خاتمہ

ع۔ر  منگل 14 اکتوبر 2014
چین ، امریکا کو پیچھے چھوڑ کر سب سے بڑی اقتصادی قوت بن گیا۔ فوٹو: فائل

چین ، امریکا کو پیچھے چھوڑ کر سب سے بڑی اقتصادی قوت بن گیا۔ فوٹو: فائل

عالمی معیشت پر امریکا کا 142 سالہ دورِ حکمرانی اختتام پذیر ہوگیا ہے، اور اب زمام اقتدار چین کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔

عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے اختتام پر چینی معیشت کا حجم 17.632 ٹریلین ( 176.32 کھرب ڈالر) ہوجائے گا جب کہ امریکی معیشت 174.16 کھرب ڈالر تک محدود رہے گی۔

یہ اعدادوشمار ’پرچیزنگ پاور پیریٹی‘ (PPP) کی مناسبت سے ہیں جس میں اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے کہ ایک ملک میں اشیاء دوسرے کے مقابلے میں سستی ہیں۔ بیشتر ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ کسی معیشت کو پرچیزنگ پاور پیریٹی کے تناظر میں جانچنا ہی سب سے منصفانہ طریقہ ہے کیوں کہ اس طریقے میں مختلف ممالک میں رہن سہن پر آنے والے اخراجات کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پذیر ممالک میں تنخواہیں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں مگر یہاں اشیاء اور خدمات بھی کم قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ عامل افراد کی قوت خرید پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پی پی پی میں لوگوں کے معیار زندگی کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ چین کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے، جو کہ امریکا کی آبادی سے چار گنا زیادہ ہے، مگر یہ حال ہی میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ امریکی شہری چین کے باشندوں سے زیادہ دولت مند ہیں۔

امریکا 1872ء سے عالمی اقتصادی لیڈر چلا آرہا تھا۔ اس نے برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر یہ اعزاز حاصل کیا تھا جو 142 سال تک برقرار رہا۔ اٹھارھویں صدی کے وسط میں شروع ہونے والے صنعتی انقلاب میں برطانیہ سب سے آگے تھا، مگر اس وقت امریکا بھی اس دوڑ میں حصہ لینے کی تیاریاں کررہا تھا۔

1865ء میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد امریکا میں برق رفتاری سے صنعتیں قائم ہونے لگیں، اس دوران شہری آبادکاری اور آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا اور تین کروڑ کے لگ بھگ یورپی باشندے امریکا میں جاکر آباد ہوگئے۔ محض سات برس کے بعد امریکا برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا، اور رواں برس تک یہ اعزاز اس کے پاس رہا۔

پیداوار، عالمی شہرت یافتہ برانڈز، امریکی ڈالر کی کام یابی اور اس حقیقت نے، کہ دنیا کا 62 فی صد سرمایہ ڈالر کی صورت میں محفوظ ہے، امریکا کو عالمی اقتصادی لیڈر بنائے رکھا۔

اٹھارھویں صدی تک چین کا شمار بڑے تجارتی ممالک میں ہوتا تھا۔ بعدازاں یورپی اقوام اس کی تجارت اور بندرگاہوں پر قابض ہوگئیں۔ پھر کمیونی ازم کا دور آیا۔ اس دور میں چینی معیشت بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے شجر ممنوعہ بنی رہی۔

1980ء میں چینی حکومت نے اپنی اقتصادی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے غیرملکی سرمایہ کاروں کو چین میں سرمایہ لگانے کی اجازت دی جس کے بعد چینی معیشت نے تیزی سے ترقی کی۔ پچھلے تین عشروں کے دوران چینی معیشت کی شرح نمو دہرے ہندسوں میں رہی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران شرح نمو کم ہوکر 7.4  فی صد کی سطح پر آگئی ہے مگر مغربی ممالک کی نسبت یہ اب بھی بہتر ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق رواں برس کے دوران امریکی معیشت کی شرح نمو محض 2.2 فی صد رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔