سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ؛ پیکرِ جود وسخا

آپ نے امت مسلمہ کو باہم دست و گریباں ہونے سے بچانے اور اسلام کی بقا کے لیے شہادت کا انتخاب فرمایا۔  فوٹو: فائل

آپ نے امت مسلمہ کو باہم دست و گریباں ہونے سے بچانے اور اسلام کی بقا کے لیے شہادت کا انتخاب فرمایا۔ فوٹو: فائل

رسول اللہ ﷺ کے تمام اصحاب پیکرِ صدق ووفا ،ہدایت کا سرچشمہ اور ظلمتوں کے اندھیرے میں روشنی کا وہ عظیم مینارہیں ،جن سے جہان ہدایت پاتا ہے، وہ قیامت تک آنے والی نسلِ انسانی کے لئے پیکرِ رُشدوہدایت ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ میرے ستارے ہیں ،جس کی پیروی کروگے ،ہدایت پاجاؤگے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم صفات سے مُتصف فرماکر صحابہ میں ممتاز فرمایا ،جو اُن ہی کا حصہ ہے۔ حیا کا ایساپیکر تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے۔ آپ عشرۂ مُبشرہ میں سے ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دی ۔حضرت حسان بن عطیہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اے عثمانؓ !اللہ تعالیٰ نے تمہارے اگلے اور پچھلے کام بخش دیئے اور وہ کام جو تم نے پوشیدہ کیے اورجو ظاہر کیے اوروہ جو قیامت تک ہونے والے ہیں ‘‘۔

ایامِ جاہلیت میں بھی آپ کا خاندان غیر معمولی وجاہت وحشمت کا حامل تھا۔اُمیہ بن عبدشمس کی طرف نسبت کے سبب آپ کا خاندان بنو اُمیہ کہلاتا ہے ، بنوہاشم کے بعد شرف وسیادت میں کوئی خاندان یا قبیلہ بنو اُمیہ کا ہم پلہ نہ تھا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سلسلۂ نسب پانچویں پُشت میں عبدِ مناف پر رسول اللہ ﷺ سے جاملتا ہے۔ حضرت عثمان کی نانی رسول اللہ ﷺ کی سگی پھوپھی تھیں ،اس رشتے سے آپ رسول اللہ اﷺْ کے قریبی رشتے دار تھے ۔

آپ کی ولادت عام الفیل سے چھٹے سال ہوئی ۔رسول اللہ ﷺ کے اعلانِ نبوت کے بعد آپ چوتھے شخص ہیں ،جس نے اسلام قبول کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کردیا ،پھر حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت رقیہؓ نے مکہ سے حبشہ ہجرت فرمائی۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دے دیا۔

حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہاکے وصال کے وقت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اگرمیری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں ، تومیں ان سب کو یکے بعد دیگرے عثمان کی زوجیت میں دے دیتا حتّیٰ کہ اُن میں سے کوئی باقی نہ رہتی ‘‘۔’’حضرت مرہ بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کا بیان کیا،اُس وقت ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’یہ شخص اُس دن (یعنی فتنوں کے دورمیں) ہدایت پر ہوگا ‘‘،میں نے جاکر دیکھا تو وہ شخص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے، (ترمذی ) ‘‘ ۔

ہر انسان فطری طور پر دولت سے محبت کرتا ہے ۔ مستقبل کے لئے کچھ پس انداز کر رکھنا شرعاً درست ہے ،صدقات وفطرات کے علاوہ اپنے مال سے انفاق فی سبیل اللہ کا بڑا اجر وثواب ہے اور جو دولت اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کی جائے، اللہ تعالیٰ اُس کا اجر کئی سو گُنا بڑھا کر عطافرماتا ہے ۔سورۂ بقرہ کی آیت261 تا 266 صدقۂ خیرات کی ترغیب دلائی گئی ہے، ایک جگہ ارشاد فرمایا:ترجمہ؛’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانے کی طرح ہے، جس نے سات ایسے خوشے اُگائے کہ ہر خوشے میں سودانے ہیں اوراللہ جس کے لیے چاہے ان کو دگنا کردیتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا بہت علم والا ہے ،(البقرہ:261)‘‘۔

صحابۂ کرامؓ کی زندگیاں صدق واخلاص ،وفاشعاری وجاںنثاری کا عملی اظہار ہیں۔ حضرت سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ اپنا تمام مال راہِ خدا میں لٹادیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کو اپنی متاعِ حیات کا بیش بہا خزانہ بنالیتے ہیں ،یہی جذبہ حضرت عمر فاروق وحضرت علی رضی اللہ عنہما کی زندگی میں نظر آتاہے لیکن حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہرمشکل موقع پر اسلام اور عظمتِ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرتے نظرآتے ہیں ۔

صحابۂ کرام ؓجو صدق ووفاکا پیکر تھے اور راہِ خدا میں اپنا مال بے دریغ لٹاتے رہے ،ان آیاتِ قرآنی کی عملی تفسیر ہیں ۔مدینہ منورہ میں جب قحط پڑا تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا تمام مال صدقہ کردیا :ترجمہ:’’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں (مدینہ میں) قحط پڑا،حضر ت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم صبح نہیں کروگے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تم پر(رزق ) کشادہ فرمادے گا۔

اگلے دن صبح یہ خبر ملی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہزاراونٹ گندم اور اشیائے خوراک کے منگوائے ہیں ،آپ نے فرمایا: مدینے کے تاجر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، آپ گھر سے باہر تشریف لائے ،اس حال میں کہ چادر آپ کے کاندھوں پر تھی اور اُس کے دونوں سرے مخالف سمت میں کاندھے پر ڈالے ہوئے تھے ۔آپ نے مدینے کے تاجروں سے پوچھا کہ تم لوگ کس لئے آئے ہو ؟،کہنے لگے : ہمیں خبر پہنچی ہے کہ آپ کے پاس ایک ہزار اونٹ غلے کے آئے ہیں ،آپ اُنہیں ہمارے ہاتھ فروخت کردیجیے تاکہ ہم مدینے کے فقراء پر آسانی کریں ،آپ نے فرمایا : اندر آؤ ، پس وہ اندر داخل ہوئے، تو ایک ہزار تھیلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں رکھے ہوئے تھے ،آپ نے فرمایا: اگرمیں تمہارے ہاتھ فروخت کروں، تم مجھے کتنا منافع دوگے؟۔

اُنہوں نے کہا : دس پر بارہ ، آپ نے فرمایا : کچھ اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا دس پر چودہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ، اُنہوں نے کہا : دس پر پندرہ ،آپ نے فرمایا: اور بڑھاؤ ،اُنہوں نے کہا : اِس سے زیادہ کون دے گا، جبکہ ہم مدینے کے تاجر ہیں ۔آپ نے فرمایا: اوربڑھاؤ ،ہر درہم پر دس درہم تمہارے لئے زیادہ ہیں ۔اُنہوں نے کہا :نہیں ، پھر آپ نے فرمایا: اے گروہِ تجار تم گواہ ہوجاؤ کہ (یہ تمام مال)میں نے مدینہ کے فقراء پر صدقہ کردیا۔

حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رات گزری رسول اللہ ﷺ میرے خواب میں تشریف لائے، آپ ﷺ سیاہی مائل سفید سواری پر تشریف فرما تھے، آپ جلدی میں تھے اور آپ کے دست مبارک میں ایک قندیل تھی جس سے روشنی نور کی طرح پھوٹ رہی تھی ،نعلین مبارک کے تسموں سے نور پھوٹ رہا تھا ۔ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ ! میری ماں باپ آپ پر قربان میری رغبت آپ ﷺ کی جانب بڑھ رہی ہے،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ عثمان کی اُس نیکی کا بدلہ ہے جو اُس نے ایک ہزار اونٹ اللہ کی راہ میں صدقہ کیے اور اللہ تعالیٰ نے اُسے قبول فرمایا اور اُس کا نکاح جنت کی ایک حور سے فرمادیا اور میں عثمان کی خوشیوں میں شریک ہونے جارہا ہوں ‘‘۔ (اِزالۃ الخفا،جلد2،ص:224)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارہ سالہ دورِ خلافت میں اسلامی سلطنت کادائرہ وسیع ہوتا گیا، آذربائیجان ،آرمینیا ،طرابلس ،الجزائر اور مراکش فتح ہوئے ۔ بحیرۂ روم میں شام کے قریب قبرص جو بحری جنگ کے ذریعے فتح کیا ، قسطنطنیہ سے مُتصل مرودر، طالستان اور جوزجان فتح ہوئے ۔فتوحات کا یہ سلسلہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تعطل کا شکار ہوگیا ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کے اخیر حصے میں فتنوں اور سازشوں نے سر اٹھالیا۔

کابل سے مراکش تک مفتوحہ علاقوں میں مختلف مذاہب کی ماننے والی سینکڑوں اقوام آباد تھیں ،فطری طورپر مسلمانوں کے خلاف انتقامی جذبات اُن میں موجود تھے نتیجۃً مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا جس میں یہودی اور مجوسی پیش پیش تھے۔اِسی سازش کے نتیجے میں بصرہ ،کوفہ اور مصر سے تقریباً دوہزار فتنہ پرداز (باغی) اپنے مطالبات منوانے کے لئے حاجیوں کی وضع میں مدینہ پہنچے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا جو 40 روزتک جاری رہا ،باغیوں نے کھانا پانی سب جانے کے راستے بند کردیئے۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کچھ کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کی کوشش کی تو باغیوں نے رسول اللہ ﷺ کے حرم محترم کا لحاظ رکھے بغیر بے ادبی سے مزاحمت کی اور اُنہیں واپس کردیا ۔حالات کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لئے بھیج دیا ،حضرت عبداللہ بن زبیر بھی جانثاروں کے ساتھ حضرت عثمانؓ کے گھر میں موجود تھے ۔محاصرہ کے دوران حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ آپ کے حامیوں کی عظیم جماعت یہاں موجود ہے ،ان باغیوں کو نکال باہر کیجیے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ پچھلی جانب سے مکہ چلے جائیں ،مکہ حرم ہے ،وہاں یہ آپ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے ۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پہلی صورت کا جواب یہ دیاکہ اگر میں باہر نکل کر ان سے جنگ کروں تو میں اس اُمّت کا وہ پہلا خلیفہ نہیں بننا چاہتا جو اپنی حکومت کی بقا کے لئے مسلمانوں کا خون بہائے، دوسری صورت کا جواب دیا کہ مجھے ان لوگوں سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ حرم مکہ کی حرمت کا کوئی لحاظ رکھیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس مُقدّس شہر کی حرمتیں پامال ہوں اور میں دارالہجرت اور دیارِ رسولﷺ کو چھوڑ کر کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔(مسند امام احمد بن حنبل)

حضرت زید بن ثابتؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓنے آکر جنگ کی اجازت چاہی کہ انصار دروازے پر منتظر کھڑے ہیں ،آپ نے اُنہیں منع فرمادیا۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرنے والے دوہزار سے بھی کم افراد تھے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مکان کے اندر اور باہر ان کے جانثار اس سے کہیں زیادہ تعداد میں تھے، آخری وقت تک یہ سب آپ سے اجازت طلب کرتے رہے کہ ہم باغیوں کا مقابلہ کریں گے اور اُن کا محاصرہ توڑیں گے ،لیکن آپ نے اُنہیں اس کی اجازت نہ دی ،آپ کا ایک ہی جواب تھا : ’’میں اپنی ذات یا اپنی خلافت کی خاطر مسلمانوں کی تلواریں باہم ٹکراتے نہیں دیکھ سکتا ‘‘۔

جمعۃ المبارک 18 ذوالحجہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھاکہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما تشریف فرما ہیں اور رسول اللہ ﷺْ فرمارہے ہیں : عثمان جلدی کرو ،ہم تمہارے افطار کے منتظر ہیں ۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عثمان آج جمعہ میرے ساتھ پڑھنا ۔(طبقات ابن سعد) بیدار ہوکر آپ نے لباس تبدیل کیا اور قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے، تھوڑی دیر بعد باغیوں نے حملہ کیا اور آپ کو تلاوتِ قرآن فرماتے ہوئے شہید کردیا، اس وقت آپ قرآن مجیدسورۂ بقرہ کی آیت: 137 ترجمہ؛ (تمہارے لئے اللہ کافی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سننے اور جاننے والا ہے) کی تلاوت فرما رہے تھے۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اور عظمت پر لاکھوں سلام ،کہ آپ نے اپنی ذات اور خلافت کے دفاع کے لئے مدینے کی سرزمین اور مسلمان کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا ۔جانثار آپ پر قربان ہونے کی اجازت طلب کرتے رہے لیکن آپ نے اجازت نہ دی ۔ شہید کا خون جس جگہ گرتاہے، وہ جگہ اُس کی شہادت کی گواہی دیتی ہے۔ کسی کا خون کربلا کی سرزمین پر گرا ،کسی کا اُحد کی گھاٹیوں میں ،کسی کی شہادت گاہ میدانِ بدر ۔ یہ مقامات اُن شہدا ء کی شہادت کی گواہی دیں گے لیکن اے عثمان غنی تمہارے خون کی عظمتوں کو سلام جو قرآن کے اوراق پر گرا اور قیامت کے دن قرآن کریم کے اوراق آپ کی شہادت کی گواہی دیں گے۔ روزِ محشر ہر شخص اُس حال میں اٹھایا جائے گا جیسا کہ اپنی موت کے وقت وہ دنیاسے گیا ،کوئی اَحرام باندھے ہوئے اٹھے گا، کوئی سجدہ کرتے ہوئے ،آپ کی عظمتوں کو سلام کہ روزِ محشر آپ قرآن پڑھتے ہوئے اٹھیں گے۔

سیدناعثمان ذوالنورینؓ  کی حیات مبارک

سفید مائل زردی رنگت کے سفید ریش بزرگ اپنے مکان کے دریچہ پر کھڑے ہوئے تھے۔ بزرگ کے پر نور چہرے پر چیچک کے نشانات تھے۔ زلفیں کا ندھوں تک آئی ہوئی تھیں۔ وہ اپنے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے باغیوں سے انتہائی مشفقانہ انداز میں فرما رہے تھے:

’’میری دس خصال میرا رب ہی جانتا ہے مگر تم لوگ آج ان کا لحاظ نہیں کر رہے

٭میں اسلام لانے میں چوتھا ہوں

٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی میرے نکاح میں دی

٭جب پہلی صاحب زادی فوت ہوئی تو دوسری میرے نکاح میں دے دی

٭میں نے پوری زندگی کبھی گانا نہیں سنا

٭میں نے کبھی برائی کی خواہش نہیں کی

٭جس ہاتھ سے حضور ﷺکی بیعت کی اس ہاتھ کو آج تک نجاست سے دور رکھا

٭میں نے جب سے اسلام قبول کیا کوئی جمعہ ایسا نہیں گزرا کہ میں نے کوئی غلام آزاد نہ کیا ہو اگر کسی جمعہ کو میرے پاس غلام نہیں تھا تو میں نے اس کی قضاء کی

٭زمانۂ جاہلیت اور حالت اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا

٭میں نے کبھی چوری نہیں کی

٭میں نے نبی ﷺکے زمانہ میں ہی پورا قرآن حفظ کر لیا تھا

اے لوگو! مجھے قتل نہ کرو اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو مجھ سے توبہ کرا لو۔ واللہ! اگر تم نے مجھے قتل کر دیا تو پھر کبھی بھی تم اکٹھے نماز پڑھ سکو گے اور نہ دشمن سے جہاد کر سکو گے۔ اور تم لوگوں میں اختلاف پیدا ہو جائے گا‘‘۔

یہ بزرگ تیسرے خلیفۂ راشد، سیدناعثمان ذوالنورین ؓ تھے۔ آپؓ خاندان بنو امیہ سے تھے۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کاتب وحی بھی تھے اور ناشر قرآن بھی۔ آپ رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے چوتھے فرد تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہ ؓ، سیدہ ام کلثوم ؓاور سیدہ فاطمہؓ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیٹی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ہوا۔

سیدہ رقیہؓ سے سیدنا عثمانؓ کے فرزند حضرت عبداللہؓ پیدا ہوئے اور انہی عبداللہؓ کے نام پر سیدنا عثمانؓ کی کنیت ’’ابو عبداللہ‘‘ تھی۔مروج الذہب کے مطابق ان عبداللہؓ بن عثمانؓ کا انتقال 76 سال کی عمر میں ہوا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا جو کہ اس وقت بستر علالت پر تھیں، کی تیمارداری کے لیے رک گئے اور غزوۂ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ مگر بقول نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا عثمان ؓ  کو اصحاب ِبدر کے مثل درجہ عطا ہوا۔

سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال پرُ ملال کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تیسری بیٹی، سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ جب وہ بھی وفات پا گئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں اسی طرح ایک کے بعد ایک، عثمان کے نکاح میں دیتا جاتا۔ خیال رہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں جن کے نکاح میں کسی پیغمبر کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ اس صفت میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے سیدنا عثمانؓ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ یعنی ’’دو نوروں (روشنیوں) والا‘‘ ہے۔

سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ 12 سال تک امت ِمسلمہ کے خلیفہ رہے اور کئی ممالک فتح کرکے خلافت اسلامیہ میں شامل کیے۔ آذر بائیجان، آرمینیا، ہمدان کے علاقوں میں بغاوت ہوئی، جس کا قلع قمع امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی ہوا۔ اور اس بغاوت کا سدباب سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور کی بغاوتوں کے سدباب کی طرح ہی اہم تھا۔ مزید یہ کہ ایران کے جو علاقے مثلاً بیہق، نیشاپور،شیراز، طوس، خراسان وغیرہ بھی خلافت عثمانی میں ہی فتح ہوئے اور قیصر روم بھی آں محترمؓ کے دور میں ہی واصل نار ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی بحری جہاد کا آغاز ہوا۔

بحری جہاد کی ابتداء کرنے والے لشکر کے لیے جنت کی خوش خبری نبی کریمؐ پنی لسان مبارکہ سے ارشاد فرما چکے تھے۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ شرم و حیا اور جود و سخا کے پیکر تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کبھی زنا نہیں کیا اور نہ ہی کبھی شراب نوشی کی۔ آپ رضی اللہ عنہ انتہائی نرم خو اور سخی تھے۔ متعدد مرتبہ نادار اور مجبور مسلمانوں کے لیے اپنا مال بغیر کسی قیمت کے فی سبیل اللہ خرچ کیا۔ اور کئی دفعہ جہاد کے لیے مالی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مال و زر پیش کیا۔

ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلی مبارک سے کپڑا نسبتاً زیادہ اوپر اٹھا ہوا تھا اسی اثناء میں علم ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ چلے آرہے ہیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی عجلت میں کپڑا نیچے کر دیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس ضمن میں استفسار فرمایا تو آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا کہ: کیا میں اُس سے حیا نہ کروں جس سے آسمان کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں(مسلم)۔

صلح حدیبیہ کے سال نبی ؐاپنے صحابہ کرامؓ کی معیت میں عمرہ کے ارادہ سے جانب مکہ عازم سفر ہوئے مگر معلوم ہوا کہ کفار مکہ آپﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمرہ ادا کرنے میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں تو آپ ﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو اپنا سفیر بنا کر گفت و شنید کے لیے مکہ بھیجا جہاں کفار نے سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی افواہ اڑادی۔ اس پر نبی علیہ السلام کو انتہائی رنج و قلق ہوا اور آپﷺ نے سیدنا عثمانؓ کے قتل ناحق کا انتقام لینے کے لیے اپنے ساتھ موجود تقریباًڈیڑھ ہزار صحابہ کرامؓ سے فرداً فرداًبیعت لی، اسے بیعت رضوان کہا جاتاہے۔

بیعت ِرضوان کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دست مبارک قرار دیتے ہوئے اُنؓ کی طرف سے بیعت کی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بدولت تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلمانوں سے اپنی رضا کا اعلان فرمایا۔ نبیؐ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ اللہ آپ کو ایک قمیص پہنائے گا (یعنی خلافت عطا فرمائے گا) لوگ چاہیں گے کہ آ پ وہ قمیص اتار دیں(یعنی خلافت سے دست بردار ہوجائیں) اگر آپ لوگوں کی وجہ سے اس سے دست بردار ہوئے تو آپ کو جنت کی خوش بو بھی نہ ملے گی۔

یہی وجہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ باغیوں کے پرُ زور مطالبہ کے باوجود بھی منصب ِخلافت سے دست بردار نہ ہوئے اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر جان لٹا دی۔باغیوںکے محاصرہ کے دوران آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے دریچہ سے ظاہر ہو کر ان عاقبت نا اندیش باغیوں کو تنبیہ کی مگر اُن کی عقلیں ماؤف اور ضمیر مردہ ہو چکے تھے۔اسی سازش کے نتیجہ میں خلیفۂ وقت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کرلیا گیا۔

اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عام مسلمان بغرض حج مکہ مکرمہ میں تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت سے دست بردار ہونے کو کہا گیا مگر بحکم نبویﷺ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ مطالبہ رَد کر دیا۔ اور چالیس دن بھوکے پیاسے روزہ کی حالت میں ان باغیوں کے محاصرہ میں اپنے گھر میں ہی مقید رہے۔ دن رات نماز و تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ اور بالآخر 18 ذی الحج، 35 ہجری کو دوران تلاوت شہید کر دیے گئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

جود و سخا، پیکر شرم و حیا، کاتب ِوحی، ذوالنورین،خلیفۂ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت و منقبت کے تفصیلی احاطہ کے لیے یہ مضمون انتہائی مختصر ہے اس لیے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی سیرت مطہرہ کے محض چند پہلو سپرد تحریر کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما ئے بروایت ترمذی ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر نبی کے کچھ رفیق ہوتے ہیں، میرے رفیق جنت عثمانؓ ہیں۔

بروایت بخاری، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان ذوالنورین رضوان اللہ علیہم اجمعین احد پہاڑ پر چڑھ رہے تھے کہ پہاڑ ہلنے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احد! رک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔امیرالمؤمنین سیدنا عثمانؓ چوںکہ مکتب نبوت کے ایک اہم اور لائق شاگرد تھے انہوں نے اپنے مربی نبی کریمﷺ کی تربیت کے نتیجہ میں کئی مواقع پر حضرتﷺ کی تربیت کے مطابق قرآن و سنت کو سامنے رکھتے ہوئے احسن انداز اختیار فرمائے۔

محاصرہ کے زمانہ میں جب اتمام حجت کے لیے آپ نے بالاخانے سے سر باہر نکالا تو فرمایا مجھے قتل نہ کرو بلکہ صلح کی کوشش کرو، خدا کی قسم میرے قتل کے بعد پھر تم لوگ متفقہ قوت کے ساتھ قتال نہ کر سکو گے اور کافروں سے جہاد موقوف ہو جائے گا اور باہم مختلف ہو جاؤ گے۔محاصرہ کے زمانہ میں لوگوں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین! آپ تو مسجد نہیں جا سکتے انہی باغیوں میں سے کوئی شخص امام بنتا ہے، ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں تو آپ نے فرمایا کہ نماز اچھا کام ہے جب لوگوں کو اچھا کام کرتے ہوئے دیکھو تو ان کے ساتھ شریک ہو جا یا کرو، ہاں برے کاموں میں ان کے ساتھ شرکت نہ کرو۔

پیکر شرم و حیا کامل الایمان

سیدنا حضرت عثمان غنی ؓ بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف اسلام کے تیسرے خلیفہ راشد ہیں۔ آپ قریش کی شاخ بنو امیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے اس خاندان کو یہ منفرداعزاز حاصل تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش کا قوی علم عقاب بہ وقت جنگ اسی قبیلے کے پاس ہوتا تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں عبدمناف سے آقائے کریم ﷺ تک جا پہنچتا ہے۔ آپ کی والدہ کانام اردی بنت کریز ہے اور والد کا نام عفان ہے۔ آپ کی ولادت عام الفیل کے چھٹے برس میں ہوئی۔

حضرت عثمانؓ نے ابتدائی زندگی میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا اور اسی وجہ سے آپ کا شمار قریش کے چند پڑھے لکھے افراد میں ہوتا تھا۔ ابن عساکر کی روایت کے مطابق ’’ میں نے حضرت عثمان غنیؓ سے بڑھ کر کسی کو خوب صورت نہیں پایا۔‘‘ آپ دراز قد اور خوب رو تھے۔ آپ کے رنگ میں سفیدی کے علاوہ سرخی بھی تھی، ریش مبارک گھنی تھی اور جسم کی ہڈیاں مضبوط اور چوڑی تھیں۔ نبی پاک ﷺ کے اعلان نبوت کے بعد صرف تین آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا کہ ایک دن حضرت عثمانؓ اپنی خالہ سعدی بنت کریز کے گھر گئے جہاں اللہ کے رسول پاک ﷺ کا ذکر اقدس ہونے لگا۔

آپ کی خالہ نے کہا کہ محمد بن عبداللہ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، آپ کے پاس حضرت جبرائیل آتے ہیں اور آپ کا پیغام حق اور روشن ہے۔ آپ کے دین میں خیر ہی خیر اور آپ کے خلاف جنگ کرنا دنیا و آخرت کی ذلت ہے۔ حضرت عثمان غنی کہتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر جب میں اپنی خالہ کے گھر سے باہر نکلا تو میرے دل میں اسلام کی محبت جگہ بنا چکی تھی۔

ایک دن میرے دوست، حضرت ابو بکرؓ نے مجھے متفکر پایا تو اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے جو باتیں اپنی خالہ سے سن رکھی تھیں وہ ان کو بتادیں۔ یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیق ؓ  نے فوری طور پر ارشادفرمایا کہ اے عثمانؓ ! تم فہم و فراست کے مالک ہو، حق و باطل تم سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ اللہ کی قسم تمہاری خالہ نے سچ کہا ہیم محمد بن عبداللہ اللہ کے سچے نبی ہیں جنھیں اللہ نے پوری دنیا کی ہدایت کے لیے بھیجا ہے۔ تمہاری کیا مرضی ہے، کیا تم ان کے پاس جا کر کلام الہی سنو گے؟

غرض صدیق اکبر حضرت عثمان کو لے کر بارگاہ رسالت ﷺ میں پہنچے۔ وہاں حضرت علیؓ پہلے سے ہی موجود تھے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے حضرت عثمان کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اے عثمان! تم نے اللہ کی جنت قبول کرلی۔ میں تمہارا اور تمام مخلوق کا رسول ہوں۔ نبی کریم ﷺ ابھی ارشاد ہی فرما رہے تھے کہ حضرت عثمان غنی نے اسلام قبول کر لیا۔ اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا نام چوتھے نمبر پر آتا ہے۔

دعوت اسلام قبول کرنے کے بعد مشرکین مکہ نے آپ کو بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح بہت ستایا۔ آپ پر بے پناہ ظلم وستم کیے مگر آپ کی ایمانی قوت میں ذرہ بھر بھی کمی نہ آسکی۔

اسلام قبول کرنے سے قبل حضرت عثمان غنیؓ کا شمار مکے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ آپ نے تجارت کے سلسلے میں شام اور دوسرے ملکوں کے سفر بھی کیے تھے اور خاصی دولت کمائی تھی۔ مگر یہ دولت آپ نے اسلام قبول کرنے سے پہلے اور بعد میں دونوں زمانوں میں غریبوں اور مستحقین پر خرچ کی اور نادار لوگوں کی ہمیشہ مدد فرمائی۔ اور اسلام قبول کرنے کے بعد تو آپ نے اپنی تمام دولت ومال اسلام کے فروغ اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا۔ جب مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے گئے تو ان کو قلت آب کا مسئلہ درپیش ہوا۔

مدینے میں کنویں کا مالک ایک یہودی تھا جو بہت منہگے داموں پانی فروخت کرتا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے وہ کنواں پینتیس ہزار درہم میں خرید لیا اور عام لوگوں، جن میں کافر بھی تھے، کے لیے وقف کر دیا۔ ہر ایک کو اجازت تھی کہ وہ بغیر معاوضے کے جتنا چاہے پانی بھر سکتا ہے۔

اسلامی جنگوں میں آپ نے اسلام کی بے حد خدمت فرمائی، اسی لیے حضور پاک ﷺ کی طرف سے آپ کو غنی کا لقب ملا۔ غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت عثمان غنی ؓ نے حضور پاک ﷺ کی خدمت اقدس میں دس ہزار درہم پیش کیے، تاکہ سامان حرب کے علاوہ دیگر جنگی ضروریات پوری کی جاسکیں۔ اللہ کے محبوب ﷺ حضرت عثمانؓ کی اس فیاضی اور جذبۂ ایمانی پر بہت خوش ہوئے۔

ہجرت کے بعد جب مدینہ میں سخت قحط پڑا تو حضرت عثمان ؓ نے دل کھول کر ضرورت مندوں کی مدد فرمائی۔ ہجرت مدینہ کے بعد جب لوگ تیزی سے اسلام قبول کرنے لگے اور مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا تو مسجد نبوی مسلمانوں کے لیے چھوٹی پڑنے لگی۔ اس میں گنجایش کم تھی جب کہ نمازی زیادہ تھے۔ اس کے پیش نظر مسجد نبوی کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی توسیع کی مد میں تمام اخراجات حضرت عثمان غنی ؓ نے ادا کیے، اور سارا کام ہنگامی بنیادوں پر مکمل کرایا۔

آپ اسلام کی تبلیغ کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ ایک صحابی رسول ﷺ، اور امیر المومنین کی حیثت سے آپ ایمان کی دولت سے محروم لوگوں کو اسلام کی روشنی سے آشنا کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے تھے۔ آپ حافظ قرآن اور ناشر قرآن بھی تھے۔ آپ کے عقد میں اللہ کے محبوب کریم ﷺ کی دو صاحب زادیاں یکے بعد دیگرے آئیں، اسی لیے آپ کو ذوالنورین یعنی دو نوروں والا کا لقب ملا۔

حضور پاک ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت رقیہ ؓ کی وفات کے بعد اپنی دوسری صاحب زادی ام کلثوم کا نکاح بھی آپ کے ساتھ کیا اور یہ حکم حضرت جبرائیل اللہ کی طرف سے لائے تھے۔ روایت میں آتا ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں اور وفات پاجاتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے عقد میں دیتا۔ سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد ہے، ہر نبی کا رفیق ہوگا اور میرے رفیق عثمان ہوں گے۔ پھر اپنی بیٹی رقیہ ؓ سے فرمایا کہ اپنے شوہر عثمان کی خوب عزت کیا کرو کہ میرے یہ صحابی عادات میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہیں۔

آپ ہی وہ مقدس ہستی ہیں جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے کامل الحیاء قرار دیا۔ حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ میں نے خود رسول پاک ﷺ سے سنا تھا کہ جب عثمان غنی ہمارے پاس سے گزررہے تھے، اس وقت اللہ کے رسول ﷺ کے پاس ایک فرشتہ بیٹھا تھا۔ اس نے کہا کہ یہ وہ شہید ہیں جن کی قوم انھیں بے گناہ قتل کر دے گی اور ہم تمام ملائکہ ان سے حیاء کرتے ہیں۔ آپ کی شرم وحیا کے علاوہ شخصیت کے دیگر نمایاں پہلو بھی ایمانی خصوصیات کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔

فیاضی تو حضرت عثمان غنی ؓ کی شخصیت کا اتنا نمایاں اور معروف ترین پہلو ہیِِِِ۔ آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ۶ ہجری میں جب آپ حضور پاک ﷺ کے سفیر بن کر مکہ گئے تو کفار نے آپ کو عمرہ وطواف کی پیش کش کی لیکن حضرت عثمان ؓنے حضورپاک ﷺ کے بغیر عمرہ وطواف کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ نے کفار کے اصرار پر فرمایا کہ ادھر بیت اللہ ہے تو ادھر حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ ہیں، بیت اللہ کے طواف کا لطف رسول اللہ ﷺ کے بغیر ناممکن ہے۔ جب آپ کی واپسی میں تاخیر ہوگئی اور آپ کے قتل کی افواہ پھیل گئی تو اس موقع پر حضور ﷺ نے اپنے چودہ سو صحابہ کرام سے قتل عثمان ؓ کا انتقام لینے کی بیعت لی۔

آخر میں اپنے دوسرے دست مبارک کو حضرت عثمان ؓ  کا ہاتھ قرار دے کر ان کی طرف سے بیعت کی۔ اس بیعت کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ فتح میں اللہ نے فرمایا کہ یہ بیعت کرنے والے آپ کے ہاتھ پر نہیں اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے اور اللہ ان سے راضی ہو گیا۔

حضرت عثمان غنی ؓ کو رسول پاک ﷺ سے بہت ہی محبت تھی ایک مرتبہ سرکار ﷺ کے گھر میں چار دن سے پے در پے فاقے آگئے۔ آپ ﷺ اور آپ کے اہل بیت کی بھوک سے حالت عجیب ہو گئی۔ جب حضرت عثمان ؓ کو خبر ملی تو آپ نے کئی آٹے کے بورے ،چھوارے ،بکری کا گوشت ،ا ور تین سو درہم بھیجے، ساتھ ہی بہت سا بھنا ہوا گوشت اور روٹی تیار کروائی اور بھجوائی۔

اس موقع پر اللہ کے محبوب کریم ﷺ نے ان کو جو دعائیں دیں وہ بے مثال ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے مسلمان فوجیوں کے لئے بھی رسد اور سازوسامان پیش کیا۔ ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینار بھی نقد دیے۔ آپؓ نے مدینے کے قریب تھوڑے فاصلے پر مدری کے مقام پر ایک بند بھی بنوایا جس سے خیبر کی جانب نشیب کے باعث شہر میں داخل ہونے والے سیلاب کے پانی سے مدینے کی آبادی محفوظ ہو گئی۔

حضرت عثمان غنی کا سب سے بڑا کارنامہ مسلمانوں کو قرآن مجید کی ایک قرات پر جمع کرنا ہے۔ آپ نے صحابہ کرام کے مشورے سے اس کو حل کرا یا۔ آپ نے عہد صدیقی کا مدون شدہ قرآنی نسخہ جو ام المومنین حضرت حفصہ کے پاس موجود تھا، جسے حضور پاکﷺ نے خود مرتب کرایا تھا، منگوایا اور اس اصول پر قرآن جمع کیا، اس کی سورتوں کی ترتیب نسخے کے مطابق مسلم قرارپائی۔ حضرت عثمان ؓ نے حکم دیا کہ تمام مسلمان اپنے نسخوں کو حضرت حفصہ کے نسخے کے مطابق کر لیں۔ پھر آپ نے اس نسخے کی نقول تیار کروا کے اسلامی ملکوں میں بھجوادیں۔

حضرت عثمان غنی کی سیرت طیبہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو آپ کی سیرت و کردار پر رشک آتا ہے۔ محبت رسول ﷺ کا یہ عالم تھا کہ تمام غزوات میں رسول کریم ﷺ کے ہم رکاب ہو کر جاں نثاری و قربانی کی مثالیں قائم کیں۔ احترام رسول پاک ﷺ کا یہ عالم تھا کہ جس ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی، زندگی بھر اس ہاتھ کو آپ نے نجاست یا محل نجاست نہیں لگنے دیا۔ آپ کی اتباع رسول ﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ ہمیشہ اپنے ہر قول وفعل میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرتے تھیِِ۔

امیر المومنین عاشق رسول کریم حضرت عثمان غنی ؓ کا ایک لقب صاحب ذوالہجرتین بھی ہے کیوں کہ آپ نے اسلام کی خاطر دو مرتبہ ہجرت فرمائی، ایک مرتبہ حبشہ کی طرف اور ایک مرتبہ مدینہ کی طرف۔ حضور پاک ﷺ نے فرمایا کہ عثمانؓ میری امت کا وہ پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہجرت کی۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آپ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے تھے اور اگر جمعہ کو میسر نہ ہوتا تو بعد میں کر دیتے تھے۔  آپ ہی وہ خوش نصیب صحابی ہیں جن کو رسول اللہ نے کئی مرتبہ جنتی ہونے کی بشارت دنیا میں دی۔

آپ کو تمام صحابۂ کرام کی رائے سے تیسرا خلیفہ راشد مقرر کیا گے۔ آپ نے تقریبا ۱۲ برس تک امور خلافت نہایت دیانت داری اور خدا ترسی سے انجام دیے۔ آپ کے دور میں  بڑی بڑی مہمات جاری رہیں اور افریقہ میں بھی مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ آپ کے عہد خلافت میں مملکت اسلامیہ کی حدود ہندوستان، افغانستان، روس ،لیبیا، الجزائر، مراکش اور بحیرۂ روم تک وسیع ہو گئی۔ آپ کی فتوحات کا سلسلہ آرمینیا سے شروع ہو کر بحیرۂ روم کے جزیرہ اروا کی تسخیر تک ختم ہوا۔

آپ کے دور میں سڑکیں بنوائی گئیں، مہمان خانے بنوائے گئے اوردریاؤں پر پل بنوائے گئے۔ مساجد کثرت سے تعمیر کرائی گئیں۔ مفتوحہ علاقوں میں چھاؤنیاں بنوائی گئیں، مویشیوں کی چراگاہیں اور ان کے لیے حوض بنوائے گئے، غرض رعایا کی آسایش کے لیے تما م ضروری کام کیے گئے۔ آپ کے دور خلافت میں مسلمانوں نے بہت ترقی کی اور بہت سے ملک فتح کیے۔

حضرت عثمان غنی ؓ پر جس وقت حملہ کیا گیا اس وقت آپ تلاوت قرآن مجید فرما رہے تھے۔ قرآن مجید آپ کی گود میں تھا جو خون عثمان سے رنگین ہو گیا تھا۔ حملے کے وقت آپ کی بیوی حضرت نائلہ ؓ بھی موجود تھیں جنھوںنے اس کو روکنے کی کوشش کی اس دوران آپ کو بھی زخمی کر دیا گیا اور ان کی دو انگلیاں بھی کٹ گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔