خیبر پختونخوا حکومت سیاسی بحران پر قابو پانے میں کامیاب؟

شاہد حمید  بدھ 15 اکتوبر 2014
تحریک انصاف کی جانب سے جاری دھرنا تحریک تیسرے مہینہ میں داخل ہو چکی ہے اور اب تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔  فوٹو : فائل

تحریک انصاف کی جانب سے جاری دھرنا تحریک تیسرے مہینہ میں داخل ہو چکی ہے اور اب تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ فوٹو : فائل

پشاور: تحریک انصاف کی جانب سے مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت کے خلاف تحریک جاری رکھنے کے تناظر میں جب خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں پی ٹی آئی کے جاوید نسیم نے وزیراعلیٰ کے خلاف ’’گو خٹک گو‘‘ کا نعرہ لگاکر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا تو بعض حلقوں کی جانب سے اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس تحریک میں تحریک انصاف کے وہ تمام ناراض ارکان شامل ہو جائیں گے۔

جنہوں نے فارورڈ بلاک یا ناراض ارکان کے نام سے اپنی الگ پہچان بنا رکھی ہے، تاہم یہ بات اس اعتبار سے درست نہیں تھی کہ ناراض ارکان پر مشتمل گروپ کو تو پہلے ہی رام کیا جاچکا ہے، مذکورہ گروپ کے قائدین میں شمار کیے جانے والے ڈپٹی سپیکر صوبائی اسمبلی امتیاز شاہد قریشی کو صوبائی کابینہ کا حصہ بناتے ہوئے قانون کے محکمہ کا قلمدان ان کے حوالے کیاجا رہا ہے جبکہ سوات سے ڈاکٹر امجد علی خان اور بنوں سے شاہ محمد وزیر کو بطور معاونین خصوصی صوبائی حکومت کی ٹیم کا حصہ بنایا جا رہا ہے اور یہ تینوں نام اسی فارورڈ بلاک میں شامل ارکان کی مشاورت ہی سے وزیراعلیٰ کے حوالے کیے گئے جن کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ فارورڈ بلاک کا جاوید نسیم کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا اس لیے جاوید نسیم کو ڈراپ کردیا گیا حالانکہ ابتدائی طور پر یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ جاوید نسیم کو بطور معاون خصوصی حکومتی ٹیم کا حصہ بنایا جائے گا۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی جاوید نسیم نے اپنے طور پر وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جس میں انہوں نے اپنے فارورڈ بلاک میں شامل ساتھیوں کے ساتھ بھی مشاورت نہیں کی یہی وجہ ہے کہ جاوید نسیم اس میدان میں تنہا کھڑے ہیں اور فارورڈ بلاک میں شامل ان کے ساتھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید نسیم کی جانب سے شروع کی جانے والی اس تحریک میں بھی اتنا ہی دم خم نظر آرہا ہے جتنا اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے خلاف جمع کردہ تحریک عدم اعتماد میں تھا جس کا منطقی انجام بڑے واضح طور پر نظر آرہا ہے ۔ اسی طرح جاوید نسیم کی جانب سے شروع کردہ تحریک بھی واضح انداز میں اپنے انجام کی طرف بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جس میں ممکنہ طور پر پارٹی قیادت بات چیت کے ذریعے ان کو منالے گی۔

تاہم اگر انہوں نے اپنی ناراضگی برقرار رکھی اور کسی بھی ایسے موقع پر اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف اسمبلی میں ووٹ استعمال کیا جس کے بارے میں انھیں دیگر ارکان کی طرح واضح ہدایات موصول ہوں تو پھر یقینی طور پر ان کی پارٹی آرٹیکل 63A کا استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائے گی۔ مذکورہ حالات کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ سردست چاہے اپوزیشن کی جانب سے جمع کردہ تحریک عدم اعتماد ہو یا جاوید نسیم کی جانب سے شروع کی جانے والی گو خٹک گو تحریک، ان دونوں سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی حکومت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ تاہم ان کے لیے اصل معرکہ ان عوامی توقعات پر پورا اترنا ہے جو خود تحریک انصاف نے انتخابی مہم کے دوران عوام کو دلائی تھیں کیونکہ اگر ان توقعات پر تحریک انصاف پورا نہیں اترتی تو اس سے کسی ایک یا دو نہیں بلکہ پوری تحریک انصاف کو خطرہ ہوگا۔

تحریک انصاف کی جانب سے جاری دھرنا تحریک تیسرے مہینہ میں داخل ہو چکی ہے اور اب تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا، گومگو کی کیفیت موجود ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین ہوں یا اس پارٹی کا کوئی عام ورکر ہر کوئی یہی کہتا سنائی دیتا ہے کہ ’’وزیراعظم سے استعفیٰ لیے بغیر وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے‘‘ جبکہ دوسری جانب مرکزی حکومت اپنی جگہ مضبوطی سے موجود ہے۔ تاہم جو حالات چل رہے ہیں ان کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں نے وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کے امکانات کے پیش نظر اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں، چونکہ یہ بات بڑی واضح ہے کہ جب تک پنجاب سے اکثریت حاصل نہ کی جائے تب تک مرکز میں حکومت قائم نہیں کی جاسکتی اسی لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بھی سارا فوکس پنجاب پر ہی ہے، اگرچہ وہ پیپلزپارٹی کو ٹف ٹائم دینے لاڑکانہ بھی جا رہے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ بلوچستان کو بھی فوکس کریں گے تاہم ان کا اصل ہدف پنجاب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی پنجاب میں ڈیرے ڈال دیئے ہیں اورجس رفتار سے وہ ملاقاتیں کر رہے ہیں اس کا بڑا واضح مطلب ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی پنجاب کو فوکس کیا ہوا ہے۔

اے این پی اورجمعیت علماء اسلام(ف) ابھی تک اس طریقہ سے کھل کر میدان میں نہیں آئیں جس طریقہ سے دیگر پارٹیاں میدان میں موجود ہیں۔ تاہم اگر دیگر پارٹیوں کی جانب سے کام کی رفتاریہی رہی تو اس صورت میں اے این پی اور جے یو آئی بھی میدان میں اتریں گی ۔ اگر مڈٹرم انتخابات کامعاملہ درمیان میں نہیں آجاتا تو ان تمام سیاسی پارٹیوں کا ٹاکرا آئندہ سال کے اوائل میں بلدیاتی انتخابات میں ہونے کا امکان ہے جو اس اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہوگا کہ 14 اگست کے بعد ملک کے سیاسی کلچر میں تبدیلی آئی ہے ۔

اس تبدیلی کے تناظر میں بلدیاتی انتخابات کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ ہر سیاسی جماعت اپنی جگہ پر اس نئے سیاسی کلچر اور ماحول میں معاملات کو لے کر چلنے کی کوشش کرے گی اور جو بھی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی اسے یقینی طور پر دیگر پارٹیوں پر عام انتخابات کے حوالے سے نفسیاتی برتری حاصل ہوجائے گی تاہم یہ بھی ابھی واضح نہیں ہے کہ آئندہ سال مارچ، اپریل میں بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں اور تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کا اس بارے میں کیا لائحہ عمل ہوگا البتہ ایک بات بڑی واضح ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو خیبرپختونخوا میں یہ تحریک انصاف کے لیے ٹیسٹ کیس ہوگا۔

پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے خیبرپختونخوا سے پیپلزپارٹی کے عہدیداروں اور ہم خیالوں کا بلایا گیا مشترکہ اجلاس نہایت ہی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا تھا اور توقع کی جارہی تھی کہ اس اجلاس کے نتیجہ میں یا تو ہم خیالوں کو قائل کرلیا جائے گا کہ پارٹی کے موجودہ عہدیداروں کو وہ تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ کام جاری رکھیں یا پھر پارٹی کابینہ اور دیگر عہدیداروں کو اس بات پر رام کیا جائے گا کہ وہ ہم خیالوں کا موقف اور مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کی قیادت خیبرپختونخوا میں انٹرا پارٹی انتخابات کراتی ہے تو اسے دیگر صوبوں میں بھی انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے میدان سجانا پڑے گا جس کے لیے وہ تیار نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سیاست کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے حالات کو سمجھنے والے سابق صدر آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے بلدیاتی الیکشن کے نام پر پارٹی عہدیداروں اور ہم خیالوں کو اس بات پر راضی کرلیا ہے کہ سردست وہ صرف اور صرف بلدیاتی انتخابات کی تیاری کریں ۔ اگر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے پشاور میں ڈیرے ڈالے اور یہاں پر قیام کیا تو یقینی طور پر اس سے جیالوں میں نئی روح پڑجائے گی کیونکہ جیالوں کا اصل مسلہ پارٹی قیادت کی جانب سے انھیں نظر انداز کرنا ہی ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے جیالوں میں پائی جانے والی مایوسی کی اصل وجہ یہی ہے جسے دور کرکے پیپلزپارٹی حالات کو اپنے موافق بناسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔