قوم کو ’’سیاسی سرنگ‘‘ سے نکالیں

ایڈیٹوریل  بدھ 15 اکتوبر 2014
کرنل طاہر محمود کے مطابق اس سازش میں کالعدم تنظیم کے دہشت گرد ملوث ہو سکتے ہیں, فوٹو فائل

کرنل طاہر محمود کے مطابق اس سازش میں کالعدم تنظیم کے دہشت گرد ملوث ہو سکتے ہیں, فوٹو فائل

رینجرز نے سرنگ کے ذریعے سینٹرل جیل کراچی میں قید دہشت گردوں کو چھڑانے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے متعدد ملزمان کو حراست میں لے لیا۔ پیر کو رینجرز ہیڈ کوارٹرز جناح کورٹس بلڈنگ میں سندھ رینجرز جنرل اسٹاف کرنل طاہر محمود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب قومی سلامتی کے اداروں کے تعاون سے سندھ رینجرز نے سینٹرل جیل سے متصل غوثیہ کالونی میں واقع ایک مکان پر چھاپہ مار کر سینٹرل جیل توڑنے کا منصوبہ ناکام بناتے ہوئے کئی ملزمان کو حراست میں لے لیا۔

ملکی جیلوں کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو مشتعل خطرناک قیدیوں اور عادی مجرموں کی منظم کوششوں سے جیل توڑنے کے کئی واقعات اور قانون شکنی کے مروجہ تصورات کے باوجود اس قسم کی دلیرانہ وارداتوں کا تذکرہ ملتا ہے، تاہم ایسی تمام شکایات جیل انتظامیہ کے بیرکوں میں قید مختلف قیدیوں پر جبر و ستم، جیل مینول کی خلاف ورزیوں، جیل پولیس کی چیرہ دستیوں، رشوت ستانی اور مار پیٹ سے متعلق ہوتی تھیں جس کے خلاف ’’ڈائی ہارڈ‘‘ قیدی گروپ بنا کر جیل توڑنے کی سازش کرتے رہے۔

مگر 2012اور 2013 کا منظر نامہ بالکل مختلف تھا جس کے دوران ڈی آئی خان سینٹرل جیل اور بنوں جیل پر طالبان اور مسلح افراد نے شدید حملے کر کے مجموعی طور پر اپنے 600 کے لگ بھگ قیدیوں اور طالبان کمانڈر عدنان رشید سمیت متعدد ہائی پروفائل دہشت گردوں کو چھڑا لیا، اس تصادم میں کئی پولیس اہلکار، دہشت گرد اور قیدی ہلاک اور زخمی ہوئے، جیل انتظامیہ نے کچھ قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا مگر دنیا نے پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت کے وسیع تر تناطر میں جیل بریکنگ سانحہ کو ایک اعصاب شکن (نرو بریکنگ) واقعہ کے طور پر دیکھا۔

چنانچہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویزخٹک نے ان دونوں واقعات کو انتظامی سطح پر جیل حکام کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ قرار دیا اور سخت کارروائی کا حکم بھی دیا تھا، اسی طرح سکھر جیل سمیت دیگر جیل بریک واقعات کا ریکارڈ بھی ملکی جیلوں میں سیکیورٹی اور ہائی الرٹ اقدامات کے فقدان کی چغلی کھاتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی سینٹرل جیل کے نیچے اتنی طویل سرنگ کھودنے کا واقعہ نہ صرف حیرت انگیز، سنسنی خیز اور تشویش ناک ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں اور ان کے ساتھی قیدیوں کے عزائم اور مجرمانہ ارادوں کا ہولناک منظر نامہ پیش کرتا ہے، اس عظیم کارنامے پر رینجرز اہلکار اور سلامتی پر مامور ٹیم کے ارکان بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں، اگر دہشت گرد اور خطرناک قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے تو کراچی سمیت ملک کی دیگر جیلوں اور شہروں میں لاقانونیت کا کیسا وحشیانہ رقص برپا ہوتا۔ مزید براں دہشت گردوں کی کمند قسمت کی خوبی دیکھیے اس وقت سرنگ کھودتے ہوئے ٹوٹی کہ ’’دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا‘‘ تھا۔

عین ممکن ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے ساتھی قیدیوں کو سرنگ کھودنے کی رازدارانہ مہم جوئی یا تحریک ہالی ووڈ کی مشہور فلم ’’ گریٹ اسکیپ‘‘ یا دیگر ٹی وی سیریز سے ملی ہو، مگر میڈیا کے بیرونی اور کچھ داخلی تعاون کے بغیر ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ ماضی میں بھی افرنگ نے قبائلی علاقوں میں سرنگیں ڈھونڈیں جب کہ طالبان کے زیر تصرف بعض سرنگوں کا پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کے دوران بھی سراغ لگایا گیا، جن میں بعض قدرتی تاریک و قدیم غار نما راستے بھی ملے۔ کرنل طاہر نے بتایا کہ جس وقت مکان پر چھاپہ مارا گیا اس وقت مکان میں موجود پانی کے ٹینک میں سرنگ کھودی جا رہی تھی جس کا مقصد سینٹرل جیل کی بیرک نمبر 25 اور 26 میں قید انتہائی خطرناک دہشت گردوں اور کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے افراد کو چھڑانا تھا۔

سینٹرل جیل کی مذکورہ بیرک میں 100 سے زائد انتہائی خطرناک اور کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے قیدی موجود ہیں، جس مکان میں سرنگ تیار کی جا رہی تھی وہ مکان 5 ماہ قبل ہی خریدا گیا تھا اور دہشت گرد انتہائی حساس آلات کی مدد سے سرنگ کھودنے میں مصروف تھے، دہشت گرد سرنگ کی مٹی کو انتہائی منظم انداز میں مختلف پارسل یا پیکٹ صورت میں کسی دوسرے علاقے میں پھینک آتے تھے۔ گرفتار دہشت گردوں نے دوران تفتیش بتایا کہ انھیں مذکورہ سرنگ 55 میٹر تک کھودنی تھی جس کے بعد جیل کے اندر ایک غیر استعمال شدہ کنویں سے اسے ملانا تھا، ملزمان نے مذکورہ سرنگ45 میٹر تک کھود لی تھی اور جس وقت رینجرز نے مکان پر چھاپہ مارا تو اس وقت سرنگ کی مطلوبہ لمبائی ہدف سے صرف 10میٹر دوری پر تھی۔

کرنل طاہر محمود نے بتایا کہ مکان پر چھاپے کے وقت حراست میں لیے جانے والے دہشت گروں کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا تاہم رینجرز کو ملزمان کے قبضے سے مختلف اقسام کے انتہائی حساس نوعیت کے آلات ضرور ملے ہیں، حراست میں لیے جانے والے ملزمان کی نشاندہی پر شہر کے مختلف علاقوں میں مزید کارروائیاں کی گئیں اور کئی دہشت گردوں کو حراست میں لے کر ان کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کر لیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ جس مکان میں سرنگ تیار کی جا رہی ہے کچھ عرصے قبل ایک شخص نے اسے فروخت کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ جیل توڑنے کے منصوبے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری سے متعلق وہ کوئی بات نہیں کر سکتے۔ کرنل طاہر محمود کے مطابق اس سازش میں کالعدم تنظیم کے دہشت گرد ملوث ہو سکتے ہیں، دریں اثنا وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے سینٹرل جیل کراچی سے خطرناک قیدیوں کو فرار کرانے کا منصوبہ ناکام بنانے پر سندھ رینجرز کے افسران اور جوانوں کو شاباشی دی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے خطرناک منصوبے میں ملوث دیگر عناصر کا سراغ لگانے کے لیے آئی جی سندھ اور سیکریٹری داخلہ سندھ کو انکوائری کی بھی ہدایت دی ہے۔ انھوں نے آئی جی جیل خانہ جات کو صوبے بھر کے تمام جیلوں کی فول پروف سیکیورٹی کے لیے موثر حکمت عملی ترتیب دینے کی بھی ہدایت کی ۔

کراچی سینٹرل جیل کے نیچے سرنگ کھودنے کا واقعہ اس امر کا غماز ہے کہ دہشت گردی کا تسلسل جاری ہے، ملکی جیلوں اور اس کے اطراف کے علاقوں میں سیکیورٹی نظام کی مزید اوورہالنگ کی سخت ضرورت ہے، بلاشبہ رینجرز نے بڑا بریک تھرو کیا ہے۔ اتنی بڑی سرنگ کا کھودنا غیر معمولی واقعہ ہے۔ تاہم ترقی یافتہ ممالک میں بھی جیل توڑنے یا اس سے متعلق قانون شکنی کے دیگر واقعات کے پس پردہ قیدیوں کی حالت زار، جبر، اور جیل حکام کی بدانتظامی کے علاوہ بیرونی عوامل و محرکات کو ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ہماری جیلیں جرائم کی نرسری کہلاتی ہیں۔

جہاں خطرناک مجرم بیرکوں میں راج کرتے ہیں۔ جیل توڑنا یا جیل کے نیچے سرنگ نکالنے کی مہم جوئی قانون کی حکمرانی پر ایک تازیانہ ہے۔ قوم خود بھی ایک سیاسی سرنگ میں پھنسی ہوئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ارباب اختیار سماج کو تشدد اور قانون شکنی سے بچائیں، اور سرنگ کے اس واقعہ کے اصل ماسٹر مائنڈ کو جلد از جلد تلاش کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔