افغانستان میں طالبان کی بڑی کارروائیاں

ایڈیٹوریل  بدھ 15 اکتوبر 2014
افغانستان میں طالبان اب بھی بڑی قوت ہیں اور وہ اس کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ فوٹو فائل

افغانستان میں طالبان اب بھی بڑی قوت ہیں اور وہ اس کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ فوٹو فائل

افغانستان میں متنازعہ صدارتی انتخاب میں دونوں صدارتی امیدواروں کی بمشکل مصالحت کے بعد قیام امن کی توقع کو اس وقت شدید دھچکا لگا ہے جب طالبان کی سرگرمیوں میں کمی کے بجائے الٹا اضافہ ہو گیا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق اگلے روز طالبان نے افغان پولیس کے ایک قافلے پر اچانک حملہ کر کے 22 پولیس اہلکاروں کو ہلاک اور آٹھ کو زخمی کر دیا جب کہ سات پولیس افسروں کو اغوا کر کے اپنے ساتھ نامعلوم مقام کی طرف لے گئے۔ اس حملے میں پولیس کی دس گاڑیوں کو بھی جلا دیا گیا۔ افغان ذرایع نے جھڑپ میں 23 طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ یہ حملہ افغانستان کے علاقے سری پل میں ہوا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق جب طالبان نے پولیس قافلے پر حملہ کیا، اس وقت اتحادی فوج کی مدد بھی طلب کی گئی مگر ان کی کمک بر وقت نہ پہنچ سکی۔ جس کے باعث پولیس کا جانی نقصان زیادہ ہوا۔ اتحادی فوج کی آمد تک طالبان اپنی کارروائی مکمل کر کے فرار ہونے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ افغانستان کے صوبائی گورنر عبدالجبار اور پولیس حکام نے جھڑپ میں ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ طالبان نے جن پولیس افسروں کو اغوا کیا ہے ان کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ انھیں اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے استعمال کریں گے۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شدید جھڑپ تھی اور فریقین کے درمیان خاصی دیر تک لڑائی ہوتی رہی۔

ادھر دارالحکومت کابل میں ایک طالبان خودکش بمبار نے بارود سے بھری کار کو اتحادی فوج کے قافلے سے ٹکرا دیا تاہم امریکی ذرایع نے کسی اتحادی فوجی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی تصدیق نہیں کی البتہ ایک شہری کے مرنے کی اطلاع ہے۔ اتحادی فوجی قافلے پر حملے کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا کہ امریکی، نیٹو اور دیگر اتحادی فوجوں کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود طالبان اس قدر کھل کر کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تو غیرملکی افواج کے انخلاء کے بعد ان کی سرگرمیوں میں کس قدر اضافہ ہو جائے گا۔ امریکا جہاں سال رواں کے آخر تک اپنی فوج واپس بلانا چاہتا ہے ۔

وہاں وہ اتحادی ممالک پر یہ زور بھی دے رہا ہے کہ وہ اپنی فوجوں کے انخلاء میں عجلت کا مظاہرہ نہ کریں چنانچہ ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ جرمن حکومت رواں برس افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد وہاں موجود اپنے فوجی مشن میں توسیع کر سکتی ہے۔ جرمنی کے نیوز میگزین ڈیئر شپیگل نے رپورٹ میں کیا کہ جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی حکومت اِس پر غور کر رہی ہے کہ افغانستان کے لیے اْن کے ملک کی جانب سے پہلے سے جاری فوجی تربیتی مشن میں توسیع کر دی جائے۔ جرمن حکومت کا فوجی تربیتی مشن ایک سال کی ممکنہ توسیع کے بعد دسمبر 2015ء میں ختم ہو گا۔ادھر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں امریکا کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے کے خلاف مظاہرے کی اطلاع بھی ہے۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھا جائے تو افغانستان میں استحکام کی امید نظر نہیں آتی۔

افغانستان میں نئے حکومتی سیٹ اپ کے قیام کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ اب یہاں ایک مستحکم نظام قائم ہو جائے گا کیونکہ نئے سیٹ اپ میں افغانستان کے تمام نسلی ولسانی گروہوں کو نمایندگی دی گئی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان میں طالبان اب بھی بڑی قوت ہیں اور وہ اس کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ اب مشرق وسطیٰ میں جنم لینے والی جنگجو تنظیم داعش کے اثرات بھی افغانستان میں نظر آ رہے ہیں۔ یوں آنے والے دنوں میں افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے امریکا اور اتحادی ممالک کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ پاکستان کو بھی اس صورت حال سے پریشانی ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں بھی طالبان سر اٹھا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔